|

وقتِ اشاعت :   July 31 – 2019

بلوچستان میں ایسی صورتحال نہیں تھی کہ این جی اوز کی بھرمار،غیر سرکاری تنظیموں کا وجود میں آنا،پھر ان میں بھرتیوں کاعمل اور پُرکشش تنخواہیں، یہ تمام عوامل افغان جنگ کے بعد دیکھنے کو ملے، اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی تیزی سے کام کیا گیا جن کی کوئی مانیٹرنگ نہیں کی گئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ جو این جی اوز، فلاحی ادارے انسانی فلاح وبہبود کیلئے کام کررہے ہیں انہیں بھی مشکوک انداز میں دیکھا جاتا ہے جبکہ مدارس کی بھی یہی صورتحال ہے کہ جس طرح افغان جنگ سے قبل مدارس کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی،کمیونٹی کے لوگ دینی خدمت کے پیش نظر مشترکہ طورپر مسجدوں سے منسلک مدارس چلاتے تھے، مقامی گاؤں کے لوگ علمائے کرام کی ضروریات پوری کرتے تھے بلکہ دو وقت کا کھانا گاؤں کے لوگ فراہم کرتے تھے۔

اس وجہ سے علماء کرام کا کردار سماج میں محدودو ہو کر رہ گیا تھا بلکہ سماج میں مسجد یا مدارس کا کوئی کلیدی کردار نہیں تھا۔واجبی معاملات میں علمائے کرام اور پیش امام حضرات چند ایک خدمات سر انجام دیتے تھے جس کے معاوضے کے طورپر سماج ان کی سرپرستی کرتی تھی۔

ماضی کے حکمرانوں پر اچانک انکشاف ہوا کہ روسی یلغار کو روکنے کیلئے مدارس کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، یہاں لوگوں کو اسلام اور سیاسی تعلیم دی جائے تاکہ افغانستان کے بعد روس بلوچستان اور کے پی کے کا رخ نہ کرے۔ اس کے لئے امریکا اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں نے ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے مدارس قائم کیے۔

ایک مرحلے میں ایک ہزار مدرسے قائم کیے گئے جن میں ایک ایک ہزار طلباء کو مفت تعلیم، کھانا اور رہائش فراہم کی گئی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا۔ان مدارس کی مالی امدادکن ممالک سے ہوتی رہی اس سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں جبکہ بعض مذہبی پارٹیاں انہی مدارس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگے۔

اسی طرح این جی اوز سے اپنے مفادات کیلئے کام لیا گیا جس سے نقصان زیادہ اٹھانا پڑا۔مگراب اس کے تدارک کیلئے گزشتہ دور سے جاری مختلف آپریشنز میں ان تمام غیر رجسٹرڈ این جی اوز اور مدارس کو رجسٹرد کرنے کاکام ہورہا ہے اس سے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کی سفارشات پر عملدرآمد کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ حیدر علی شکوہ، ایڈیشنل آئی جی پولیس اور متعلقہ اداروں کی جانب سے سفارشات پر عملدرآمد کی پیشرفت سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کی گیارہ سفارشات پر عملدرآمد جاری ہے جن میں منی لانڈرنگ کے ذریعہ دہشت گرد تنظیموں کو کی جانے والے فنڈنگ کو روکنا، کالعدم تنظیموں کے اثاثہ جات کی ضبطگی اور بنک اکاؤنٹس کا منجمد کیا جانا، غیر سرکاری تنظیموں اور غیر منافع بخش تنظیموں کی رجسٹریشن اور ان کے کوائف کے حصول کے علاوہ چیریٹی لاء کے لئے قانون سازی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ضبط اور منجمد کئے گئے اثاثہ جات اور اکاؤنٹس کی مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قائم کردی گئی ہے، متعلقہ کیسز کی تعداد 55ہے، جن کا اندراج سی ٹی ڈی میں کیا گیا ہے اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں، اجلاس میں این جی اوز اور این پی اوز کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ تمام ڈپٹی کمشنر اپنے اضلاع میں کام کرنے والی ان تنظیموں کا ڈیٹا تیار کریں گے۔،

اجلاس میں غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان چیریٹیز (رجسٹریشن اینڈ فیسیلیٹیشن بل 2019ء) منظوری کے لئے صوبائی کابینہ کو پیش کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر عملدرآمد امن کے قیام کے لئے ہمارے اپنے مفاد میں بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ متعلقہ محکمے اور ادارے اس ضمن میں پیشرفت کریں خاص طور سے ڈپٹی کمشنراپنا فعال کردار ادا کریں۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے اس عمل میں تیزی لانا یقینا مثبت نتائج برآمد کرے گا بشرطیکہ کے اس تسلسل کو جاری رکھا جائے اور تمام غیر رجسٹرڈ این جی اوز اور مدارس پر پابندی لگائی جائے تاکہ حقیقی معنوں میں نیک نیتی سے کام کرنے والے فلاحی اداروں اور مدارس پر اس کا منفی اثر نہ پڑے۔