|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2019

مولانا صاحب کوئٹہ آئے, پاور شو دکھا کر چلے گئے اس پاور شو میں وہ اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ عمران خان کا دھرنا یاد آگیا۔ بلوچستان میں پاور شو دکھانے کا مقصد کیا تھا یہ خدا جانے۔ جلسے کا مجمع دیکھ کر پہلے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیانگاہیں دھندلا گئیں بڑی مشکل سے آنکھوں کو یقین دلایا ورنہ یقین کرنے یا نہ کرنے سے کیا جائے گا۔ سب لوگوں نے اعتراف کیا کہ کوئٹہ کی سطح پر یہ بڑا پاور شو تھا مولانا صاحب نے عمران خان کو اسی انداز میں للکارا جس انداز میں عمران خان نواز حکومت کو للکار چکے تھے۔

اسے آغاز قرار دے دیا اختتام کا عندیہ انہوں نے اسلام آباد کی طرف رخ کرکے دے دیا۔ اب خدا جانے آگے چل کر کیا ہوگا اس پیغام کو کیا سمجھا جائے۔ مولانا صاحب کا پاور شو دیکھ کر ایک بات تو ضرور سمجھ میں آئی کہ مولانا صاحب جس گرین سگنل کا انتظار کر رہے تھے وہ انہیں بلاآخر مل گیا ہے وہ عمران خان کی مانند طاقت کا مظاہرہ کر پائیں گے کہ نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتا پائے گا البتہ گرین سگنل اور پاور شو نے سابقہ داغ دھو ڈالے۔ ورنہ 2014کے جلسے کے بعد مولانا کے کانوائے پر

حملہ یہ عندیہ دے چکا تھا کہ شاید جے یو آئی نے جلسے کا ٹائمنگ غلط وقت پہ فکس کر چکا ہے اور دوبارہ کوئٹہ میں جلسہ منعقد نہ ہونے پائے مگر جلسہ ہوا کامیاب ہوا۔اُن سے پہلے مریم نواز صاحبہ کوئٹہ آئیں، یہ جلسہ ان کی پارٹی کی طرف سے نہیں بلکہ 2013کی حکومت میں شامل ان کی حلیف جماعتوں نے منعقد کرایا تھا۔ پشتونخواہ میپ، نیشنل پارٹی اور ن لیگ کے اراکین نظر آئے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ موجود ضرور نظر آئے مگر ان کی پارٹی بہت کم نظر آئی البتہ پختونخواہ میپ اپنی ٹیم کے ہمراہ ضرور نظر آئی۔ اندازہ یہی لگایا جا رہا تھا کہ مریم نواز کی شرکت کو دیکھتے ہوئے ان کے چاہنے والوں کا مجمع ہوگا کہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ملے گی مگر ایسا نہیں ہوا،جلسے میں 6000کے آس پاس ہی لوگ نظر آئے۔ جلسے کے بعد ہمارے ایک دوست نے تبصرہ کر ڈالا کہ مذکورہ جلسے کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اور بلوچستان میں جو سیاسی خلاء موجود ہے اسے بلوچستان کی سطح پر ایک عوامی طاقت ہی پر کر سکتی ہے۔ مگر جے یو آئی نے جس پاور شو کا مظاہرہ کیا،کیا اسے عوامی طاقت کہا جا سکتی ہے؟

بلوچستان کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ یہاں جس پارٹی کا بیج بویا جاتا ہے راتوں رات وہ تناور درخت بن کر کھڑا ہو جاتی ہے اوراُس درخت کو مصنوعی پانی سے اتنا مضبوط کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کی دیگر پارٹیاں عوامی طاقت کے بل بوتے پر انہیں زیر نہیں کر سکتیں، یہ پیپلزپارٹی تھی، ق لیگ تھی، ن لیگ تھی، اب یہ باپ لیگ بن کر سامنے آئی ہے۔ بلوچستان کی اس سیاسی لیبارٹری میں جو تجربے کیے گئے چہرے تو وہی تھے صرف پارٹیاں بدل بدل کر سامنے آئیں۔

جب بھی پارٹی پرانی ہوجائے تو نئی پارٹی در آتی ہے عنوان یہ دیا جاتا ہے کہ بلوچستان حقیقی پارٹی سے محروم ہے اس لیے اس کے کھاتے میں ایک نئی پارٹی کا اضافہ کرکے ان خدشات کا ازالہ کیا جائے گا۔صادق سنجرانی جیسے غیر معروف شخص کو ایوان بالا کے اعلیٰ عہدے پر بٹھا کر احسان بھی بلوچستان پر کیا جاتا ہے۔ برخوددار نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے بلوچستان میں ایک پارٹی ہوا کرتی تھی، عوامی طاقت سے برسراقتدار آئی۔ مگر اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا صرف نو ماہ تک اختیارات کے ایوان میں رہنے دیا گیا پھر بزور طاقت نکال دیا گیا۔ نیپ قائدین کے ساتھ کیا ہوا غداری کا لیبل لگا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا اس کے بعد نہ ہی نیپ نے سر اٹھائی اور نہ ہی وہ قائدین دوبارہ سامنے آئے۔

بلوچستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام جب بھی آتاہے تو ایک سیاسی رہنما ء کے طور پر نہیں بلکہ ایک ولن کے طور پر آتاہے۔ان کے دور میں بلوچستان سیاسی محاذ کے بجائے جنگی تجربہ گاہ بنا رہا۔ جنگی فارمولے آزما کر بلوچستان کو خون میں نہلایا گیا۔ جنگی فارمولے کے نتیجے میں بلوچستان سیاسی میدان کے بجائے مذاحمتی میدان بن گیا۔سیاسی لیبارٹری کا ایک ایسا میدان تیار کیا گیا کہ ا س میدان میں نہ سیاسی لوگ تھے اور نہ ہی عوامی بلکہ ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ تھے۔ پھر سب نے دیکھا کہ حالات نے پلٹا کھایا، جھوٹے مقدمات جو سیاسی قائدین پر بھٹو دور میں قائم کیے گئے ضیا دور میں عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری کردئیے گئے۔ مگر جو سیاسی لیبارٹری قائم کی گئی اس میں انہوں نے دوبارہ شامل ہونا مناسب نہیں سمجھااور رہائی کے بعد جمہوری اور سیاسی جدوجہد ترک کرکے خاموشی کا راستہ اپنا لیا۔ اسی خاموشی نے ملاؤں کے لیے راستہ صاف کیا اور انہیں اقتدار کی ایوانوں تک پہنچانے کا راستہ فراہم کیا۔

تاریخ کے اوراق جب بھی پلٹتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی میدان پر حقیقی کھلاڑیوں نے جب بھی کھیلنے کی کوشش کی تو انہیں کھیلنے کے لیے نہ ہی سازگار پچ فراہم کیا گیا اور نہ ہی انہیں وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے دیا گیا بلکہ ان کی راہوں میں کانٹے بچائے گئے۔ خود مریم نواز کی والد کا دور حکومت بلوچستان کی تاریخ میں سیاہ باب رقم کر گیا جب سردار اختر مینگل کی جماعت کو مخلوط حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور بلوچستان کی زرخیز زمین کو ایٹمی دھماکے کی تابکاریاں اپنی جھولی میں بھرنی پڑیں۔ اس کے بعد جو منظرنامہ بنا دیا گیا وہ کافی بھیانک تھی مشرف دور حکومت میں جب بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں الیکشن سے بائیکاٹ کر چکی تھیں تو ایک طرف انہیں سیاسی پچ سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور دوسری جانب ان کی غیرموجودگی میں غیرسیاسی لوگوں کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کر گیا۔

مشرف کی اپنی تخلیق کردہ جماعت مسلم لیگ ق اور جے یو آئی کو بلوچستان کے سیاسی میدان میں کھل کر کھیلنے کی اجازت ملی حکومت میں شامل چہروں نے محض اپنے مفادات کو دوام دیا اور مقتدر حلقوں کی بنائی ہوئی پچ پر ان ہی کے اشاروں پر کھیلتے رہے۔ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو جب بھی سیاسی میدان سے دور کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کے لیے مزاحمت کا راستہ ہموار کیا گیا اور اس مزاحمت کو کچلنے کے لیے جنگی لیبارٹری کے فارمولے آزما ئے گئے۔ اس لیبارٹری میں آج تک جتنے تجربات کیے گئے بظاہر تو کامیاب ہوئے مگر ان تجربات نے بلوچستان اور وفاق کے درمیان وہ خلیج قائم کی ہے جسے پر کرنا بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔

تیار شدہ منظرنامے میں جہاں حقیقی چہرے غائب ہیں، پارٹیاں ہیں چہرے ہیں جلسے جلوس ہیں نعرے ہیں عنوانات ہیں۔عنوانات میں بلوچستان کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔قائم شدہ سیاسی لیبارٹری میں چہرے وہی نظر آتے ہیں جو آباؤ اجداد سے وفاداری کا تمغہ سینے پر سجائے بیٹھے ہیں اب ایسی تجربہ گاہ جہاں حقیقی آوازوں کے بغیر فقط نعرے سنائی دیتے ہیں،یہ لیبارٹری اب کارگر فارمولے کے تحت چل رہا ہے خدا جانے کب تک چلتا رہے لیکن جب تک چلتا رہے گا اس میں وہی کھلاڑی کھیلتے رہیں گے۔