ایک ایسے علاقے سے میرا تعلق تھا جہاں ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع ناپید تھے سواری کی ضرورت آن پڑی تو پہلا سوال سیکھنے کا تھا۔آغاز ہی تھا کہ سین لمحوں میں بدل گیا موٹرسائیکل بے قابو ہو ا پہلی بار موٹر سائیکل کی طاقت کا اندازہ ہوا اور سیکھے بنا موٹر سائیکل سے چوٹ کھا گیا۔
اس کے بعد سیکھنے کی خواہش فقط حسرت بن کر رہ گئی۔ گرتے ہیں شہسوار میدان جنگ میں، لیکن یہ میدانِ جنگ تھا ہی نہیں فقط ایک خالی میدان تھا اور میدان میں گرے ہوئے شہسوار پر سواری ہنس رہا تھا سو شہسواری کا ارادہ ترک کرکے دوبارہ اسے نہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔
کوئٹہ نشین ہوئے کئی مہینے گزر چکے ہیں۔بے شمار مسائل کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ ٹرانسپورٹیشن کا ہے حکومتِ بلوچستان نے کوئٹہ کی شاہراہوں پر بس سروس چلانے کا اعلان کیا،اول تو حکومتی اعلانات پر یقین ہی نہیں آیا دوئم یہ کہ کوئٹہ کی تنگ سڑکیں، بڑھتی ہوئی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے حکومتی وعدے وفا ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔شہر کے باسیوں کو رہائش، کھانے پینے کے بھاری اخراجات کے علاوہ مہنگے ٹرانسپورٹیشن کا بھی سامنا ہے۔
ٹرانسپورٹیشن کا باقاعدہ میکنزم نہ ہو، اپنی سواری نہ ہو تو ٹرانسپورٹیشن کے لیے رکشوں سے ہی واسطہ پڑ تا ہے تو ایسے حالات میں کم آمدنی والے افراد کے لیے رکشے کا کرایہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ کمرے سے بہت کم نکلتا ہوں دوستوں کے شکوے شکایتیں آتی ہیں دل ان سے ملنے کو مچلتاہے مگر کوئٹہ میں رہتے ہوئے مہینے مہینے بھر ان سے ملاقات نہیں ہوپاتی، اب اس مسئلے سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔گزشتہ ایک ماہ سے سوچ و بچار میں مصروف تھا کہ موٹرسائیکل سے یاری ہوجائے اطلاع ملی کہ سریاب روڑ پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کزن کا روڑ ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ایک بار پھر سے ارادہ ترک کرکے اپنی موجودہ حالت پر اکتفا کرنا پڑا۔۔
عیادت کے لیے بولان میڈیکل ہسپتال جانا تھا سڑک پر کھڑے کھڑے رکشے والوں سے کرایہ پر تکرار ہوتی رہی۔ کڑھتا رہا کہ پاکستانی روپیہ کبھی بھی اپنے قدم جما نہیں پاتا ورنہ اتنی تو تو میں میں رشتوں کو طے کرتے وقت نہیں کرنی پڑتی ہے جتنی رکشے اور سواری کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ تکرار اور تو تو میں میں رکشہ اور گاہک کے درمیان ایک قدیم رشتے کو ظاہر کرتا ہے جو انہیں ورثے میں ملی ہے تکرار کی اس پوزیشن میں دونوں کو اپنی اٹکی ہوئی سوئی کو آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے۔ کئی رکشے اس تکرار کی زد میں آئے تعلق نہیں بن پایا اور چلے گئے۔ کرتے کرتے ایک ایسے رکشہ ڈرائیور سے واسطہ پڑا جو معقول کرایہ پر لے جانے کو راضی ہوا۔ نام پوچھا تو جواب ”ملا منیر رند“۔
چند سوالات کے بعد منیر کھل کر زندگی کی داستان سنانے لگا،وہ اوراق پلٹتا رہا میں خاموشی سے سنتا رہا۔زندگی کی کہانی سناتے سناتے بی ایم سی ہسپتال پہنچے تو وقت کا پتہ نہیں چلا۔۔ منیر کا بنیادی تعلق ڈھاڈر سے ہے، ذریعہ معاش کی فکر ان کے خاندان کو کوئٹہ لے آیا۔ بھئی کیسے ہیں آپ کے سردار۔ پہلا سوال ان سے قبیلے کے سربراہ سے متعلق تھا؟ ہنس کر جواب دیا”سردار کے وارے نیارے ہیں اور تکلیف میں عام آدمی ہے“۔
ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ سرداری نظام پر یقین نہیں رکھتے۔”پوری قوم سردار کے چھتری تلے ہی پناہ لیتی ہے یہ انکار کیسی؟“ میرا اگلا سوال ان سے یہی تھا۔ توجو جواب ملا وہ پوری کہانی کو خلاصہ فراہم کرنے کے لیے کافی تھا ”مجھے سردار پر نہیں اپنے آپ پر یقین ہے۔ اپنی محنت پر یقین ہے سردار کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جن کا معاشی نظام سرداری نظام سے جڑا ہوا ہے میرا نظام میری محنت سے“۔
منیر کی تعلیم گو کہ میٹرک تک ہے مگر زندگی کے حقائق اور تلخ تجربات نے اسے شعور بخشا ہے۔ میٹرک سے آگے حصولِ تعلیم میں غربت رکاوٹ بنگئی تو تعلیم ترک کرکے مزدوری کا راستہ اپنایا اور مزدوری کے لیے کراچی کا رخ کیا جسے منیر اپنی اصلاحی شہر قرار دیتے ہیں۔
وہیں سے مقامی کمپنی میں بطور سیکورٹی گارڈ کام کرنا شروع کیا۔ منیر کے بقول جب کوئٹہ سے کراچی کے لیے رختِ سفر باندھ رہا تھا تو ان پر قرضوں کا بوجھ تھا تہیہ کر چکا تھاکہ جب تک قرضے نہیں چکتاؤں گااس وقت تک کوئٹہ واپس نہیں جاؤں گا۔ اس کے لیے انہوں نے کمپنی میں ڈبل شفٹ کام کرنا شروع کیا۔ بسا اوقات پیسے جیب میں نہیں ہوتیتو بھوک کو اندر ہی اندر مٹا دیتے مگر کسی کے سامنے سوالی بن کر کھڑا نہیں ہوئے۔ اس وقت تک کراچی میں رہے جب تک تمام قرضوں کی ادائیگی نہیں ہوئی۔
منیر نے محنت مزدوری سے نہ صرف اپنا گھر بنایا، کہتے ہیں کہ رکشہ جو چلا رہا ہوں اپنی کمائی کا ہے اس میں مطمئن ہوں کہ جو بھی ہے اپنا ہے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں۔ منیر کے بقول زندگی نے انہیں ہاتھ پھیلانے کے بجائے خودداری سکھائی۔ ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے منیر زندگی کے حقیقی اور تلخ تجربات میری سماعت کی نذرکر چکا تھا داستان سنتے سنتے گہری سوچ میں ڈوب چکا تھا، رکشے سے اترتے ہوئے آواز کانوں میں آئی ”شاید آپ کو میری کہانی پر یقین نہیں آئے“ نہیں سچی کہانیاں دل سے بولی جاتی ہیں اور آپ دل سے بول رہے تھے۔ میں نے جواب دیا اور نیک تمناؤں کے ساتھ اسے خداحافظ کہتے ہوئے ہسپتال کی طرف قدم بڑھائے۔
بولان میڈیکل ہسپتال کی سرجری وارڈ تک پہنچتے پہنچتے منیر کو ہی سوچتا رہا۔ اس کی خودداری کی تصویر بار بار میرے سامنے گھومتی رہی۔ انکار ہی بغاوت کو بنیاد فراہم کرتی ہے بغاوت غالباً اس کے اندر ہے شاید بغاوت کا یہ عنصر ہر مقام پر موجود ہو مگر اس کی جھلک بہت کم دکھائی دیتی ہیہ
وہ بغاوت جو آپ کو ان بندھنوں سے آزاد کرے جو سماج کے پیدا کردہ ہیں سردار کے، نواب کے، ریاست کے پیداکردہ ہیں، تب آپ کے اندر ایک قوت در آتی ہے وہ قوت اپنے وجود کا ہے اپنی وجود کی موجودگی کا ہے اور یہ چیز وجود کو وجدان بخشتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ سماج میں نہ جانے کتنے منیر ہوں گے جو خودداری کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ میرے اور منیر کے درمیان وقت کا تعلق فقط آدھے گھنٹے میں بندھا رہا مگر اس کا عکس دل کے کونے میں اب بھی جھانک رہا ہے مسکرا رہا ہے۔