|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2019

کون نہیں جانتا کہ تاریخ کے دو بڑے حصے ہوتیہیں ایک وہ جس کو ہم ماضی کہتے ہیں یعنی جو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ جسکو مستقب کا نام دیا جاتا ہے یعنی جو آنے ولا ہے جس کو ظہور پذیر ہونا ہے اگر کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت وژنری ہے اور عقل و بصیرت رکھتا ہے ۔

تب وہ اپنی تاریخ میں سر زد ہوین والے غعلطیوں سے مستفید ہوکر ماضی اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی روشن مستقبل کے لئے اس قسم کی پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرتا ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکے اور نا اہل اور نالائق قیادت اپنے ملک اور قوم کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو دھمک لکڑی کے ساتھ کتا ہے۔

جب وطن بہت سے اور سینکڑوں کی تعداد میں ہوں اور ہر قوم دوسری پر اپنی تسلط اور بالادستی قائم کرنے کا خواہش مند بھی ہو تب ان کے درمیان چپقلش اور محاز آرائی کا پیدا ہونا نا گزیر ہوجاتا ہے دو عالمی جنگیں ویت نام موار افغان جنگ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔

جدید تاریخ میں قوموں کے درمیان خونریزی اور تنازعات پر قابو پانے کے لئے ایک حل کارل مارکس نے پیش کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے ایک پر امن اور خوشحال دنیا وجود میں لایا جاسکتا ہے اور دوسرا حل لیبرل ڈیمو کریسی نے پیش کی ہے اس میں دور رائے نہیں ہیں کہ قوموں کے مابین رھن اہم معاملات کو خشو اسلوبی سے حل کرنے میں جدید جمہوریت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ لبرل ڈیمو کریسی قومی سوال اور مذہب تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مختصر یہ کہ صدیوں کی کہکانی یہ ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں طاقتور قوموں نے دنیا پر حکمرانی کی جیسا کہ یونانی، رومی اور عرب باری باری حکمرانی کرتے رہے۔اور 21 ویں صدی میں سارے راستے امریکہ اور چین کی طرف جاتے ہیں یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ ہٹلر، ستالن، ٹرمپ، مودی، ضیاء الحق اور پوٹن جیسے سیاسی لیڈر آے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اس خوبصورت دنیا کا کیا حشر نشر کریں گے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

البتہ ہٹلروں اور ستانوں کی اس بڑے ہجوم میں کچھ ایسے شخصیات بھی پیدا ہوتے رہے ہیں جو بلا امتیاز رنگ و نسل اور دین و درہم سب کو اپنی ظطرف موتجہ کرتے رہے ہیں جیساکہ”نیلسن منڈیلا“جیسا کہ نیوزی لینڈ کے موجودہ وزیر اعظم محترمہ جینڈا آرڈن، مختصر یہ کہ ہم میر غوث بخش بزنجو کو بھی بلند شخصیات کی اُس فہرست میں شامل کرتے ہیں جس نے ابتداء ہی سے اپنا سیاسی رشتہ مظلوم قوموں اور کمزور طبقات سے جوڑا آپ روشن خیالی ترقی پسندی، لبرل ازم اور سماجی انصاف جیسے فکری تصورات کے بڑے حامی تھے اور ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے رہے جہاں انسانی وقار اور عظمت ہو۔

پاکستان کے تناظر میں میربزنجو کی سیاسی فکر کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان ایک کثر القوامی ریاست ہے جن کو ہم صوبے کہتے ہیں وہ انتظامی یونٹ نہیں ہیں بلکہ تاریخی وحدتیں ہیں اوران میں سے ہر وحدت کی صدیوں پرانی اپنی اپنی تاریخ ادب، زبا اور روایات ہیں اور یہاں پر بسنے والے قوموں کو مطمئنکرنے کا صرفایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست میں تبدیل کیا جائے اور وسائل اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔

بصورت دیگر صوبوں اور مرکز کے مابین محز آرائی کا پیدا ہونا یقینی ہے جو کسی بھی اعتبار سے ملک کے مفاد میں نہیں جاتی یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں مسلم لیگ عدم مرکزیت کا بہت بڑا حامی تھا اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ مسلم لیگ یا تحریک پاکستان کا مرکزی مطالبہ رہا مسٹر جناح نے اپنے 14 نکات میں صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا تھا اور 1940 ء کی قرارداد لاہور میں ایک حقیقی فڈرینش کا رنگ غالب نظر آتا ہے ۔

اور کیبنٹ مشن پلان مسلم لیگ نے اس لئے قبول کیا تھا کہ اس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی ایک واضع تقسیم موجود تھی چند ایک امور کو چھوڑ کر باقی سارے امور صوبوں کو سونپ دی گی تھیں قیام پاکستان کے بعد سیکورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر اٹانامی کے مسئلے کو نظر انداز کیا گای جس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے۔

1973ء کا آئین بنانے والوں نے یہ یقین دہانی کی تھی کہ 10 سال کے بعد وفاقی اکائیوں کو مکمل طور پر خود مختار بنایا جائے گا لیکن جنرل ضیاء کی مارشل لاء کی وجہ سے اس میں پیش رفت نہ ہوسکا اور اپریل 2010 ء میں وجود میں آین والی 18 ویں ترمیم پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کی طرف ایک سنجیدہ کوشش ہے اورایک ہی وقت میں میر بزنجو اور عدم مرکزیت کے حامیوں کی ایک بہت بڑی کامیابی بھی لیکن بد قمستی سے 18 ویں ترمیم کو ختم کرنے کی سوچ طاقتور حلقوں میں موجود ہے ان کا کنہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں علیحدگی پسندی کے رجحانات کو فروغے ملے گا لیکن ملکی تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں۔

کہ اگر 1950ء یا 1960ء کی دہائی میں 18 ویں ترمیم جیسی کوئی ترمیم تخلیق کی جاتی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہر گز نہ بنتا اور نہ ہی ہر پانچ دس سال بعد بلوچستان میں بد امنی اور بے چینی پیدا ہوتی اور نہ ہی سندھ اور خیبر پختون خواہ مختلف سمتوں میں بھاگتے رہے گزشتہ 72 سال کے دوران ملکی حکمران مہم جوئی اور حماقتیں کرتے رہے ہیں اگر 18 ویں ترمیم کو ختم کیا جاتا ہے تب یہ اتنی بڑی حماقت ہوگی جتنی کہ مسٹر بھٹو کی پھانسی تھی جس کے پورے ملک میں اور خصوصاً چھوٹے صوبوں میں نہایت منفی اثرات مرتب ہونگے۔

قصہ مختصر ملک کی معاشی صورتحال ہو یا سیاسی صورتحال دونوں امید افزا نہیں ہیں بڑھتی ہوئی آبادی ایک بہت مسئلہ ہے پانی کی قلتایک بہت بڑا چیلنج ہے بیرونی قرضے، ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی ہوئی تلوار، بے قابو مہنگائی اور بے روز گاری بہت بڑے چیلنجز ہیں۔
اسی طرح لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے زوال کسی ایک شعبے میں نہیں ہے۔

زراعت ہو یا صنعت، تعلیم ہو یا صحت، غرض تمام شعبے جمہود اور زوال کا شکار ہیں لکن مایوس کن بات یہ ہے کہ ملک کو درپیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لےء حکومت کے پاس نہ وژن ہے اور نہ ہی سمت ماضی میں کوئی بھی حکومت ایسی نہیں گزری جو 10 ماہ میں اتنی مفلوج دکھائی دی ہو حکومت کی پوری توجہ صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ کسطرح اپوزیشن کی آواز کو دبایا جائے احتساب کے نام پر حاکم وقت مخالفین کو جیلوں میں ڈال رہا ہے میڈیا پر جتنی پابندی آج ہے آمروں کے زمنے میں بھی نہیں ہوتا تھا آج صحافی کو جان کا بھی خطرہ ہے اور مال کا بھی گویا ملک تیزی سے خاشزم خانہ جنگی اور انتشار کی طرف سفر کررہا ہے۔ اللہ خود ملک پر رحم کرے ورنہ حکومت وقت نے ملک کو تباہ و برباد کرنے کے تمام لوازمات فراہم کی ہیں۔