ایک زمانہ تھا جو گزر گیا وہ زمانہ تھا بچپن کا، کرکٹ اور ریڈیو کا۔کرکٹ اور ریڈیو کا بھوت ایسے سوار ہوا کہ زندگی ان کے بغیر ادھورا ہی محسوس ہوتا تھا، غنیمت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصروفیات نے دونوں سے جان چھڑائی ورنہ تو آج بھی جھکڑ کر رہ جاتے مگر یقین جانیں دونوں آج بھی میری پسندیدہ انتخاب کا حصہ ہیں۔ محفلوں میں جب کبھی ریڈیو اور کرکٹ زیر بحث آتے ہیں تو میں ضرور اس بحث کا حصہ بن جاتا ہوں یادیں ایسی کہ مٹنے کا نام نہ لیں۔ کرکٹ کھیلتے اور شوق سے سنا کرتے تھے۔ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ ہوا کرتے تھے اور سننے کے لیے رواں تبصرے۔
کرکٹ کا میدان اکثر و بیشتر تعلیمی میدان سے مجھے دور رکھا کرتا تھا۔ جنون کی انتہا اس حد تک بڑھ گئی کہ منیر حسین مرحوم کا کرکٹ میگزین”اخبارِ وطن“ زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔ ماہانہ رپورٹ، تبصرے، شیڈول میگزین کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ پتہ چل جاتا کہ کون کون سے میچزکہاں ہورہے ہیں، شیڈول زبانی یاد ہوا کرتا تھا۔ ٹی وی کا واحد مرکز ایک عزیز کا گھر ہوا کرتا تھا جو بمشکل دو گھنٹے ہی دستیاب ہوا کرتا تھا۔ کرکٹ کے رواں تبصرے کے لیے ریڈیو کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ میچز پر رواں تبصرے ریڈیو پاکستان پر پیش کیے جاتے تھے۔
کیا کیا کمال کے کمنٹیٹرز تھے کہیوں کے نام بھول گیا ایک دو نام اب بھی یاد ہیں، چشتی مجاہد، مرزا اقبال بیگ انگریزی اور اردو میں مخصوص انداز میں کمنٹری پیش کیا کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کا یہ کمنٹری سیشن کبھی ریڈیو پاکستان کراچی، کبھی اسلام آباد تو کبھی مرحوم ریڈیو اسٹیشن کوئٹہ(مرحوم اس لیے کہ اس کی نشریات گزشتہ ایک دہائی سے بلوچ بیلٹ تک پہنچ نہیں پاتے) سے نشر ہوا کرتا تھا۔ دن کے اوقات میں میڈیم ویو کی برقیاتی لہریں دھیمی پڑ جاتیں تو نشریات بھی دھیمے پڑ جاتے۔ دھیمے نشریات کی وجہ سے آواز بہت کم سنائی دیتا تھا۔
نشریات تک رسائی کے لیے میرے پاس سانیو کا ایک ریڈیو ہوا کرتا تھا۔یہ واحد ریڈیو تھا جو اب تک میرے تجربات کے شر سے محفوظ تھا۔ نشریات کی دھیمے پن کی وجہ سے سابقہ ریڈیوز پر تمام تیکنیکس اور تجربات آزما چکا تھا۔ پیچ کس لیا، اسکرو گھمایا، بکس کھل گیا سرکٹ بورڈ آپ کے سامنے اور چھیڑچھاڑ شروع۔ چھیڑ چھاڑ کرتے کرتے ریڈیو کے اندرونی ساخت سے شناسائی ہونے لگی۔ سرکٹ بورڈ پر لگے کیپیسٹرز کو ہاتھ لگاتا الٹا سیدھا کرتا، گھماتا،آواز چلی جاتی اور پھر بلند ہو جاتی اسی فریکونسی پر لاکر چھوڑ دیتا۔ یوں اپنے ذاتی تجربات سے میں نے وہ اہداف حاصل کیے جو ایک ریڈیو مکینک کے پاس ہوا کرتے ہیں۔
اہداف تک رسائی حاصل کرتے کرتے تقریباً 10ریڈیو کام آچکے تھے۔ جن کے ڈھانچے ایک زمانے تک میرے در و دیوار کی زیب و زینت بنے رہے اور مجھے مکینک ثابت کرنے کے لیے کافی تھے۔ ڈھانچوں سے کام آنے والی جو چیز ہاتھ آجاتی وہ تھی اس کا مقناطیسی نظام، مقناطیسی نظام کودیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ وہ آلہ ہے جس سے ریڈیو کا سسٹم لہروں کو کیچ کرنے کا کام لیتا ہے اور ہمارے لیے ایک نیا تماشا گاہ۔ اُس زمانے میں گاؤں میں خط و کتابت کے ذرائع نہیں تھے ورنہ ریڈیو پاکستان انتظامیہ تک اپنی یہ گزارش ضرور پہنچا دیتا کہ رینج اس حد تک بڑھا ئے کہ ریڈیو پر تجربے کی نوبت نہ آئے یا یہ کہ میری اتنی تجربات پر کم از کم مجھے مکینک کی ڈگری تو مل جائے اور سرٹیفائیڈ مکینک انجنیئر تو بن پاؤں۔ بعد میں ریڈیو کمنٹری کا سلسلہ ختم ہوگیا، کرکٹ کھیلنے کا جنون دم توڑ گیا، اخبارِ وطن کی اشاعت کا سلسلہ رک گیا مگر ریڈیو پر کیے گئے تجربے میری یاداشت کا اب بھی حصہ ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات سے پہلے ریڈیو، ٹیپ اور گھڑی انسانی زندگی کا لازم و ملزوم جزو ہوا کرتے تھے اور علاج گاہ بھی۔ میری طرح نان سرٹیفائیڈ ریڈیو ڈاکٹر ہوا کرتے تھے جو تجربے کی بنیاد پر ریڈیو کے مکینک بنے ہوئے تھے۔ ان میں ایک سعداللہ (جسے لوگ سادھو پکارتے تھے) بھی تھا۔ علاج گاہ مریضوں کا آماجگاہ بنا ہوا تھا، سادھو کی علاج گاہ سے صحت یاب ہوتے ہوئے مریض میں نے بہت کم دیکھے البتہ دوکان کے اندر آویزاں ڈھانچوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ سب کے سب سادھو کی تجربات کو پیارے ہوچکے ہیں۔ہوا یوں کہ پہلی بار جب مجھے اپنی تجربات میں ناکامی کا سامنا ہوا تو مریض کو مجبوراً تجربہ کار طبیب سادھو کے پاس لے جانا پڑا۔ ڈھانچوں کا قبرستان دیکھ کر ایک بار تو خیال آیا کہ ڈاکٹر کو دکھائے بغیر مریض کو واپس لے چلوں مگر سادھو کی یقین دہانی پر میں اسے سادھو کے حوالے کرنے پر راضی ہوا۔اگلی بار جب دوکان کا دیدار ہوا تو دیوار پر ٹنگی ڈھانچوں میں ایک نیا اضافہ ہوچکا تھا۔
انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ تجربات کے عمل سے گزر کر ہی سیکھتا ہے۔ اگر یہ تجربات مشینری پر کیے جائیں تو اچھی بات ہے مگر تجربے کا یہی سلسلہ اگر انسانی اعضا پر کیا جائے تو وہ ڈاکٹر تجربہ کار ضرور بن جاتا ہے مگر آدمی جان سے جاتا ہے یا اعضا سے محروم ہوجاتا ہے۔ اب دورِ جدید میں انسانی جسمانی ساخت تجرباتی عمل کے زیرعتاب آچکا ہے۔ فلانے علاقے میں اگر کوئی بیماری نہیں پھیلی ہے تو خودساختہ بیماریاں خود بخود دریافت ہونے لگتی ہیں۔ ان پر تحقیق و تجربے کیے جاتے ہیں ویکسینیشن تیار کی جاتی ہے اجسام پر اپلائی کیا جاتا ہے۔
آپ کو یاد ہے گزشتہ زمانے میں چند لاعلاج بیماریوں جن میں ٹی بی سرفہرست ہوا کرتا تھا لوگ اس کی زد میں آکر جان سے جایا کرتے تھے۔ اب ٹی بی لاعلاج نہیں رہا، مگر نئی بیماریاں تخلیق پاگئے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور جاری رہے گا۔آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ بیماریوں کا مؤجد کون؟ گھر گھر کے اندر بیماریوں کا مجموعہ کیسا؟ صحت مند انسان کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ آبادی اور بیماریاں جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اسی حساب سے پرائیویٹ ہسپتال اور ڈاکٹروں میں اضافہ ہو رہا ہے اور تجربات و مشاہدات کا سلسلہ بھی اسی رفتار سے جاری ہے۔
کوئٹہ بلوچستان کا دارالخلافہ ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ دارالخلافہ میں صحت کے اچھے مراکز ہوں، لوگوں کو علاج کے ساتھ ساتھ مفت دوائیاں مل جائیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے یہاں تو پورے کا پورا ایک کاروبار چل رہا ہے اس کاروبار میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ میڈیسن سے لے کر آلات تک سب کی دوکانیں لگی ہوئی ہیں جناح روڈ پر جتنی تعداد میں میڈیکل اسٹورز ہیں شاذ و نادر اسی حساب سے دوسرے آئٹم کی دوکانیں ملیں، گزشتہ دنوں ایک دوست (پیشے سے ڈاکٹر ہیں) کو دوائی کی ضرورت پڑی تو قرب و جوار کے میڈیکل اسٹورز کو چھوڑ کر ہمیں مشن چوک کے ایک میڈیکل اسٹور تک لے گئے،وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کوئٹہ شہر میں ایک ہی میڈیکل اسٹور ہے جہاں معیاری ادویات دستیاب ہیں باقی سب نے تو دوکان سجائے ہیں۔ اب وہ ڈاکٹر ہے انہیں دوائیوں کی معیار کا تو بخوبی پتہ ہے مگر ایک عام آدمی جو فارمولے نامی شے سے ناواقف ہے،وہ دوائیوں کا معیار کیسے جانچے۔
اب آتے ہیں عنوان کی طرف، گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران میرے سامنے 9 مریضوں کے ایسے کیسز سامنے آئے جن کا علاج کوئٹہ میں درست طریقے سے نہیں ہوا مجبوراً انہیں کراچی یا دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑا۔ کسی کے اپینڈیکس کا مسئلہ تھا، اسے گردے کی دوائیاں دی گئیں یا گردے کا علاج چلتا رہا۔ کسی کے ہاں زچہ بچہ کا مسئلہ تھا اس کا علاج خواب آور دوائیوں سے کیا جانے لگا، کسی کو گلے کی شکایت تھی بخار کی دوائیاں دی گئیں۔ نہ ڈاکٹرز تجربہ کار اور نہ ہی لیبارٹری کا نظام ٹھیک۔
اب جو آخری کیس میرے سامنے ہے وہ میرے ایک عزیز کا ہے ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اپنا پاؤں زخمی کر بیٹھا پہلے سول ہسپتال چلا گیا وہاں ڈاکٹروں نے ٹانکوں سے کام چلا کر جان چھڑائی۔ کئی دن کے بعد ٹانگ کی حالت بگڑ گئی تو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال لے آئے وہاں کے عملے نے پچھلی علاج کو ناقص قرار دے کر اس پر نت نئے تجربات کر ڈالے، گوشت کا زخمی حصہ کاٹ کر زبردستی ٹانکے لگا کر بند کیا گیا۔ اب وہ عزیز درد کاٹ رہا ہے۔ تکلیف ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، زخم ہے کہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔
پاؤں کی حالت بگڑ گئی ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ کس سے گلہ کریں کس کی شکایت کریں، جائیں تو کہاں جائیں۔ اگر زیادہ زور دیں تو سو بہانے، آخری بات عمران خان کی آجاتی ہے کہ ”ہندوستان پر حملہ کروں کیا“۔ سو کہا جائے گا کہ سرکاری ہسپتالوں کو تالا لگا دیں کیا؟ نہیں جناب ہسپتال بند نہیں کریں ان کی حالت ٹھیک کریں۔ ڈاکٹروں کی چیک اینڈ بیلنس کریں وہ سینیئر ڈاکٹر جن کی غیر موجودگی میں جونیئرز نے ہسپتال کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے انہیں حاضر باش کرائیں۔ مزید ڈاکٹروں کی گنجائش پیدا کریں۔ ہسپتالوں کی حالت کا معائنہ بند آنکھوں کے بجائے کھلی آنکھوں سے کریں جہاں سے لوگ شفایاب ہو کر نکلا نہیں کرتے۔ ریڈیو مکینک کی تجربہ گاہ اور انسانوں کی علاج گاہ،بس اتنا سا فرق ہے کہ وہاں ڈھانچے آویزاں کیے جاتے تھے یہاں قبرستانوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔ اس فرق کو مٹانے کے لیے آپ کو کچھ تو کرنا پڑے گا۔