سوال: بلوچستان کے نواب اور سردار طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے سیاست میں آتے ہیں؟
جواب: یہ غلط تاثر ہے کہ ہم طاقت کا توازن برقراررکھنے کیلئے سیاست کرتے ہیں، نوابی اور سرداری کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہمارا مقصد اپنی عوام کی خدمت کرنا ہے۔
سوال: سردار تو اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ بغیر سیاست کے بھی اپنے لوگوں کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں،کیا عام قبائلی شخص نواب اورسردار کی جگہ سیاست میں آئے؟
جواب:کسی اور حلقے کا کہہ نہیں سکتا مگر میرے حلقے سے کوئی بھی رئیسانی الیکشن لڑسکتا ہے، ایک مثال میرا چھوٹا بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی ہے جو میرے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لے رہا تھا، میرے اندر نوابی اور سرداری کے ساتھ سیاسی مزاج بھی ہے، میراسیاست کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے اور پاکستان میں بسنے والے اقوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔
سوال: بلوچستان کی محرومی اور پسماندگی کا ذمہ دار ہمیشہ سردار اور نوابوں کو سمجھاجاتا ہے کیا یہ تاثر درست ہے؟
جواب: یہ عام لوگ بھی کہتے ہیں خاص کر نوجوانوں کا یہی تاثر ہے مگر یہ صرف ایک فیشن ہے اس کے سوا کچھ نہیں، میرے حلقے میں جاکر دیکھیں کہ میں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں کتنا کام کیاہے، گوادر کو وینٹر کیپٹل ڈیکلیئر کیا اور سنگارمیں سیکریٹریٹ بنایا جو میری سوچ اور وژن کی واضح مثال ہے،عوام کیلئے ہماری خدمت سب کے سامنے ہے یہ بالکل غلط ہے کہ ہم زورآوری کیلئے ایوانوں میں جاتے ہیں کسی کا مسئلہ ہمارے ہاتھوں حل ہو تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔
میرے دورحکومت میں مسلح گروپوں کے ساتھ جنگ بندی
کے حوالے سے میں نے کوشش کی اور
اس حوالے سے ایک جنگ بندی معاہدہ بھی ہوا
سوال: 2008ء میں آپ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو سب سے بڑی کابینہ آپ کی تھی، کرپشن کے حوالے سے سوالات تو اٹھیں گے؟
جواب: میری کابینہ 43کے قریب مشتمل تھی، اتحادیوں اور میرے درمیان ایک بہترین ہم آہنگی تھی اور ملکر کام کیا، جہاں تک بلوچستان کے متعلق کرپشن کی بات ہے توپنجاب، سندھ اور کے پی کے میں دیکھیں کہ وہاں کتنی کرپشن ہوتی ہے جو کرپشن اسلام آباد میں ہوتی ہے۔
بلوچستان تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، جودھندے اسلام آباد میں ہوتے ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے، جس طرح آئی ایم ایف سے قرضہ، اسلام آباد ائیرپورٹ، موٹرویز، بن قاسم، کراچی ائیرپورٹ اور گوادر سی پورٹ کو گروی رکھا ہو اہے یہ کرپشن نہیں تو کیا ہے صرف نظریں بلوچ اور پشتونوں پر لگی ہوئی ہیں کہ ہم کرپٹ ہیں،اسلام آباد والے پہلے اپنے گریبان پر جھانکیں اس طرح کے الزامات لگانے سے حالات بہتری کی طرف نہیں جائینگے۔
سوال:اتنی بڑی کابینہ اور پھر ان کے اپنے ڈیمانڈ کس طرح آپ پورے کرتے تھے؟
جواب:یہ آپ ان سے خود جاکر پوچھیں، ہر شخصیت کے اپنے علاقے، عزیزاور عوام کے مسائل ہوتے ہیں جنہیں حل کرکے عوام کے اندر اطمینان پیدا ہوتا ہے جو بھی مجھ سے ممکن ہوا میں نے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا۔
سوال: آپ کی کابینہ کے ارکان نے جوفنڈز اور اسکیمات کیلئے پیسے لئے اسے ایمانداری سے اپنے حلقوں پر خرچ کئے یا پھر صرف جیبوں میں ڈالے گئے؟
جواب: آپ کا خیال ہے کہ اگر یہ کام نہیں کرتے تو کیا نیب ان کو چھوڑتی،ہماری حکومت کو 10 سال سے زائد عرصہ گزرگیا پھر نیب نے ہمیں کیوں نہیں پکڑا، ابھی تک نیب نے میری فائل بند نہیں کی ہے،میری کابینہ میں شامل ارکان کی بھی فائلیں ابھی تک نیب کے پاس کھلی ہوئی ہیں۔
مگر نیب کو ہمارے خلاف کچھ نہیں مل رہاالبتہ نیب یہاں وہاں سے کچھ نہ کچھ نکالنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ کیس بنائے اگر ہم نے کرپشن کی ہوتی تو آج ہمیں جیل میں ہونا چاہئے تھااللہ کا کرم ہے کہ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی محض ہم پر صرف کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔
یہ غلط تاثر ہے کہ ہم طاقت کا توازن برقراررکھنے کیلئے سیاست کرتے ہیں
نوابی اور سرداری کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہمارا مقصد اپنی عوام کی خدمت کرنا ہے
سوال: ریکوڈک منصوبہ آپ کے دور حکومت میں کالعدم قرار دیا گیا، اصل معاملہ کیا ہواتھا؟
جواب:ریکوڈک منصوبہ میں بلوچستان حکومت کے 25 فیصد جبکہ ٹیھتیان کاپرکمپنی کے 75فیصد شیئرز تھے، کمپنی کا منصوبہ تھا کہ وہ ریکوڈک سے لیکر گوادر تک پائپ لائن بچھائینگے تاکہ جو بھی معدنیات نکلیں گی اسے کریش کرکے یہاں سے بحری جہاز میں بھر کرکہاں لے جائینگے اس کا ہمیں علم نہیں تھا،جس پر ہم نے کہاتھا کہ دوبارہ ایک معاہدہ لیکر آئیں ہمیں یہ پائپ لائن والا معاملہ قبول نہیں کیونکہ بلوچستان مائننگ رول واضح طور پر کہتا ہے۔
سوال: بلوچستان کے نواب اور سردار طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے سیاست میں آتے ہیں؟
جواب: یہ غلط تاثر ہے کہ ہم طاقت کا توازن برقراررکھنے کیلئے سیاست کرتے ہیں، نوابی اور سرداری کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہمارا مقصد اپنی عوام کی خدمت کرنا ہے۔
سوال: سردار تو اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ بغیر سیاست کے بھی اپنے لوگوں کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں،کیا عام قبائلی شخص نواب اورسردار کی جگہ سیاست میں آئے؟
جواب:کسی اور حلقے کا کہہ نہیں سکتا مگر میرے حلقے سے کوئی بھی رئیسانی الیکشن لڑسکتا ہے، ایک مثال میرا چھوٹا بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی ہے جو میرے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لے رہا تھا، میرے اندر نوابی اور سرداری کے ساتھ سیاسی مزاج بھی ہے، میراسیاست کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے اور پاکستان میں بسنے والے اقوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔
سوال: بلوچستان کی محرومی اور پسماندگی کا ذمہ دار ہمیشہ سردار اور نوابوں کو سمجھاجاتا ہے کیا یہ تاثر درست ہے؟
جواب: یہ عام لوگ بھی کہتے ہیں خاص کر نوجوانوں کا یہی تاثر ہے مگر یہ صرف ایک فیشن ہے اس کے سوا کچھ نہیں، میرے حلقے میں جاکر دیکھیں کہ میں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں کتنا کام کیاہے، گوادر کو وینٹر کیپٹل ڈیکلیئر کیا اور سنگارمیں سیکریٹریٹ بنایا جو میری سوچ اور وژن کی واضح مثال ہے،عوام کیلئے ہماری خدمت سب کے سامنے ہے یہ بالکل غلط ہے کہ ہم زورآوری کیلئے ایوانوں میں جاتے ہیں کسی کا مسئلہ ہمارے ہاتھوں حل ہو تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔
سوال: 2008ء میں آپ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو سب سے بڑی کابینہ آپ کی تھی، کرپشن کے حوالے سے سوالات تو اٹھیں گے؟
جواب: میری کابینہ 43کے قریب مشتمل تھی، اتحادیوں اور میرے درمیان ایک بہترین ہم آہنگی تھی اور ملکر کام کیا، جہاں تک بلوچستان کے متعلق کرپشن کی بات ہے توپنجاب، سندھ اور کے پی کے میں دیکھیں کہ وہاں کتنی کرپشن ہوتی ہے جو کرپشن اسلام آباد میں ہوتی ہے۔
بلوچستان تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، جودھندے اسلام آباد میں ہوتے ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے، جس طرح آئی ایم ایف سے قرضہ، اسلام آباد ائیرپورٹ، موٹرویز، بن قاسم، کراچی ائیرپورٹ اور گوادر سی پورٹ کو گروی رکھا ہو اہے یہ کرپشن نہیں تو کیا ہے صرف نظریں بلوچ اور پشتونوں پر لگی ہوئی ہیں کہ ہم کرپٹ ہیں،اسلام آباد والے پہلے اپنے گریبان پر جھانکیں اس طرح کے الزامات لگانے سے حالات بہتری کی طرف نہیں جائینگے۔
سوال:اتنی بڑی کابینہ اور پھر ان کے اپنے ڈیمانڈ کس طرح آپ پورے کرتے تھے؟
جواب:یہ آپ ان سے خود جاکر پوچھیں، ہر شخصیت کے اپنے علاقے، عزیزاور عوام کے مسائل ہوتے ہیں جنہیں حل کرکے عوام کے اندر اطمینان پیدا ہوتا ہے جو بھی مجھ سے ممکن ہوا میں نے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا۔
سوال: آپ کی کابینہ کے ارکان نے جوفنڈز اور اسکیمات کیلئے پیسے لئے اسے ایمانداری سے اپنے حلقوں پر خرچ کئے یا پھر صرف جیبوں میں ڈالے گئے؟
جواب: آپ کا خیال ہے کہ اگر یہ کام نہیں کرتے تو کیا نیب ان کو چھوڑتی،ہماری حکومت کو 10 سال سے زائد عرصہ گزرگیا پھر نیب نے ہمیں کیوں نہیں پکڑا، ابھی تک نیب نے میری فائل بند نہیں کی ہے،میری کابینہ میں شامل ارکان کی بھی فائلیں ابھی تک نیب کے پاس کھلی ہوئی ہیں۔
مگر نیب کو ہمارے خلاف کچھ نہیں مل رہاالبتہ نیب یہاں وہاں سے کچھ نہ کچھ نکالنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ کیس بنائے اگر ہم نے کرپشن کی ہوتی تو آج ہمیں جیل میں ہونا چاہئے تھااللہ کا کرم ہے کہ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی محض ہم پر صرف کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔
سوال: ریکوڈک منصوبہ آپ کے دور حکومت میں کالعدم قرار دیا گیا، اصل معاملہ کیا ہواتھا؟
جواب:ریکوڈک منصوبہ میں بلوچستان حکومت کے 25 فیصد جبکہ ٹیھتیان کاپرکمپنی کے 75فیصد شیئرز تھے، کمپنی کا منصوبہ تھا کہ وہ ریکوڈک سے لیکر گوادر تک پائپ لائن بچھائینگے تاکہ جو بھی معدنیات نکلیں گی اسے کریش کرکے یہاں سے بحری جہاز میں بھر کرکہاں لے جائینگے اس کا ہمیں علم نہیں تھا،جس پر ہم نے کہاتھا کہ دوبارہ ایک معاہدہ لیکر آئیں ہمیں یہ پائپ لائن والا معاملہ قبول نہیں کیونکہ بلوچستان مائننگ رول واضح طور پر کہتا ہے۔
کہ آپ یہی پر مائننگ کرنے کے ساتھ ساتھ ریفائنری بھی یہاں پر کریں مگر ٹیھتیان کاپرکمپنی کے ساتھ ہم نے بات چیت کرنے سے انکار نہیں کیا ہمارا صرف یہی کہنا تھاکہ آپ ازسرنونیا معاہدہ لیکرآئیں مگر انہوں نے پھر وہی پائپ لائن والا دھندہ لیکر آئے اور اس کے ساتھ اور بھی معاملات شامل تھے۔
سوال:آپ کے مطابق کمپنی کا مقصد ریکوڈک کولوٹنا تھا؟
جواب:جی بالکل کمپنی کا مقصد کیا تھا کہ ریفائنری باہر لیکر جاکر کرنا ہے دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع چاغی میں ریرارتھ وہ میٹنز ہیں جو دنیا میں بہت کم نکلتے ہیں، ریکوڈک میں سونا، تانبے کے علاوہ اور مہنگے معدنیات موجود تھے۔
تو ہم کس طرح پائپ لائن کی اجازت دیتے کہ یہاں سے قیمتی معدنیات نکال کر کسی اور جگہ منتقل کرکے ریفائنری کرکے سارا فائدہ خود حاصل کرے، یہ وسائل تو بلوچ قوم کی امانت ہیں جس کا فائدہ بلوچ قوم کو ملنا چاہئے اسی لئے میں نے اس پر اسٹینڈ لیامیں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ حکومت پاکستان اور کمپنی اس حوالے سے بات چیت کریں۔
سوال: آپ کی باتوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ساحل وسائل کے تحفظ کی باتیں محض دعویٰ ہیں، کمپنیاں مدر پدر آزاد ہیں جس طرح کی لوٹ مار کریں؟
جواب:ریکوڈک کی مثال آپ کے سامنے ہے، میں نے آصف علی زرداری سے بھی کہاتھا کہ ٹیتھیان کاپرکمپنی کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہوں مگر کمپنی پائپ لائن والے معاملے سے دستبردار ہوجائے اور ہمارا جو حصہ ہے۔
وہ پورا دیاجائے ایک دو فیصد سے کام نہیں چلے گا، وسائل بھی ہماری اور دوسرا آکر اسے لے جائے یہ ہمیں قابل قبول نہیں،کمپنی خالصتاََ 75فیصد لے جائے جبکہ ہمیں 25 فیصد بھی لون کی صورت میں دیا جائے یعنی چیز بھی ہمارا اور اس کے منافع کیلئے بھی میں قرضہ ادا کروں اس میں اور بھی بہت سی پیچیدگیاں تھی۔
ہم صرف سیکورٹی کی مد میں سالانہ پچاس سے
ساٹھ کروڑ روپے خرچ کررہے ہیںتو ترقی کی مدمیں ہمارے لئے کچھ بچتا نہیں
سوال: بلوچستان میں جتنے بھی منصوبے چل رہے ہیں اس سے صوبہ کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟
جواب: پبلک سیکٹر میں مجھے تو کوئی بھی منافع بخش منصوبہ نظرنہیں آرہا، لسبیلہ اور بولان میں مائننگ ہورہی ہے اس سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا، ریکوڈک، سیندک منصوبہ میں بھی صوبہ کا منافع نظر نہیں آرہا، آج تک ہم نے ان منصوبوں سے صوبہ کو فائدہ پہنچتے نہیں دیکھا۔
سوال: سی پیک سے معاشی تبدیلی آئے گی، صوبہ کو کتنا فائدہ اس منصوبہ سے پہنچے گا؟
جواب: سی پیک اور معاشی انقلاب کو فی الحال علیحدہ رکھیں سب سے پہلے اس منصوبہ کی وجہ سے ہم اپنی آبادی کی تناسب کو بگاڑنا نہیں چاہتے، یہ بلوچ کی سرزمین ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ باہر سے 25لاکھ لوگ آئیں اور ہماری ڈیموگرافی تبدیل کریں،صنعتی زون اورمعاشی انقلاب بعد کی باتیں ہیں ہم ڈیموگرافی کی گڑبڑ نہیں چاہتے۔
سوال: بلوچستان کے ساحل اور وسائل کے تحفظ کی باتیں تو سب کرتے ہیں، مگر بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس ایک نکات پر اتحاد کیوں نہیں کرتیں؟
جواب: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سگریٹ جلانے کیلئے ماچس بھی کسی اورسے قرض لیکر مانگنی پڑتی ہے یہ دھندے ہمارے یہاں چلتے ہیں۔ہر کسی کے یہاں اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد ہوتے ہیں جس کی سودے بازی کرتے ہیں اس لئے ان کے درمیان اتحاد، قربت اور یگانیت نہیں بن پارہی۔
سوال: بلوچ قوم پرست جماعتوں کے درمیان بھی تو اتحاد نظر نہیں آتااس کی وجہ کیاہے؟
جواب: میں اس بات پر زور دونگا کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کو موجودہ سیاسی حالات میں اتحاد کرنا ہوگا وگرنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔آج قوم پرست جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ لگارہی ہیں۔
میں اس عمل کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہوں اس کشیدگی کو کم کرنا چاہئے خاص کر عوام کے وسیع ترمفاد اور حق حکمرانی کیلئے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہئے۔اتحاد بیشک نہ کریں مگر ہمارا جو ورکرکیڈر ہے ان کے درمیان ورکرزریلیشن ہونا چاہئے تاکہ وہ آپس میں بیٹھ سکیں۔
سوال: بلوچ سردار بلوچی میڑھ کے ذریعے قبائلی تنازعات حل کرسکتے ہیں تو کیا قوم پرست جماعتوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے کردار ادا نہیں کرسکتے؟
جواب: قوم پرست جماعتوں کے دوستوں کے ساتھ میری بات چیت ہورہی ہے کہ یہ محاذ آرائی جوہمارے درمیان ہورہی ہے ہماری سیاست کیلئے نقصان دہ ہے، یہ الزامات کی سیاست صوبائی، قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں آگے لے جانے میں ہمارے لئے دشواریاں پیدا کریں گی۔
کیونکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اسمبلی کا رکن بنیں مگر اسمبلی کے رکن بننے سے زیادہ اہم ہمارا اتحاد، اتفاق اور یگانیت ہے یہ الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے میں آزادی ویب نیوز چینل کے توسط سے قوم پرست جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بلوچ سمیت پشتون بھائیوں سے بھی کہتا ہوں کہ آپس کی محاذ آرائی سے گریز کریں جو ہمارے مفاد میں نہیں۔
سوال: آپ کی قوم پرست جماعتوں سے بات چیت کے بعد کوئی پیشرفت ہوئی ہے؟
جواب: قوم پرست جماعتوں کے تمام قائدین نے یہی کہاکہ کشیدگی کم ہونا اچھی بات ہے مگر اس میں کوئی خاص پیشرفت ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی۔اس لئے میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کررہا کیونکہ اس کشیدہ ماحول میں فریق نہیں بننا چاہتا،سب میرے عزیز ہیں میں سب کو ایک پلیٹ فارم اور ایک ساتھ مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔
سوال:چندماہ قبل وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی بازگشت چل رہی تھی اور نئے وزیراعلیٰ کیلئے نواب اسلم رئیسانی کانام آرہا تھا،کیاواقعی بیک ڈورکچھ اس طرح کاکوئی معاملہ چل رہاتھا؟
جواب: میں بھی پچھلے چند ماہ سے یہ بات سن رہا ہوں مگر اس حوالے سے مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیاالبتہ اس کی تردید بھی کسی نے نہیں کی۔
سوال:موجودہ صوبائی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟جام کمال خان کہہ چکے ہیں کہ وسائل کے تحفظ کیلئے قانون سازی کررہے ہیں؟
جواب: قانون ہمارے پاس سارے موجود ہیں، زمین ہماری ہے وسائل نہیں ہیں، ہم صرف سیکیورٹی کی مد میں سالانہ پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے خرچ کررہے ہیں تو ترقی کی مدمیں ہمارے لئے کچھ بچتا نہیں،بجٹ دیکھ لیں اس وقت ضلع مستونگ میں سیکیورٹی پر پانچ کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں یعنی اربوں روپے صرف سیکیورٹی پر لگ رہے ہیں پھر معاشی منصوبہ کے حوالے سے کیا رقم رہ جاتی ہے۔
سوال: امن وامان بھی تو صوبہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے اس کے بغیر معاشی خوشحالی کیسے آئے گی؟
جواب:بندوق کے ذریعے دیرپا امن کبھی قائم نہیں ہوسکتا، دنیا کی انسانی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی مگر آخر میں انہیں مزاکرات کی میز پر آنا ہی پڑا، امریکہ تو پاکستان سے بڑی طاقت ہے آج وہ کیوں دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے۔
کیونکہ امریکہ کو بھی یہ احساس کو ہوگیا ہے کہ بات چیت کے بغیر مسائل حل نہیں ہونگے۔افغان طالبان آج ماسکو جاتے ہیں تاکہ امن پراسیس کو جاری رکھا جاسکے جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بندوق کی گولی سے زیادہ اہمیت بات چیت کی ہے۔
سوال: موجودہ بجٹ میں اپوزیشن جماعتوں سے تجاویز لی گئی تھی؟
جواب: پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن سے تجاویز نہیں لی گئی اور نہ ہی ہماری مرضی شامل کی گئی، مجھ سے تو حکومت کے کسی نمائندہ نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اپوزیشن کو آن بارڈ لیا گیا تھا یہ بات الگ ہے کہ رات کی تاریکی میں اپوزیشن کے کسی ارکان سے بات چیت کی گئی ہومگر حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق پی ایس ڈی پی بنائی ہے۔
سوال: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اپوزیشن اسکیمات کو ترجیح دینگے؟
جواب: جام کمال خان کو اللہ ہدایت دے، اپوزیشن نے اپنی اسکیمات کی نشاندہی تو کی ہے آگے اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
سوال: ن اور ق لیگ کے ارکان کا شکوہ تھا کہ مرکزی جماعتیں بلوچستان کے نمائندوں کی بات نہیں سنتے اس لئے بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی،نئی جماعت کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
جواب: بلوچستان کے کیس کو بھرپور طریقے سے لڑنے کیلئے باپ تشکیل دی گئی ہے، حالت یہ ہیں کہ تین سال گزرگئے این ایف سی ایوارڈ کے متعلق میٹنگ منعقد نہیں کی گئی، موجودہ حکومت این ایف سی ایوارڈ کی میٹنگ میں کردار ادا نہیں کررہی تو بلوچستان کے مسائل کو بلوچستان عوامی پارٹی کیسے حل کرے گی۔ریکوڈک کیس، سیندک کا مسئلہ، سرکاری ملازمین اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آرہے ہیں یہ تمام مسائل تو حل نہیں کرسکتی بلوچستان کی نمائندگی مرکز میں پھر کیا اداکرینگے۔
سوال: بی این پی نے بھی بلوچستان میں صوبہ میں حکومت کی تبدیلی کی بات کی تھی، مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ اور یہاں بلوچستان عوامی پارٹی کے خلاف بی این پی جائے گی؟
جواب: بی این پی کی اپنی پارٹی پالیسی ہے اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سوال: 2008ء میں آپ کی حکومت کے دوران بلوچستان کے حالات انتہائی مخدوش تھے، آپ نے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تھی؟
جواب: میرے دورحکومت میں مسلح گروپوں کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے میں نے کوشش کی اور اس حوالے سے ایک جنگ بندی معاہدہ بھی ہوا اور یہ جنگ بندی چار ماہ تک رہی مگر زین کوہ میں جب اوجی ڈی سی نے گیس کیلئے ڈرلنگ کاکام شروع کیا تو یہاں سے معاملات خراب ہوگئے پھر جنگ بندی معاہدہ مسلح گروپ نے ختم کردیا۔پورے ملک کو علم ہے کہ یہ فساد ہورہے ہیں مگر اس فساد کو ختم کرنے کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت ضروری ہے۔
سوال: بلوچستان میں ہر نئی حکومت تمام مسائل کی جڑماضی کی حکومتوں کو گردانتی ہے کیا کسی نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی؟
جواب:74 سالوں سے ہماری عادت اور اسٹائل بن چکا ہے، ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا یہ دھندہ اول روز سے چلتا آرہا ہے،آگے ہم دیکھ نہیں سکتے مگر ماضی میں جس نے اچھا کام بھی کیا ہے اسے بھی بُرا بھلا کہتے ہیں یہ اب ہماری عادت بن چکی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آرہا ہے۔
سوال: بلوچستان کو مسائل سے نکالنے کیلئے صرف دعوے ہی کئے جائینگے کیا سیاسی جماعتیں ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار نہیں؟
جواب: جب تک مل بیٹھ کر سیاسی جماعتیں راستہ نہیں نکالیں گی مسائل حل نہیں ہونگے، جب تک الزام تراشی کی سیاست جاری رہے گی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھیں گی کچھ نہیں ہوسکتا پھر تویہ سلسلہ اسی طرح بس چلتا ہی رہے گا۔
سوال:سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے مسائل کے حل کی امید کی جاسکتی ہے؟
جواب: ہر مسئلے کا حل ہے، بلوچ، پشتون، سندھی، پنجابی اور مذہبی جماعتیں اگر مل جائیں تو پاکستان کے تمام مسائل کا حل ہم نکال سکتی ہیں مگر اس کیلئے ایک وژن کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ خود ایم فل کررہے ہیں مگر آپ نے کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو جعلی، یہ کیا منطق تھی؟
جواب: یہ تو ویسے ہی میں نے مذاقاً کہاتھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے، یہ نہیں کہاتھاکہ یہ اصلی ہو یا نقلی، بہرحال میں ایم فل کررہا ہوں اس کا بنیادی مقصد مستقبل میں ریسرچ کرنا ہے، بلوچ وسیع تر علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ایران میں بھی بلوچ ہیں تو اس خطے کے حوالے سے معاشی، سیاسی، کلچرل چیزوں پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں، کوئی سرپرائز نہیں دینا چاہتا بس اپنی قوم کیلئے تحقیق اور ریسرچ کرنا چاہتا ہوں جو میرا اپنا ایک شوق اور دیرینہ خواہش ہے۔
سوال: آپ نے کہا تھا کہ سیاست میں آجاؤ جیتے تو امیر ورنہ فقیر،کیا واقعی سیاست میں یہی ہوتا ہے؟
جواب: یہ ایسے ہی میں نے ربڑ کھینچا تھا۔
سوال: بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے کیا پیغام دینگے؟
جواب: بلوچستان کے نوجوان تعلیم پر توجہ دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ معلومات ان کے پاس ہوں، میں نے مستونگ، کانک، مٹھڑی، کردگاپ میں لڑکوں اورلڑکیوں کیلئے اسکولز تعمیر کئے ہیں تاکہ ہمارے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ سب یونیورسٹی کا کیمپ بھی فنکشنل ہے اب یونیورسٹی کیلئے زمین بھی مختص کی ہے۔
تعلیم کے حوالے سے جوبھی میرے بس میں ہے وہ کررہا ہوں جبکہ حاجی لشکری رئیسانی بھی اس حوالے سے بہت کام کررہے ہیں مختلف یونیورسٹیوں کو کتابیں فراہم کی ہے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سب کیمپس مستونگ کیلئے 900 کتابیں حاجی لشکری رئیسانی نے دی ہیں۔تعلیم کے ذریعے نوجوان سیاست کو بھی بہتر سمجھیں گے یعنی تعلیم کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے وگرنہ سائیکل کو پنکچر لگانے والا بھی کوئی نہیں ہوگی۔