سوال: سرداریارمحمدرندکی ترجیح پی ٹی آئی کیوں بنی؟
جواب: پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل سات سال پہلے مسلم لیگ ق چھوڑ چکا تھا، میں اسی انتظار میں تھا کہ میں کسی ایسی جماعت میں شمولیت کروں جو بلوچستان کیلئے کم ازکم کچھ کرسکے اس سے پہلے جتنی بھی سیاسی جماعتیں تھیں بلوچستان کے عوام نے ان سب کو آزمایاہواتھا، عمران خان نے ایک سلوگن اور ایک امیددی تھی کہ عمران خان اقتدار میں آئینگے بلوچستان کے ساتھ ہونے والے 72 سالوں کی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا ازالہ کریں گے یہی ایک بڑی وجہ تھی کہ میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی۔
سوال: پی ٹی آئی کے ایک سالہ دورمیں ملک خاص کر بلوچستان میں کیا تبدیلی دیکھے گئی؟
جواب: عمران خان کے پاس ابھی پانچ سال کا مینڈیٹ ہے،ایک سال کے دوران بلوچستان سمیت ملک بھر میں معاشی،سیاسی صورتحال سمیت سرحدوں پر جو حالات تھے وہ سامنے ہیں،اگلے آنے والے وقت میں مجھے امید ہے کہ عمران خان بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے کچھ کرینگے فی الحال ایک سال کے دوران کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا۔
سوال: آپ کو امید ہے کہ آنے والے چار سال میں پی ٹی آئی بلوچستان میں بہتری لائے گی؟
جواب: عمران خان سے میں امید کرتا ہوں کہ انہوں نے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ وعدہ کیا تھا اسے پورا کرینگے، بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ جو نصیر آباد میں ہوا تھا اس وقت میں نے اپنے لئے نہیں بلوچستان کے لوگوں کی بات کی تھی جس میں سرفہرست کچھی کینال شامل ہے۔
جس میں 9 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہونا ہے جس میں صرف 80 ارب روپے خرچ ہونا ہے ایک سال گزرگیا مگر اب تک اس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کے اہم مسائل ہیں جس میں گوادر،بیروزگاری،بلوچستان کے حقوق اور 72 سالہ احساس محرومیوں کا خاتمہ کرینگے مجھے یقین ہے کہ آئندہ سالوں میں بلوچستان میں تبدیلی آئے گی
سوال: کچھی کینال تو بہت پرانا منصوبہ ہے پروجیکٹ کے مکمل نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: حقیقت بات یہ ہے کہ مجھے پارلیمانی سیاست کرتے ہوئے 35 سال ہوچکے ہیں، 9 بار پارلیمنٹ کا رکن رہ چکا ہوں،خواہ حکومت میاں نوازشریف، بینظیربھٹو،آصف علی زرداری یا کسی اور کی رہی ہو ان کی ترجیحات میں ہم کبھی بھی نہیں رہے، بلوچستان کے مسائل اور ان کو حل کرنامرکزی جماعتوں کی توجہ کا مرکز نہیں رہی۔
سوال: مرکزی حکومتوں کی ترجیحات بلوچستان نہیں تو پھر باپ بنانے کافیصلہ صحیح تھا؟
جواب: بات یہ ہے کہ جام کمال خان صاحب ہمارے لئے قابل احترام ہیں، اپنی طرف سے کوشش تو کررہے ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ان کے پاس وسائل ہونگے اور پھر ان وسائل کو صحیح جگہ پر لگانا ہوگا، ہمارے یہاں 70کے قریب محکمہ ہیں سب کو چلانا مشکل کام ہے ہمیں ہدف مقرر کرنے ہونگے کہ بلوچستان کی ضروریات کیا ہیں یہاں صرف یہ ہوتاچلاآرہا ہے۔
کہ کس ایم پی اے،وزیر اورمحکمہ کو کتنا دیاجائے، ایسا نہیں ہونا چاہئے، پہلے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے اتحادی اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھائے ہر جماعت کی نمائندگی ہو، پہلے یہ دیکھاجائے کہ بلوچستان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئے پھر وہ لیڈر آف دی ہاؤس ہیں یہ ان کا حق ہے۔
کہ کس کو کہاں پر کام شروع کرنا چاہئے، کس حلقے اور علاقے کو ترجیح دے اور ترقیاتی کام کرے مگر بلوچستان کے تمام ارکان اسمبلی کوجام کمال خان اہمیت دے اور ان کو بھلائے کیونکہ یہ ان کا حق ہے اور بلوچستان کیلئے ایک مکمل جامعہ پروگرام تشکیل دے جیسے یہ بن رہے ہیں 72 سال سے یہی چیزیں چلتی آرہی ہیں اورآگے بھی پھر اسی طرح ہی ہوگا۔
سوال:72 سالوں سے ایم پی ایز فنڈز لے رہے ہیں مگر بلوچستان آج بھی اسی طرح پسماندہ ہے؟
جواب: میرے کہنے کامقصد یہ نہیں کہ ایم پی ایز کو فنڈز دیئے جائیں،ہر جماعت کو بھلاکر ترجیح مقرر کی جائے کہ بلوچستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں، پہلے دو چار ہدف مقرر کئے جائیں کہ ہمیں کن محکموں کو ترجیح دینی چاہئے اور ان پر کام کرنا ہے، اس کے بعد جام کمال خان کی جماعت رولنگ پارٹی کا حق بنتا ہے کہ وہ دیئے گئے مینڈیٹ پر کام کرے۔اب جس طرح ایک اسکیم جس کی ضرورت کچھی کے علاقے کو ہے دوسرا تربت میں اگر ضرورت ہے۔
تو اس کا فیصلہ کرنا جام کمال خان کی حکومت کا حق ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر ایک پروجیکٹ شروع کرینگے آج آپ ہیں تو کل نہیں ہونگے، اپوزیشن کل آئے گی تو وہ اسے تبدیل کرے گی ان کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے میں یہ نہیں کہتا کہ آپ بلوچستان کے غریب عوام کے پیسے لیکر اسمبلی میں بانٹتے پھرے نہیں بلکہ ترجیحات کو اہمیت دینا حکومت کا کام ہے مگر اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر یہ نہیں ہوسکتا۔
سوال:اپوزیشن کاشکوہ ہے کہ بجٹ کے دوران ان سے تجاویز نہیں لی گئیں؟
جواب: جہاں تک فنڈز اور پروجیکٹ کی بات ہے اس بارے میں جام کمال خان بہتر بتاسکتے ہیں میں اس کا حصہ نہیں ہوں، میں حکومت کا اتحادی ہوں مگر اس طرح نہیں، ہمارے دو وزراء ہیں ایک کے پاس محکمہ ہے مگرایک تو فارغ ہے صرف آفس چلاتا ہے،ہم سے بھی بجٹ کے حوالے سے تجاویز نہیں لی گئیں اور نہ ہی ہمیں اعتماد میں لیاگیا رائے اور مشاورت کیلئے بھی نہیں بلایاگیا اس لئے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا اس کا جواب جام کمال خان ہی دے سکتے ہیں۔
سوال:آپ تو اتحادی ہیں، جام کمال خان نے پی ٹی آئی کو کیوں بجٹ میں اعتماد میں نہیں لیا؟
جواب: بالکل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا، جام کمال خان کی اپنی حکومت کے فیصلے تھے زیادہ بہتر وہی بتاسکتے ہیں۔
سوال:حکومت کی تشکیل کے دوران باپ اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات واقعی موجود تھے؟
جواب: سب جانتے ہیں کہ ہماری جماعت پرانی ہے مجھ سے پہلے پی ٹی آئی کی بلوچستان میں پوزیشن اور صورتحال کیا تھی یہ سب کے سامنے ہے، جب عمران خان نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا صدر بلوچستان میں مجھے بناکر ذمہ داریاں سونپی توبلوچستان کے پرانے اور نئے سیاسی لوگوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اس سے پہلے بلوچستان کی پارلیمانی سیاست میں پی ٹی آئی کچھ نہیں تھی مگر 2018ء کے انتخابات میں ایک بہترین پوزیشن میں پی ٹی آئی ابھر کر سامنے آیا جس کیلئے ہم نے اور ہمارے رفقاء نے دن رات محنت کی آج اس کانتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کہ آج ہمارے 3ایم این ایز اور 7ایم پی ایزبلوچستان میں ہیں۔مرکزمیں جس کی حکومت بنتی ہے وہی بلوچستان میں حکمرانی کرتی ہے، اختلاف کی وجہ سے بلوچستان کے ایم پی ایز کی ہروقت یہی سوچ ہوتی ہے کہ ویسے ہی ہمیں کچھ نہیں ملتا اگراپوزیشن میں گئے تو پھر میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔بلوچستان عوامی پارٹی انتخابات سے تین ماہ قبل وجود میں آئی اس کے بعد جو نتائج ہیں وہ سامنے ہیں تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے۔
اور میں آپ کو واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس وقت اپوزیشن کی جتنی جماعتیں تھیں ان سب نے مجھے یقین دلایاتھا کہ اگر آپ صوبہ میں حکومت بناتے ہیں تو ہم آپ کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں۔اس کے بعد ہم نے جب اپنی گنتی شروع کی تو ہماری پوزیشن حکومت بنانے کی بن رہی تھی کہ ہم صوبہ میں حکومت بناسکتے ہیں۔الیکشن کے نتائج کے چار دن بعد جب میں بلوچستان آیا تو رات کو گیارہ بجے مجھے جہانگیرترین کا فون آیا کہ آپ اس سے دستبردار ہوجائیں۔
کیونکہ ہم نے جام کمال خان کی حمایت کااعلان کیا ہے،جب مرکز سے عمران خان صاحب کا پیغام آیا تو میں چھپ کرکے بیٹھ گیا اور اگلے دن میں تمام دوستوں کو فون کرکے بتایا کہ میری جماعت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم صوبہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت بنانے میں مدد کریں اور وہ مرکز میں ہمارا ساتھ دینگے،ہم نے یہی سوچاکہ صوبہ سے زیادہ ہمارے لئے مرکز میں عمران خان کی حکومت بننا زیادہ فائدہ مند رہے گی جس کے بعد تمام دوستوں کو بتادیا کہ اب ہم بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے امیدوار نہیں اس لئے آپ لوگ جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں آپ آزاد ہیں کیونکہ ہم بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ جارہے ہیں۔
سوال: بی این پی مینگل اور ایم ایم اے نے بھی آپ کو حکومت بنانے میں مکمل سپورٹ کی پیشکش کی تھی؟
جواب: بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھااور بلوچستان کی ایک روایت ہے کہ ہم مل بیٹھ کر فیصلہ کریں کیونکہ بلوچستان میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو اکیلے حکومت بناسکے جب سے پارلیمنٹ بنی ہے یہاں مخلوط حکومت ہی بنی ہے۔
میرے سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں سب کے ساتھ ذاتی اور سیاسی تعلق تھا اس لئے سب کی یہی خواہش تھی کہ ہم سب ملکر صوبائی حکومت بنائیں اور میرے خیال میں یہ ان کی جائز اور آئینی خواہش تھی۔ بہرحال بلوچستان عوامی پارٹی کو پی ٹی آئی کی حمایت کے بعد پوزیشن مضبوط ہوگئی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
سوال:اگرجام کمال خان بلوچستان کے اہم فیصلوں میں آگے اعتماد میں نہیں لے گی تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
جواب: اس وقت تو جام کمال خان کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات بہت اچھے ہیں،مگر میں اپنی سیاسی سوچ اس پر مسلط نہیں کرنا چاہتا مگر جام کمال خان کو چاہئے کہ ہم اس کے سیاسی اتحادی ہیں ہمیں اعتماد میں لیکر چلیں ہم حتی الوسع کوشش کی ہے کہ جام کمال خان کی حکومت بہتر انداز میں چلے مگر آگے چل کر جام کمال پر منحصر ہے کیونکہ چلانے کاکام ان کا ہے اور ہم سنجیدگی کے ساتھ مدد بھی کررہے ہیں۔
اور ساتھ ہی ہم نے کبھی ایسے معاملات میں مداخلت بھی نہیں کی کہ جس سے جام کمال خان کی حکومت غیر مستحکم ہو،آگے کیلئے اپنی اور پارٹی کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا یہ اب جام کمال خان پر ہے کہ وہ ہمیں اعتماد میں لینگے یا نہیں کیونکہ اب تک جتنے بھی فیصلے اور پالیسیاں بنائی گئیں ہمیں کسی معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا ہے، فیصلہ کرنے کے بعد ہمیں بتاتے ہیں کیونکہ ہمارے اتحادی ہیں ابھی تک تو ہم کوشش کررہے ہیں کہ جام کمال خان کی حکومت چلے آگے جام کمال خان پر ہی منحصر کرے گا۔
سوال:یہ بات درست ہے کہ جہانگیرترین اور شاہ محمودقریشی بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں؟
جواب: شاہ محمود قریشی کا تو مجھے علم نہیں البتہ جہانگیر ترین صاحب ضرور مداخلت کرتے ہیں، مرکز کے فیصلے ہم پر ایسے مسلط کئے جاتے ہیں کہ جیسے ہم سیاسی کارکن اور جماعت نہیں ہے صرف فون پرہمیں انٹرسکشن دیئے جاتے ہیں کہ کیا کرنا ہے جو کہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔
خاص طور پر جہانگیرترین کے حوالے سے میں یہ ضرور کہونگا کہ اگر ہم نواز شریف پر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر جماعت کو چلارہے تھے کہ ان پر الزامات تھے اسی طرح جہانگیرترین پر بھی یہی الزامات ہیں تومیرے خیال میں جہانگیر ترین کو بھی احتیاط کرنا چاہئے پارٹی بھی اس حوالے سے احتیاط برتے۔
سوال:اپوزیشن جماعتوں کے جن رہنماؤں پر الزامات ہیں ان پر پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں جبکہ جہانگیرترین کابینہ کے اجلاس اور دیگر فیصلوں سمیت میڈیا پر پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں کیا جہانگیر ترین پر قانون لاگو نہیں ہوتا، وزیراعظم عمران خان کیوں جہانگیر ترین کو ان تمام معاملات سے الگ نہیں رکھتے؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے دیرینہ لیڈروں میں شمار ہوتا ہے ان کی قربانیاں بھی ہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے باقی فیصلہ پارٹی قیادت بہترطریقے سے کرسکتی ہے اس پر میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
سوال:گوادر کو وفاقی حکومت اپنے کنٹرول میں لے رہی ہے، کیا یہ صوبائی خودمختاری پر حملہ نہیں؟
جواب: اس حوالے سے پارٹی نے ہم سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی ہم سے مشاورت کی ہے مگر ہم کوئی ایسی چیز جس سے بلوچستان کی خودمختاری کوزک پہنچے اور بلوچوں کے حقوق متاثر ہوں اس کو برداشت نہیں کرینگے مجھے یقین ہے کہ عمران خان جیسا لیڈر ایسا نہیں کرے گا۔
سوال:عمران خان نے وزیراعظم بننے سے قبل جووعدے کئے سب دعوے نکلے،اپنے ہی قول کی نفی کی، امیج پر اثر نہیں پڑاکیا؟
جواب: جس وقت عمران خان نے یہ باتیں کی تھی وہ اپوزیشن میں تھے جب کوئی باہر ہوتا ہے تو اسے حکومت کے اندرونی حالات کا علم نہیں ہوتا، اگر کوئی اچھی وژن اورسوچ کے ساتھ آتا ہے کہ مجھے بہترین طریقے سے کام کرنا ہے تواس کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت پاکستان کی جو معیشت ہے اور اس دور میں تھا وہ فیک تھا جس طرح 7بلین ڈالرخرچ کرکے ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھا گیا تھا تو اس کا نقصان پوری قوم کوہوا،وہ 7 بلین ڈالر قرض اور سود پر لئے گئے تھے، آج عمران خان نے یہ حکومت سنبھالی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ آج تک کتنے قرضہ ادا کئے گئے، آپ کی معیشت سود پر کھڑی ہوگی تو وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وہ پچھلے تیس سال سے حکومت میں تھے ان کے لوگ تھے اصل حقائق کو باہر لانے نہیں دیتے تھے، جب ہماری جماعت نے حکومت سنبھالی تو ساری چیزیں ہمارے سامنے آئیں جسے سنبھالنے میں وقت لگا، مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری معیشت گزشتہ 70 سالوں سے بہتر ہوگی ہاں البتہ ڈالر کی قیمت کو نیچے آنے میں وقت لگے گا جس کیلئے عمران خان کو بہت محنت کرنا ہوگا، ہم جب تک بہترین ماہر معاشیات کو ساتھ لیکر نہیں چلیں گے تو ہم بہتری نہیں لاسکتے، اب عمران خان کو تجربہ ہوگیا ہے کہ کس طرح کی ٹیم بنانا چاہئے جو ہماری معیشت کو بہتر کرسکیں۔
سوال:ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس بہترین ٹیم اور تیاری نہیں تھی، تبدیل کی بات محض نعرہ تھا؟
جواب: ہمارے پاس وہ لوگ تھے جو کبھی اقتدار کا حصہ نہیں تھے وہ اس طرح تیار نہیں تھے جس طرح ہونا چاہئے تھا، بہرحال حالات کو بہتر کرنے کیلئے وقت چاہئے اور اب عمران خان کو وقت مل گیا ہے بہترین ٹیم ترتیب دینگے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئینگے جو بھی باتیں کی ہیں وہ پوراکرینگے۔
سوال: اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریاں،سیاسی جماعتوں کی کشیدگی،ملک کودرپیش چیلنجز،مسئلہ کشمیر،کیا ملک کیلئے نقصان دہ نہیں؟
جواب: دو چیزوں کو ایک جگہ مکس نہیں کیا جاسکتا، لیڈرشپ اور جماعت میں فرق رکھا جائے اگر عمران خان ایک جماعت پر پابندی لگارہے ہیں اور ان کوکام کرنے نہیں دے رہا تو ہم بھی کہتے کہ غلط عمل ہے مگر عمران خان نے کسی جماعت پر پابندی نہیں لگائی، انہیں گرفتار کیاگیا ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں ان کے خلاف انکوائری ان کے اپنے مخالفین نے شروع کی تھی یہ ہمارے دور کے کیسز نہیں بلکہ پہلے سے یہ کیسز موجود تھے۔
پیپلزپارٹی نے ن لیگ جبکہ مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی پر کیسز داخل کئے تھے، بات یہ ہے کہ لیڈرشپ اور پارٹی میں بڑا فرق ہے، پارٹیوں کو پاکستان کی بات کرنی چاہئے، 370آرٹیکل پی ٹی آئی پر نہیں ہوا یہ کشمیر پر ہوا ہے جسے ہم اپنی شہ رگ کہتے ہیں انہیں کشمیر اور قومی سلامتی کیلئے سوچنا چاہئے اپنے ایک دو لوگوں کو چھوڑ کر قومی مفاد کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دیگر لیڈران آگے آئے ان دونوں جماعتوں میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں جن پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں۔
سوال: راناثناء اللہ کی گرفتاری، منشیات کی برآمدگی کا الزام کیا انتقامی کارروائی نہیں؟
جواب: فیصل آباد کا بچہ بچہ رانا ثناء اللہ کے کردار سے واقف ہیں، گیلانی کا بیٹا کس کی چار دیواری کے ساتھ رہتاتھا اور اغواء ہوا، قتل مافیا، زمینوں پر قبضہ کرنا یہ سب جانتے ہیں، رانا ثناء اللہ کو ہر کوئی جانتا ہے یہ کیس صحیح یا غلط ہے اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
مشاہداللہ خان کو دیکھیں ان کی زبان اور رویہ سب کے سامنے ہے اسی طرح رانا ثناء اللہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں کہ اس کا کردار کیا ہے۔ لہٰذا دوچار لوگوں کو مثال نہ بنایاجائے جو اہل ہوں انہیں آگے لیکر آئے باقی جن پر الزامات ہیں وہ عدالتوں کا سامنا کریں میں اپنی حکومت سے یہی امید اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ کسی سے ناانصافی نہیں کرینگے۔
سوال:بلوچستان کے میگامنصوبوں سے فائدہ تو نہیں پہنچ رہاالبتہ ریکوڈک کا جرمانہ غریب صوبہ کے گلے پڑ گیا، ذمہ دارکون ہے؟
جواب: سب سے پہلے میں یہ بات کہتا ہوں کہ 4.6 بلین ڈالر بلوچستان کے بچے بچے کو ادا کرنے ہیں جو950 ارب روپے بنتے ہیں جسے آنے والی چارنسل بھی ادا نہیں کرسکیں گی۔ بلوچستان میں کوئی فرق پڑا؟پارٹیز اٹھی؟جو بلوچ قوم اور اس کے ساحل وسائل کی وارث ہوتی ہیں وہ کہاں گئے؟کیوں سڑکوں پرنہیں نکلی؟کون ذمہ دار ہے اس کا؟کس کی وجہ سے ہمیں یہ سزاملی؟اور اس کے پیچھے کیا مفادات کارفرما تھے؟معذرت کے ساتھ ہم بلوچ قومی مفادات میں بہت کم سوچتے ہیں۔
جب ہمارے ذاتی مفادات ہوتے ہیں تو ہم بات بھی کرتے ہیں،بلوچ بھی بن جاتے ہیں، قوم پرست ہوجاتے ہیں،بلوچ پرست ہوتے ہیں سب کچھ ہوجاتے ہیں،جب صوبہ اور ملک کے مفادات کی بات آتی ہے تو ہم اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔جرمانہ اب ادا کرنا ہے، وفاقی حکومت دے یا نہ دے مگر بلوچستان نے ادا کرنا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عدالت نے آپ کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔
آپ اس کے خلاف کہیں نہیں جاسکتے ریویومیں شاید جائیں مگر فیصلہ کو آپ کسی جگہ چیلنج نہیں کرسکتے۔میں وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ 1993ء سے جو بھی اس منصوبہ میں شامل تھا ان کے خلاف ایک شفاف کمیشن بنائی جائے جس پر عوام کا مکمل اعتماد ہواور سب کیلئے قابل قبول ہوہمیشہ متاثرین ایسی کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کے فوری بعد ایک کمیشن بنایامگراس میں کون شامل ہے؟لہٰذا ایک ایسی کمیشن بنایا جائے جس میں سیاستدان، ججزاور ٹیکنوکریٹ شامل ہوں اگرپاکستان سے نہیں ملتے تو دنیا سے کے دیگرممالک سے بہترین ٹیم لائی جائے جوانکوائری کرکے کرپشن کے حقائق کو سامنے لائے اگرایسا نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کو بھی تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ میری خواہش ہے کہ بلوچستان کے غریب عوام کے مجرمان کو کٹہرے میں لایاجائے جنہوں نے اس منصوبہ میں کرپشن کی اور بلوچستان کے غریب بچوں کو950 ارب روپے کا جرمانہ گلے میں ڈال دیا ہے۔
سوال: ریکوڈک منصوبہ کے بعد اب کیا سیندک اور سی پیک جیسے اہم منصوبوں کو غیرملکی کمپنیوں اور چائنا کے حوالے کرنا مناسب ہے؟
جواب: میرامؤقف واضح ہے کہ میں ایک جماعت کا ورکرہوں اس سے زیادہ میری کوئی پوزیشن نہیں، گزشتہ ایک سال کے دوران مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان دومنصوبوں کے حوالے سے مجھ سے کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی ہمیں کچھ بتایا گیا ہے،افسوس ہے کہ یہ سارے فیصلے ان لوگوں کے ہوتے ہیں جن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا،میں عمران خان سے درخواست کرونگا کہ بلوچستان کے عوام آ پ سے بہت امید رکھتے ہیں مجھے یقین ہے کہ عمران خان بہت جلد ایسا فیصلہ کرینگے جس سے بلوچستان کے عوام مطمئن ہونگے۔
سوال: بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ سرداروں کو ٹھہرایاجاتاہے، آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
جواب: 1947ء سے یہ تاثر عام ہے کہ سردار، خان، وڈیرے اپنے علاقے میں ترقی نہیں چاہتے، ہوسکتا ہے میں اسے کہوں کہ سوفیصدغلط ہے ایسا بھی نہیں ہے مگر ہماری حکومتوں نے بھی ایسے اقدامات نہیں اٹھائے کہ سردار ترقی کے خلاف ہیں، سڑک کی مثال لیں، کہاجاتا ہے کہ نواب خیربخش مری کاہان اور کوہلو کی طرف سڑکیں بنانے نہیں دیتا ہم جیسے سردار تو حکومتوں کے سامنے ہاتھ باندھتے ہیں کہ خدارا ہمارے علاقے میں سڑکیں تعمیرکریں پھر کیوں ہمارے علاقوں میں سڑکیں نہیں بنائی جاتی۔
سوال: میرچاکررنداسکول بنانے کا خیال اور اس کے مقاصد کے متعلق بتائیں؟
جواب: میرچاکر رند اسکول جو بنایا ہے یہ ایک مثال ہے کہ ہم تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، ہم اپنی قوم کے بچوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں، ہمیں احساس ہے کیونکہ ہم تعلیم سے محروم رہے ہیں شاید تعلیم یافتہ لوگوں کو اس کااتنااحساس نہ ہو، یہ جو اسکول ہم نے بنایا ہے یہ سوفیصد چیریٹی پر چل رہا ہے اور انشاء اللہ آگے بھی اس کو بڑھائینگے، جتنے بچے زیر تعلیم ہیں ان کو ٹرانسپورٹ، کپڑے تمام سہولیات ہم انہیں مفت فراہم کرتے ہیں۔
میرچاکر رند اسکول میں تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں پانچویں سے لیکر انٹرتک کی تعلیم دی جاتی ہے اب انشاء اللہ ہمارا ارادہ ہے کہ رواں ماہ کے دوران ایم سی آر کے اندر ایک اور سیکشن بنائینگے جس میں پہلی جماعت سے لیکر پانچویں جماعت تک تعلیم فراہم کی جائے گی، اب صوبائی بجٹ میں اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کرنے کیلئے رقم مختص کی ہے،میرے ایم پی اے فنڈ سے بھی اسپورٹس کمپلیکس کیلئے پیسے رکھے ہیں،اساتذہ کی رہائش کیلئے اپارٹمنٹ چاہئے تھے وہ بھی مل گئے ہیں۔مجھے امید ہے کہ میں اورمیری ٹیم جس نیک نیتی کے ساتھ کام کررہی ہے۔
یہ اسکول تمام سرداروں اور سیاستدانوں کیلئے مثالی بن کر ابھرے گا۔الیکشن سے قبل جب مہم چلارہا تھا تو میں نے تمام ڈسٹرکٹ کے دورہ کے موقع پر میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی تو ہم اپنی حکومتی مدت کے دوران بلوچستان کے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی تعمیر کرینگے اور ساتھ میرچاکر رند کی طرز کا بورڈنگ اسکول جو 600 بچوں پر مشتمل ہوگی وہ بنائینگے کیونکہ ہمارے لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بورڈنگ یا دیگر تعلیمی اداروں میں بھیجیں، اب تو چپراسی کیلئے بھی میٹرک شرط ہے ہمارے یہاں بیچارے غریب لوگ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی کسی روزگار میں لگاتے ہیں۔
تاکہ وہ گھر کے اخراجات میں مدد کرسکے،ہمارا مقصد ان غریبوں کو مائل کرنا ہے کہ تعلیم ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہے اور ہم نے اس کو کلکیولیٹ بھی کیا ہے کہ اگر ہر ہیڈکوارٹر میں اسکول تعمیر کی جائے تو 32 ایسے اسکول تعمیر ہونگے جس میں 16 ہزار کے قریب بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہونگے اور یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہوگی۔ مگر بات یہ ہے کہ ہمیں سنتا کون ہے، جووژن اور سوچ لیکر آتے ہیں انہیں اہمیت نہیں دی جاتی ہے واپس انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ بلوچستان میں گنگے اور بہرے لوگ چاہیے جو سوچ اور بول نہ سکیں اور ڈلیور نہ کرسکیں۔
تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سوچ اور پروگرام لیکر آئے تھے اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا، مگر ہم دعا گو ہیں کہ وفاقی اورصوبائی حکومت تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دینگے کیونکہ اس وقت صوبہ میں تعلیم اس وقت بڑی ضرورت ہے جبکہ دوسرا روزگار کیلئے ہر ڈسٹرکٹ میں ووکیشنل سینٹر بننے چاہئے خواہ اس کیلئے کچھی لکڑیوں کے ساتھ ہی سینٹر کیوں نہ تعمیر کئے جائیں ہم ہر چیزکیلئے اربوں اور کروڑوں روپے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں کیا دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں بغیر چھت کے کمروں میں بچوں کو تعلیم فراہم کی گئی اور آج دنیا کے یہ ممالک ترقی کی شرح میں کہاں پہنچ گئے ہیں، انگلینڈ سے 1860ء میں میونامی شخص امریکہ آتا ہے۔
اور ایک میواسپتال بناتا ہے،جب میں امریکہ گیا تھا تو میں نے میواسپتال دیکھا کہ آج اس اسپتال نے کتنی ترقی کی ہے جس میں آج 62ملازمین کام کررہے ہیں ایک فرد کی جدوجہد ہمارے سامنے واضح مثال ہے آج اس نے امپائرکھڑا کردیا ہے دنیا کی سب سے زیادہ میڈیکل کی ریسرچ وہاں ہوتی ہے۔ ہم کیوں شروع نہیں کرسکتے ہمیں اربوں کھربوں روپے پہلے چاہئے ہم کیوں ہمت کرکے پہلے کام کاآغازنہیں کرتے اگر جس دن یہ سوچ ہم نے اپنالیا تو انشاء اللہ ہم منزل کو بھی حاصل کرلینگے۔
سوال: بلوچستان میں سب سے زیادہ شرح اموات زچکی کے دوران ہوتی ہیں، صوبہ میں اسپتالوں کی ابترصورتحال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
جواب:جو صاحب اقتدار لوگ بہترجواب دے سکتے ہیں، بدقسمتی سے ہماری خواتین اسپتالوں تک نہیں پہنچتی جبکہ سب سے زیادہ شرح اموات نئے شادی شدہ جوڑوں میں ہوتی ہیں ہماری بچیاں ابھی جوانی نہیں دیکھتیں کہ موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں کون ذمہ دار ہے، حکومت تو ذمہ دار ہے مگر آج میں ایک سوال ان بلوچ اور پشتون ڈاکٹروں سے کرتا ہوں جو انہی اضلاع کے لوکل پر ڈاکٹر بن کر آتے ہیں۔
کیا وہ اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں جو اپنے علاقوں اور حلقوں میں جانے کیلئے تیار نہیں وہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اور یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے کہ چھوٹی بات پرہڑتال کی جاتی ہے میرے خیال میں یہ حکومت کی سب سے بڑی کمزوری ہے سب سے پہلے قانون بننا چاہئے کہ جو ڈاکٹر جہاں سے آتا ہے انہیں وہاں بھیجا جائے اورچارکٹیگری بنائے جائیں اور پھر ریموٹ ایریاز بنائے جائیں یہی ڈاکٹرز بینیفٹ بھی لیتے ہیں دگنا تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
تنخواہ وہاں کی لیتا ہے اور رہتا کوئٹہ میں ہے، بحیثیت بلوچستان اور بلوچ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ بطور ڈاکٹرمیں نے اپنے لوگوں کیلئے کیا کیا ہے؟مدرٹریسا جیسی خاتون یورپ سے آتی ہے خدمت کرنے کیلئے تو ہمارے ڈاکٹروں کو سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے جو ان کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے۔ میں جام کمال خان سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس حساس مسئلے کودیکھیں۔
سوال: بلوچستان میں بیروزگاری بھی ایک بڑی وجہ ہے، روزگار کے مواقع کیوں پیدا نہیں کئے جاتے؟
جواب: بیروزگاری ایک مسئلہ بالکل ہے، ہر مہذب اور جمہوری ملکوں میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ بیروزگاری کہاں پر ہے اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد وہ مکمل ڈیٹا فراہم کرتا ہے کہ کتنے لوگوں کو روزگار اس کے دور حکومت میں دیا گیا،مگر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کم جبکہ غیر ترقیاتی فنڈززیادہ ہوں، ہماراترقیاتی فنڈ60 ارب روپے ہے۔
اب دونوں سالوں کو ملادیا ہے تو سو ارب سے زائد ہوگیا ہے جبکہ غیرترقیاتی فنڈ70 سے 75 ارب روپے ہے یہ کہاں کا انصاف ہے، حکومتیں آسامیاں پیدا کرتی ہیں خود دیتی نہیں، اب بلوچستان میں یہ رواج بن چکا ہے کہ ہر بچہ پڑھے گا اسے سرکاری ملازمت ملے گی ایسا نہیں ہوناچاہئے بلکہ اس کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں جو کہ حکومت کی ذمہ داری ہے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، ہمارے پاس سوچ اور وژن ہی نہیں ہے۔
دنیا میں نرسز کی ڈیمانڈ ہے امریکہ میں بہت سے پاکستانی ڈاکٹرز کام کررہے ہیں جو بڑے نامور سرجن اورفزیشن ہیں، اگر ہم بہترین ڈاکٹرز اور نرسز بنائیں توپوری دنیا میں ان کی ڈیمانڈ ہوگی۔ پوری دنیا میں اسکیل لیبر ہوتی ہے۔ میٹرک کے طالبعلم کو ماہانہ دس ہزار دیکر کورس کرائیں اور سرٹیفکیٹ دیں تو پوری دنیا میں اس کی ڈیمانڈ ہوگی اسے یہاں ملازمت کی ضرورت ہی نہیں ہوگی جس پر حکومت کو سوچنا چاہئے۔
سوال:اگر وزیراعلیٰ بلوچستان سردار یارمحمد رند ہونگے تو ان کی ترجیحات کیا ہونگی؟
جواب: غالب کا ایک شعر ہے اس کا ایک مصرع عرض ہے کہ ”ہزاروں خواہش ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“جب خدا موقع دے گا تو اس وقت میں آپ کو جواب دونگا۔
سوال: اختلافات کی موجودگی میں کیا جام کمال خان اپنی مدت پوری کرپائینگے؟
جواب: یہ ذمہ داری لیڈرآف دی ہاؤس پر منحصر ہے جب ہاؤس اس کواپنا بڑاتسلیم کرتا ہے تو وہ سب کو ساتھ لیکر چلتا ہے مجھے امید ہے کہ جام کمال خان پورے ہاؤس اوراتحادیوں کو فیملی کی طرح ساتھ لیکر چلیں گے ہم بہتری کی امید ان سے رکھتے ہیں منفی سوچ ٹھیک نہیں ہوتی۔