|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2019

بلوچستان جہاں امن و خوشحالی ایک خواب ہے۔ اس خواب کو جن لوگوں نے آنکھوں میں سجائے رکھا، جس کے لیے آواز بلند کی، جسے زیر تحریر لاتے رہے۔تختہ دار پر لٹکائے گئے۔ گولیوں سے چھلنی کیے گئے۔ بم دھماکوں کی زد میں آئے۔ نہ صحافی محفوظ رہا، نہ شاعر، نہ استاد، نہ فنکار۔ صحافت کا شعبہ متاثر ہونا ہی ہونا تھا سو وہ صحافی جو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا خاکہ پیش کرتے رہے وہ آواز یں ایک ایک کرکے خاموش کرائی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان صحافت کا بنجر زمین ثابت ہوا۔

بعض لوگ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ بلوچستان میں حقیقی صحافت اب بھی ہو رہی ہے۔ مگر زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ لکھا نہیں جا رہا اور جو نہیں ہو رہا وہ سب کو دِکھ رہا ہے۔ ایک ایسا میدان جو اب تک 44 زندگیاں نگل چکا ہے اس میدان پر صحافتی ہریالی دکھائی نہیں دیتی۔ بند کمرے ہیں بند کمروں میں خبروں کی فراوانی ہے اور اس فراوانی میں بلوچستان کا عکس کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

28اگست کادن بلوچستان یونین آف جرنلسٹ نے شہدائے صحافت بلوچستان کے نام کررکھا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں سے اس دن کا اہتمام کرتا چلا آرہا ہے۔ صحافیوں کو اپنے بینر تلے جمع کرتا ہے۔ اسٹیج سجتا ہے تقاریر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعائیہ کلمات پڑھے جاتے ہیں۔ یوں ایک بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآء ہو کر واپس اپنے کاموں میں جھٹ جاتے ہیں۔گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں شہدا ء ڈے منایا گیا۔ پروگرام میں میڈیا مالکان میں سے کوئی نظر نہیں آیا بیور آفس کے بہت کم سربراہ نظر آئے۔ممبران کی غیرحاضری، چندہ کی عدم ادائیگی، شہدا ء ٹرسٹ کی غیرفعالی پر قائدین کو سیخ پا اور مایوسی سے لبریز پایا۔ جو تقاریر ہوئیں انہیں قائدین کے شایان شان نہیں پایا۔

رحمت اللہ عابد کی طرف دیکھا تو اسے شکوہ کناں پایا۔ قیادت کی تقاریر سے انہیں نالاں پایا۔ وشبود پنجگور کا رحمت اللہ عابد دنیا نیوز اور اے پی پی سے وابستہ کارکن تھا۔ ایک دن دوست کی کال آئی کہنے لگا کہ پنجگور کا کوئی صحافی مارا گیا ہے۔ میری یاداشت میں وہ تمام چہرے گردش کرنے لگے جن سے پنجگور میں شناسائی ہوئی تھی میں نے سوال کیا کون؟ تو کہنے لگے نام کا نہیں معلوم۔۔

میں نے رحمت اللہ عابد کا نمبر ملایا۔ کال جا تی رہی مگر بات نہیں ہو پائی، رحمت اللہ کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی۔ دنیا نیوز نے شہادت کی خبر نمایاں طور پر چلائی وہ رحمت اللہ عابد جو معاوضے کی عدم ادائیگی کے باعث شکوہ کناں رہا اس شکایت کا ازالہ میڈیا مالکان نہ ہی ان کی زندگی میں کر پائے اور نہ ہی ان کی شہادت کے بعد۔ قاتل کون تھے نہ مجھے خبر ہوئی اور نہ ہی ادارے اس کا سراغ لگا پائے، رحمت اللہ عابد کے گھر کا دروازہ یونین آف جرنلسٹ رہنماؤں کی راہیں تکتا رہا، یونین والے وہاں پہنچ نہیں پائے۔ پہنچ پاتے بھی کیوں، مقامی صحافیوں کو یونین آف جرنلسٹ نے اپنا حصہ سمجھا ہی نہیں۔

رحمت اللہ عابد کی خاموش نگاہوں سے نظریں چرائیں تو حاجی رزاق کو سامنے پایا۔خاموش طبع کایہ آدمی ہمیشہ مکمل مؤقف سننے کا عادی تھا۔ اس وقت تک سنتا جب تک کہ سامنے والا آدمی اپنی بات ختم نہیں کرتا۔ میراناکہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ایک بار جانا ہوا۔ کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے، بے شمار موضوعات زیر بحث آئے علمی آدمی تھے سیاست ان کی زندگی کا لازمی جزو رہا۔ صحافت اظہار وسیلہ۔

شہادت سے قبل توار اخبار کے ساتھ وابستہ رہے۔ توار سماجی موضوعات کو اپنی صفحات پر جگہ نہیں دیتا، گلہ رہا۔ حاجی مسکراتا اور مجھے سنتا رہا۔ توار پر برا وقت آیا۔ وہ دفتر جو سنی پلازہ میں تھا اس کی منتقلی کی خبریں آتی رہیں۔ نقل مکانی کے اس عالم میں پھر نہ حاجی سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی بعد میں توار کے لیے رپورٹنگ کا موقع آیا۔ ایک دن اغواء کی خبر آئی بعد میں ایک خبر ان کے مسخ شدہ لاش کی برآمدگی سے متعلق موصول ہوئی۔ اغوا ء اور قتل کے درمیان ان کے ساتھ کیا ہوتا رہا،اس سے سب انجان تھے عکس میں تخلیق کردہ خاموشی بہت کچھ سنا رہی تھی۔

ایک اور تصویر نمایاں ہوتی ہے تصویر ہے ارشاد مستوئی کی۔ اگر میں کہوں کہ ارشاد میرا دوست تھا تو میں جھوٹ بول رہا ہوں اگر یہ کہوں کہ ارشاد کے ساتھ دیر تک محفلیں سجاتا تھا یہ بھی جھوٹ ہے اگر میں کہوں کہ میں نے ارشاد کے ساتھ کام کیا ہے یہ بھی جھوٹی کہانی ہوگی۔ تو پھر سچ کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ارشاد جو الفاظ تحریر کیا کرتا تھا وہ معاشرتی ترجمانی کیا کرتے تھے بلوچستان کی ترجمانی کیا کرتے تھے۔

اس کے خیالات کی دھارا میچ کر پاتا تھا لفظوں کو کب کہاں اور کس لیے استعمال کرنا ہے یہ ہنر اسے بخوبی آتا تھا۔ ارشاد کو دیکھے بنا صحافت کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ بولتا ہوا نظر آتا تھا۔ اور تو اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے پاس اس وقت شہداء صحافیوں سے متعلق اعداد و شمار پر مبنی جو ویڈیو رپورٹ موجود ہے وہ ارشاد مستوئی ہی کی تخلیق کردہ ہے۔ بعد میں کتنے صحافی مارے گئے (جن میں ارشاد مستوئی خود بھی شامل ہیں) ان کی وابستگی کن کن اداروں کے ساتھ رہی، ان کا خاکہ یونین ترتیب نہیں دے پایا۔ وہ خلاء جو ارشاد مستوئی کے جانے کے بعد یونین کے اندر پیدا ہوئی تھی وہ تاحال برقرار ہے اس پر یونین کو سوچنا چاہیے اور محسوس کرنا چاہیے۔ شہادت سے دو روز قبل نواب اکبر بگٹی پر لکھی گئی تحریر ”ڈاڈا ئے بلوچ“ ارشاد کی تحریری سفر کا آخری عنوان قرار پایا۔

ایک اور تصویر۔۔۔۔ آہ جاوید نصیر رند۔ توار کے توسط سے ان سے شناسائی ہوئی۔ دبلے پتلے جسم کا مالک ذہانت کا پیکر تھا۔ ایک بار ہوا یوں کہ ایک تحریر ترتیب دے کر اخبار کو ارسال کیا۔ کئی دن گزر جانے کے باوجود وہ مضمون اخبار کا حصہ نہیں بن پایا۔ شکایتی فون ڈائل کیا۔ فون پر جاوید نصیر موجود تھے۔ کہنے لگے کہ توار سماجی عنوانات پر انحصار نہیں کرتا۔ بحث و مباحثہ چلتا رہا۔ میرا مؤقف بھاری نکلا۔

اگلے دن وہ عنوان اخبار کی زینت بن پایا۔ شکریے کے لیے دفتر فون کیا تو کہنے لگے کہ آواران والے زور آور لوگ ہیں میں نے جواباً کہا شکر کرو کہ آفس کا حصہ نہیں ہوں ورنہ ایڈیٹر کی کرسی آپ سے چھین لیتا۔ اس پر وہ کافی دیر تک قہقہہ لگاتے رہے۔ توار سے ناطہ ٹوٹا تو رابطے کی ڈوری کمزور پڑ گئی۔ ایک بار حب شہر میں انٹرنیٹ کی ضرورت پیش آئی تو مقامی کیفے چلا گیا۔ کیفے کی ایک نشست پر جاوید نصیر کو براجمان پاکر پہلا سوال ان سے یہ کر ڈالا کہ

جاوید جان توار کی ادارت آج کل یہیں سے کر رہے ہو تو کہنے لگے کہ توار سے ناطہ ٹوٹ گیا ہے مزدوری کرنے یہاں آتا ہوں۔اس کے بعد ان سے مل نہیں پایا۔ ایک دن پتہ چلا جاوید نصیر لاپتہ کر دیے گئے ہیں،جاوید کتاب اور قلم کی بات کرتا تھا خیالات کا جواب گولیوں سے دیا گیا،خضدار سے ایک مسخ شدہ لاش برآمد ئی، شناخت جاوید نصیر کے نام سے ہوئی۔ جب بھی ساکران روڈ سے ملحقہ حب چوکی قبرستان کے قریب سے گزر ہوتا ہے تو اس قبر کو سلامی ضرور دیتا ہوں جس کے کتبے پر جاوید نصیر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ قبر سے ہم کلام ہوتا ہوں تو خاموش فضا میں یہ جملہ کانوں سے ٹکراتا ہے ”آواران والے زور آور لوگ ہیں“ مگر ظلم و استبداد کی اس فضا میں اپنے لفظوں کو بشمول اپنے آپ کمزور پاتا ہوں۔

بینرز پر آویزاں تصویریں ہی تصویریں ہیں۔ خاموش تصویریں۔ بہت کچھ کہہ پا رہے ہیں سن پا رہا ہوں خیالی مکالمہ کرتا چلا جا رہا ہوں۔ خضدار کا عبدالحق ہے، دیدگ نذر کے بھائی الیاس نذر ہیں، سیف بلوچ ہیں اور نہ جانے کتنے چہرے ہیں۔ مزید کسی سے نظریں نہیں ملا پارہا۔ یہ سب کون تھے، یہ وہ لوگ تھے جو قلم کی حرمت جانتے تھے بلوچستان کی بات کرتے تھے مظلوم طبقے پر جبر کی داستانوں کو زیر قلم لایاکرتے تھے۔ تختہ دار پر لٹکائے گئے، گولیوں سے چھلنی کیے گئے۔ آج کا لیڈر سیخ پا ہے مایوس ہے وہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر شہدا ء ٹرسٹ کی بات کرتا ہے شہداء کے لواحقین کے لیے چندے کی بات کرتا ہے۔

تعزیتی ریفرنسز کے ذریعے حکومتی انحراف اور ممبران کی بے حسی کی بات کرتا ہے مگر موضوع غائب ہے۔ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ہماری گفتگو، ہمارے خیالات اور ہماری کوششوں میں شاید ہماری نیک نیتی شامل ہو مگر ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں ان باتوں سے جن سے چندے کی بو آتی ہے یا صحافیوں کی پلاٹنگ کی بات ہوتی ہے۔شہدا ء کی روحوں کو بے چین کر دیتی ہے۔ہم نے اس سوال کو گول کر دیا جو روز ہمارے وجود کے اندر جھانک کر کہتی ہے کہ جرم و استبداد کی اس فضاء میں سچائی کا مقام کیا ہے کیا ہم اس فضا میں لفظوں کی حرمت برقرار رکھ پائے ہیں جس کا مہار شہداء ہمارے ہاتھوں دے کر چلے گئے؟