گزشتہ شب سے ناسازی طبیعت کا شکار ہوں۔ ابھی تک نتیجے پہ نہیں پہنچ پا رہا کہ اس غم جاناں کا آخر علاج کیا ہے۔ حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے گومگو صورتحال کاشکار ہوں کہ بخار گلے کی خرابی کے باعث ہے یا پیٹ کے یا کوئی تیسرا مرض وارد ہو چکا ہے جس سے انجان ہوں۔ وقت اسی کشمکش میں گزار تا چلا جا رہا ہوں کہ دوائیاں پیٹ کی لوں، گلے کی یا بخار کی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو بیک وقت تینوں کی دوائیاں لینی شروع کرتا ہوں۔ خودساختہ علاج سے ہوتا یہ ہے کہ مزید دو بیماریوں سردرد اور ہڈی درد کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہی سوچتا چلا جاتا ہوں کہ آخر اس سب کا انجام کارکیا ہوگا۔۔
بیماری سے یاد آیا کہ اسکول کے زمانے میں ایک ٹیچر ہوا کرتا تھا۔ خدا اسے لمبی عمر عطا کرے اب بھی حیات ہیں جب تک اسکول کا حصہ رہے ہم نے اسے نزلے کا شکار ہی پایا اتنا سب کچھ سہنے کے باوجود نزلہ اس کے نزدیک اپنے آپ کو بیماری کی فہرست میں شمار نہیں کرپایا۔ اور نزلہ تھا کہ جان پہ بن آیا۔ استاد تھا سخت جان، نہ مرنے کی قسم کھا چکا تھا سو نہ مرا اور ہم نے جیت اور شکست کا حقیقی مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا۔ نزلے کا وجود ہی ختم ہو ااس کے لیے اس نے حکمت کی کتابوں کا مطالعہ کرکے فارمولے دریافت کیے اور کلاس کو فارمولوں کا تجربہ گاہ بنا کر انہیں دوسروں پر آزماتا رہا۔
حصولِ علم اسکول سے کالج لے آیا مگر یہاں کی درسی کتابوں میں ہم نے ایک بھی مضمون بعنوان ”بنیادی صحت“ نہیں پایا۔ مالیکیول کیا ہے؟ الیکٹران پروٹان نیوٹران کیا ہیں؟ آکسیجن کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ کہ کیمیکل کا ملاپ کیوں کر کیا جاتا ہے؟ زمین پر ان کا حقیقی مشاہدہ نہیں کرپا یا سب حافظے سے اوجھل ہو چکے ہیں اور جو چیزیں مشاہدے کا حصہ ہیں ان کا عملی اطلاق نصاب میں نظر نہیں آیا۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں بنیادی صحت پر کام کر رہی ہے بنیادی صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ آگاہی پر بھی کام کر رہی ہے جہاں اس کی موبلائزیشن ٹیم اسکول اور کمیونٹی ہیلتھ سیشن کا انعقاد کراتی رہتی ہے۔صحت سے متعلق بنیادی معلومات، بیماریوں سے بچاؤ اور شعور و آگاہی کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکے پی پی ایچ آئی بلوچستان نے اس کے لیے ایک کتابچہ بعنوان ”تعلیمِ صحت اور حفظانِ صحت“ متعارف کرایا ہے۔
23ابواب پر مشتمل اس کتابچے میں صحت سے متعلق کئی اہم موضوعات زیر تحریر لائے گئے ہیں۔ جس سے پی پی ایچ آئی کی موبلائزیشن ٹیم و کارکن استفادہ کرکے صحت سے متعلق شعور و آگاہی دینے کا کام کرتے ہیں۔ اِس سال کیچ کے مختلف علاقوں میں ڈینگی کی وارداتیں خبری موضوع بنے،آبادی ڈینگی کے زیر اثر آگیا ڈینگی اپنے مصمم ارادوں کو عملی جامہ پہناتا گیا۔ صحت کے ادارے سر پکڑ کر رہ گئے کہ ڈینگی کے مضبوط ارادوں کے آگے بند کیسے باندھاجائے اور تابہ توڑ حملوں کا دفاع کرکے زیر کیسے کیا جائے۔
پی پی ایچ آئی کیچ کے ڈسٹرکٹ منیجر حاجی خان کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی اسکریننگ اور علاج کے لیے مہنگے کٹ اور دوائیوں کا بوجھ برداشت کیا بلکہ ان وجوہات کو زیر بحث لایا جو ڈینگی کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ اسکول و کمیونٹی ہلیتھ سیشن کرائے، آگاہی دی، مرض سے کیسے بچا جائے سے،متعلق ڈینگی سے متاثرہ علاقوں شاہی تمپ، بہمن، سلالہ بازار، آبسر، سنگانی سر، جوسک اور سری کہن 54 آگاہی سیشنز کروائے۔ سوشل موبلائزیشن کے ذریعے جو حکمتِ عملی بنا چکے تھے اس سے ہم ڈینگی کو زیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان نے ہیلتھ ایجوکیشن حکمت عملی اپنانے اور اور فیلڈ سوشل موبلائزیشن کے تیکنیکس کو بہتر بنانے کے لیے جائیکا کے ساتھ تعلیم بالغان پائلٹ منصوبے کا آغاز کیا ہے جسے ابتدائی طور پر چند بنیادی مراکز صحت کی سطح پر متعارف کرایا گیا۔ منصوبے کے تحت بنیادی مراکز صحت میں خواتین کو نصابی خاکوں کے ذریعے تعلیم دی جا تی ہے۔ کیا اس منصوبے کا دائرہ کار تمام اضلاع تک پھیلایا جا سکتا ہے یا ہیلتھ ایجوکیشن سے متعلق کوئی مستقل منصوبہ پی پی ایچ آئی بلوچستان کے پلان کا حصہ ہے یہی سوال چیف ایگزیکٹیو آفیسر پی پی ایچ آئی بلوچستان عزیز احمد جمالی کے سامنے رکھا۔
تو ان کا کہنا تھا ”بارہ سال سے سوشل موبلائزیشن سیکشن پر کام کرتے ہوئے اب بھی ہمیں وہاں خلا نظر آرہا ہے۔ موبلائزیشن کے مختلف موڈ ہیں ہمارے ہاں اب تک روایتی انداز میں سوشل موبلائزیشن کی جاتی رہی ہے ہم اس میں تبدیلی لا رہے ہیں موبلائزیشن کے جس عمل میں خواتین کمیونٹی محروم تھی بنیادی مراکزِ صحت کی سطح پر فیمیل سوشل موبلائزرز کی تعیناتی سے اس کمی کو دور کیا جا سکے گا۔ جائیکا کے ساتھ تعلیمِ بالغان منصوبہ کوئٹہ، پشین اور مستونگ میں کامیاب جا رہا ہے۔ امید ہے اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور ہم اسے دیگر اضلاع تک بڑھانے میں کامیاب ہوں گے“۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان کے پاس تجربہ کار موبلائزیشن ٹیم موجود ہے، حکومتِ بلوچستان صحت کا موضوع نصاب میں شامل کرکے پی پی ایچ آئی کی 12 سالہ موبلائزیشن تجربے سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ہیلتھ ایجوکیشن جیسا منصوبہ شروع کیا گیا تو اس سے نہ صرف اسکول کے طلبا کو صحت سے متعلق آگاہی ملے گی بلکہ ُان بیماریوں کا سدباب کرنے میں مدد ملے گا جو لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔
حکومتِ بلوچستان کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور پی پی ایچ آئی منیجمنٹ کو چاہیے کہ ہیلتھ ایجوکیشن کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلانے کے لیے ایک ایسا منصوبہ ڈیزائن کرے جو ہسپتالوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد فراہم کرے اور صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے۔