بیٹھک میں محفل جمی ہوئی تھی ایک شخص محفل کا مرکز و محور تھا۔ محفل میں بیٹھے دیگرافراد اسے واجہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی۔ بندہ اٹھ کر چلا گیا۔ان کے چلے جانے کے بعد محفل کے شرکا ء سے دریافت کیا کہ ”واجہ“ کون تھے؟ تو ایک نے بتایا کہ صبا دشتیاری صاحب تھے، ریفرنس لائبریری کے لیے چندہ کرنے آئے ہیں۔
صبا دشتیاری کا نام پہلی بار زیر سماعت آیا۔ مسجد، مدرسہ چندہ تو سنتے چلے آ رہے تھے لائبریری کے نام پر چندے کا ذکر پہلی بار آیا۔ سب نے حسبِ توفیق مدد کی اور تعاون کا یقین دلایا۔ صبا صاحب چلے گئے۔ پھر مجھے کبھی نظر نہیں آئے ان کی گراں قدر خدمات سماج میں ضرور نظر آئے، احتساب کا معاملہ ہی نہیں انہوں نے ایک کتابچے میں ان ناموں کا بھی ذکر کیا جو دس روپے چندہ دے چکے تھے۔
وہ صبا دشتیاری جو کسی زمانے میں مذہبی جنونیت کا شکار تھے بلوچی زبان و ادب دوستی کا شکار ہوگئے پھر اسی پر کاربند نظر آئے اوڑھنا بچھونا وہی ہو کر رہ گیا کمٹمنٹ کا عنصر اس کے رگ وپے میں تھا۔ ملیر میں ادارے کا ڈھانچہ تخلیق کر ڈالا، نوجوان ریسرچ کی جانب چلے آجائیں اسے کتابوں سے بھر دیا۔ جہاں بھی گئے کتابیں جمع کرتے گئے۔لوگوں سے ملے، اداروں سے ملے۔ کہیں حوصلہ افزائی کا عنصر پایا کہیں مایوسی ملی۔
مگر کمٹمنٹ اسے اس راہ سے جدا نہیں کر پایا جس پر اس نے چلنے کا وعدہ کیا تھا۔صبا یہ سب کچھ ایک بہت بڑے کاز کے لیے کر رہے تھے۔ اس کام کا بیڑا پنے ناتواں کندھوں پر اٹھایا اور نکل پڑے منزل کی جانب۔ بعد میں جب بلوچستان کے زمینی حالات نے اس کا رخ سیاست کی جانب موڑ دیا۔ ادب،سیاست، سماج سب ہی ایک دوسرے کے کڑی بندھن تھے وہ اپنی تخلیق کردہ لائبریری کو سیاست کے لیے استعمال میں لا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی ایسا ہونے دیا۔ اسے دوستوں کے سپرد کیا اور خود سیاسی محاذ پر جھٹ گئے۔ وہ صبا جو لکھتا تھا اب وہ بول رہا تھا ان کا بولنا مقتدر حلقوں کو پسند نہیں آیا۔لہذا آواز خاموش کر دی گئی۔ مگر وہ آواز اب بھی بلوچستان کی فضاؤں میں گونجتی سنائی ضرور دیتی ہے۔
کراچی میں قیام کے دوران جب ریفرنس لائبریری جانا ہوا تو نہ جانے مجھے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ لائبریری افسردہ سا رہنے لگا ہے۔ کتابیں ہیں صبا کی یادیں ہیں۔ یادوں کی خوشبو ابھی تک مہک رہی ہے مگر صبا کا وہ خواب جو اس نے لائبریری کو تخلیق کرتے ہوئے آنکھوں میں بسایا تھا وہ خواب حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے کہیں بھی نظر نہیں آیا، ایسا کیوں تھا جیسے سب کچھ تھکا ہارا ہو۔ وہ دوست جو کبھی صبا کے نام لیوا تھے۔ اب ان کی دیدار کو لائبریری کی دیواریں تکتے ہوئے نظر آئے۔
کتابوں کے اوراق ان گمشدہ چہروں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھے۔ کیا صبا کا کاز کمزور ہو چکا ہے یا وہ خواب جس کے لیے اس نے اتنی بڑی محنت کی تھی اسے اپنے شاگردوں کو منتقل کرنے میں ناکام ہوئے۔ اس روز لائبریری میں ہمیں ایک بھی شخص تحقیق کرتے ہوئے نہیں ملا۔ صرف دو چہرے طلبا کی شکل میں نظر آئے جو امتحانی مقابلے کی تیاری کررہے تھے۔ ریفرنس لائبریری کا کام آگے بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔ مہتمم ریفرنس لائبریری غلام رسول کلمتی کہتے ہیں کہ کام رکا ہوا ہے۔ مالی مشکلات اور اافرادی قوت کی کمی یہ دونوں وہ اسباب ہیں جو رکاوٹ ہیں۔
ہفتے کا دن تھا سات گھنٹے کی میری موجودگی میں لائبریری کے اندر ادارے کا ایک ہی عہدیدار کامریڈ واحد رمضان بلوچ کے ساتھ کتابوں کی تلاش میں لائبریری کے اندر نظر آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لائبریری میں ریسرچ ورک ہو رہا ہوتا۔ نئی تخلیقات کو زیر بحث لایا جا رہا ہوتا، غلام رسول کلمتی، لائبریرین عبدالوہاب اور دو اور نوجوان جو کہ نصابی تیاری کے سلسلے میں لائبریری آئے ہوئے تھے نظر آئے۔ باقی لائبریری مجھے خالی ہی نظر آیا۔
لائبریرین عبدالوہاب نے لائبریری ممبرز کی تعداد 1711بتائی۔ جن کے ذمے سالانہ 500روپے ادا کرنے ہوتے ہیں مگر یہ ممبران معمولی فیس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ عبدالوہاب کے بقول اگر ممبران ہی سالانہ فیس ادا کریں تو ادارہ شاید ہی حکومت یا عوامی اداروں کے سامنے جولی پھیلانے پر مجبور ہوجائے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں لائبریری کے لیے 40لاکھ کا گرانٹ کا اعلان کیا گیا تھا لائبریری انتظامیہ کے بقول آدھی رقم ہی ادا کی گئی۔ یہ ادارہ بمشکل ہی کتابوں کی اشاعت کا کام، تین ملازموں کی تنخواہوں کا بندوبست اور یوٹیلٹی بلز کا خرچہ برداشت کر پاتا ہے۔ تو سندھ گورنمنٹ کوئی گرانٹ نہیں دیتا کیا؟ سندھ گورنمنٹ اسے بلوچ اور بلوچستان کے کھاتے میں ڈال کر اونرشپ لینے سے قاصر ہے۔
ریفرنس لائبریری کا افتتاح دسمبر 2003میں دہقان گارڈن ملیر میں لالا لعل بخش رند کے ہاتھوں ہوا اپنے قیام سے لے کر اب تک لائبریری14000کتابوں کا مجموعہ جمع کر پایا ہے جس میں تمام موضوعات سے متعلق مواد موجود ہے۔مزید کتابوں کے لیے جگہ کم پڑ رہی ہے۔ گو کہ ڈسٹرکٹ کونسل ملیر نے گزشتہ سال اضافی کمروں کا اعلان کیا تھا مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو پایا ہے۔ اب تک کی اعداد و شمار کے مطابق ادارے کی قیام سے لے کر اب تک ریفرنس لائبریری 52 کتابیں تخلیق کر پایا ہے جن میں 14کتابیں لائبریری کے خالق صبا دشتیاری کی ہیں۔ غلام رسول کلمتی کے بقول کئی کتابیں ایسی ہیں جو تمام مراحل طے کرکے اشاعت کے قابل ہیں مگر مالی مشکلات کے سبب ادارہ انہیں شائع نہیں کر پا رہا۔
لائبریری کے اندر ایک فوٹو کاپی مشین رکھا ہوا ہے مگر ناکارہ ہے۔ دورانِ موجودگی مجھے اہم موضوعات کی فوٹو کاپی کی ضرورت پیش آئی۔ ہم نے فوٹو کاپی کے لیے طویل فاصلہ طے کیا مگر ناکام لوٹ آئے۔ ملیر میں بجلی کے بحران کی وجہ سے ہم نے فوٹو اسٹیٹ کی دوکانوں کو بند پایا۔ لائبریرین نے اس موقع پر مجھے صبر کی تلقین کرتے ہوئے اسے اگلے دن فوٹوکاپی کروانے کی خواہش کا اظہار کیا نہ چاہتے ہوئے ان کے اس مطالبے کے سامنے سر خم کرنا پڑا۔ فوٹوکاپی مشین کی دستیابی اور دیگر ضروری مشینری کی موجودگی سے ریسرچرز یا طلبہ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور وہ ایک ذہنی الجھن سے نکل سکتے ہیں جس کا سامنا میں کر چکا تھا۔ اس کے لیے مخیر حضرات آگے آسکتے ہیں۔
لائبریری کے اندر نایاب کتابوں کے ساتھ ساتھ پرانی میگزینوں کا وسیع مجموعہ موجود ہے۔ لائبریری انتظامیہ گو کہ اس بات کا اقرار تو کرتی ہے کہ میگزین کی اسکیننگ کا کام نوے فیصد مکمل ہوچکا ہے مگر اسے پی ڈی ایف میں لا کر ڈیجیٹلائزیشن کی شکل دینے میں ایک طویل دورانیہ کار درکار ہے جسے ایک قلیل افرادی قوت ممکن نہیں ہو پا رہی اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔
لائبریری کی مجموعی صورتحال گوکہ مایوس کن نہیں مگر جس کمٹمنٹ کے ساتھ صبا نے ادارہ تخلیق کر ڈالا اس پر اپنا وقت، سرمایہ سب کچھ لگا ڈالا۔ وہ کمٹمنٹ اس کے شاگردوں میں کہیں نظر نہیں آیا۔ صبا کے وہ شاگرد جو آج اچھی اچھی پوزیشنوں پر ہیں مراعات لے رہے ہیں مگر ان کے درمیان صبا کا خاکہ نظر نہیں آتا۔ سوچتا ہوں کہ صبا جاتے جاتے اپنے پیچھے شاگردوں کا وہ مجموعہ کیوں تیار نہیں کرپائے جواس کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کرتے۔
غلام رسول کلمتی کے مطابق جانے سے پہلے کہہ گئے تھے ”غلام رسول میرے جانے کے بعد یہ ادارہ کون سنبھالے گا؟“ تو میرا جواب تھا ”میں“ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس جواب سے نہ ہی آج تک وہ اپنے آپ کو مطمئن کر پائے اور نہ ہی صبا کی روح کو۔ ادارہ تغیر چاہتا ہے۔ ادارہ توجہ چاہتا ہے۔ ادارہ کمٹمنٹ چاہتا ہے۔ وہ چاہت، وہ کمٹمنٹ اور توجہ مجھے نظر نہیں آیا۔ یا یوں کہیے کہ سب کچھ تھا یا میری نظریں دھوکا کھا رہے تھے۔
سلمان بلوچ
باز باز منتوار کہ شما وتی قلم شات کت انت، اگاں شما یک پینل ڈسکشن ءِ ایر کُرتیں ما شمارا گیش سرپدی دات کرتگ ات، شما صبا دشتیاری پٹ پولی بنجل ءُ استاد صبا ءِ پشت کپتگیں کار ءِ سرا گپ نہ جت، اگاں اے کار ءِ سرا گپ بیتیں مہلوک ءَ گیش سرپدی رستگ ات