|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سرداراختر جان مینگل نے کہا ہے کہ نواب امان اللہ زہری اورانکے ساتھیوں کو شہید کرکے گزشتہ حکومت کیخلاف عدم اعتمادلانے کا بدلہ لیا گیا،اپنا ضمیر نہیں بیچا وفاق میں چار ووٹوں کے بدلے لاپتہ افراد کی بازیابی صوبے کی ترقی، ساحل وسائل پردسترس، ننگ و ناموس کا تحفظ اگر سودا ہے تو یہ سودا میرے باپ نے میں نے اور میری اولادیں بھی کریں گی۔

سیاسی قتل کو قبائلی رنجش کا نام د ینے والا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اپنے لشکر کا سپہ سالار ہوں اپنے کارکنوں اور انکے خاندانوں کی عزت،جان و مال کے تحفظ کیلئے اپنے اور اپنی اولادوں کی بھی قربانی دینی پڑی تو بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم نے وفاقی حکومت کی حمایت کرکے اپنی آنکھیں بند کردی ہیں،حکومت چھ نکات پر عملدرآمد میں دیر نہ کرے ہم بھیک نہیں حقوق مانگ رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتور کے روز کوئٹہ کے ریلوے ہاکی گراؤنڈ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے بانی رکن نواب امان اللہ زہری اور انکے ساتھیوں کے قتل کیخلاف احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جلسے سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹرڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،مرکزی سیکرٹری اطلاعات ورکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی،سردارنصیراحمد موسیانی،امان اللہ زہری کے فرزند شہریار زہری،بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے مزید کہا کہ گلہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے بلوچستان کا اسلام آباد میں سودا کیا سوداگروں کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں وہ آئیں ہمیں بتائیں آیا لاشیں اٹھانا سودا ہے ہمارے چار ووٹوں کے بدلے ماؤں اور بہنوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو کا رکنا،چند لوگوں کی واپسی سے انکے گھرانوں میں لوٹ آنیوالی خوشیاں بلوچستان کی ترقی کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات عوام کے ننگ وناموس کا تحفظ اگر سودا ہے تو چند ٹکوں کے بھاؤ اوروزارتوں کے عوض بکنے والے اپنے اور ہمارے سود ے کا موازنہ کریں کس کا سودا عزت والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کیساتھ ہمارے 6نکاتی معاہدہ کو ایک سال مکمل ہوا ہے اس عرصہ میں 400لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچے ہیں اب بھی میں مطمئن نہیں میرے کانوں میں ماؤں اور بہنوں کی آوازیں آج بھی گونج رہی ہیں یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے عوام کے لئے کام کریں اورانکے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ چاہتا تو میں بھی وزیراعلیٰ بن سکتا تھا ہمارے ساتھی وفاق اور بلوچستان میں وزارتیں لے سکتے تھے جو پڑھے لکھے بھی ہیں اور حکومت میں شامل وزراء سے اچھی اردو بھی بول سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم نے وفاقی حکومت کی حمایت کرکے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں یا قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد سے پیچھے ہٹ جائیں گے ہم نے پہلے بھی قومی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے اور آئندہ بھی کریں گے۔

آج کے جلسہ کے توسط سے وفاقی حکومت کو پیغام دینا چاہتاہوں کہ وہ ہمارے چھ نکات پر عملدرآمد میں دیر نہ کرے اگر حکومت ان نکات پر عملدرآمد نہیں کرسکتی تو معذوری کا اظہار کرے ہم وہ نہیں جو چٹنی پر گزار کریں گے ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ہم نے پہلے بھی حکومتوں کو چھوڑا ہے لہذا جتنی جلدی ہوسکے حکومت ہمیں ساتھ لیکر چلے بلوچستان کے عوام نے اندھوں کو دیکھنے اور بہروں کو سننے پر مجبور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو دیمک کی طرح چاٹنے والے گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے ساحل و وسائل قدرتی معدنیات سے مالامال صوبے کے لوگ خطے کے غریب ترین لوگ ہیں سہولیات نہ ہونے کے سبب لوگ علاج کیلئے سرکاری کے بجائے پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتے ہیں بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں سول سیکرٹریٹ میں نوکریاں سبزی منڈی میں آلو اور ٹنڈوں کی طرح فروخت ہورہی ہیں۔

وزیراعلیٰ ہاؤس اورسیکرٹریٹ میں ملازمتوں کی بولیاں لگ رہی ہیں ایک ڈرائیور کی آسامی کیلئے بھی 4لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ قبائل اس کے سر پر دستار باندھتے ہیں جو نہ صرف انکی عزت،ننگ و ناموس کی حفاظت کے لائق ہوں بلکہ ہمسایہ قبائل کی بھی ننگ و ناموس کی حفاظت کرے اگر کسی میں یہ اہلیت نہ ہو تو پھر یہ سمجھا جائے کہ یہ دستار کسی مٹکے کے اوپر رکھ دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرسودہ نظام اور ظلم کا بازار گرم کرنے والوں کی آنکھوں میں نوا ب امان اللہ زہری کھٹکتے تھے زہری کا واقعہ سیاسی قتل ہے اگر اسے کوئی قبائلی رنجش کا نام دیتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے میری نواب امان اللہ زہری کیساتھ 1988ء سے رفاقت تھی جب ہماری جماعت کو دولخت کیا گیا اس وقت بھی نواب امان اللہ زہری کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے ہم سے وور کرنے کی کوشش کی گئی اور وقت نے ثابت کردیا کہ آج ہمیں توڑنے والے ناکام اور امان اللہ زہری کامیاب ہوئے۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ نواب امان اللہ زہری اورانکے ساتھیوں کا قتل سیاسی ہے انہیں گزشتہ حکومت کیخلاف عدم اعتمادلانے اور 2018ء کے انتخابات میں مخالفین کو زہری سے ووٹ نہ ملنے کے بدلے شہید کیا گیا۔

اب ان کے قتل کو قبائلی رنگ دیا جارہا ہے حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے بلوچستان میں علاقائی جنگیں کروائیں قبائلی جھگڑے اور لسانی طور پر لوگوں کو لڑا کر ہمیں فرقوں میں تقسیم کیاتاکہ ہم جھگڑوں میں الجھے رہیں اور حکمران ہماری سرزمین کو لوٹ کر اسے نیلام کرکے عیش و عشرت کی زندگی گزاریں ہرجھگڑے کے پیروں کے نشانات حکمرانوں کی دہلیز پر پہنچتے ہیں۔

وہ جماعتیں جنہوں نے صوبے کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کا راستہ اپنا یا انہیں اس راستے سے ہٹانے کیلئے قبائلی تنازعات کا سہارا لیاجاتارہا ہے ہمیں معلوم ہے کہ تمام واقعات میں قبائلیت کا سہارا لیا گیا لیکن ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ وہ گولیاں کہاں بنتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہآج کا جم غفیرسوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں مایوسی ا ور نفرتیں پھیلانے کیلئے سازشیں کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے اس درد کو وہ سات پشتوں تک یاد رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں جمہوری سیاست سے روکنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے ہیں پہلے نیپ کی حکومت ختم کیا گیا اور آپریشن کئے گئے آفرین ہے ایسی قوم پر جس نے پانچ آپریشن اور ہزاروں لاشوں کے باوجود بلوچستان کا نام بلند کیا ہے1998ء میں ہماری حکومت ختم کرنے کیلئے سازشیں کی گئی۔

بی این پی بننے کے ایک سال بعد اسے دولخت کیا گیا سازشی عناصر جنہوں نے پارٹی کو تقسیم کیا آج وہ خود اتنے ٹکڑوں میں بٹے ہیں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن بی این پی کو کوئی ختم نہیں کرسکتابی این پی صرف سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک سیاسی سوچ،فکر،نظریے،جدوجہد کا نام ہے اور نظریے کو ایٹم بم بھی ختم نہیں کرسکتا۔

بی این پی کا نظریہ بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2002ء سے لیکر آج تک ہمارے کارکن شہید ہورہے ہیں ہمارے بازو کاٹ کر حکمران سمجھتے تھے کہ ہم اپاہج ہوجائیں گے لیکن آج بھی بی این پی جلسوں سے لیکر ایوان تک بلوچستان کا نعرہ لگاررہے ہیں۔

ہمارے شہید اکابرین اور کارکنوں کو ہم سے جدا کیا گیا کئی ساتھی آج بھی لاپتہ ہیں لیکن ہم اپنی جدوجہد سے نہ پیچھے ہٹے تھے اور نہ ہٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی قومی جمہوری پارٹی ہے ہم اس لشکر کا حصہ ہیں جو بلوچستان کے حقوق کے حصول،ساحل و وسائل پر دسترس کے حصول تک جدوجہد جاری رکھے گامجھے آپ نے اس لشکر کا سپہ سالار بنایا ہے یہ میری ذمہ د اری ہے کہ اپنے کارکنوں اور انکے خاندانوں کی عزت،جان و مال کا تحفظ کروں اوراسکے لئے مجھے اپنی یا اپنی اولاد کی بھی قربانی دینی پڑی تو اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ نواب امان اللہ زہری اور انکے ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ جلسہ عام سے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے ثابت کردیا ہے کہ بی این پی ناقابل شکست ہے کوئی بھی شہادت، طوفان،زیادتی ہمارا راستہ نہیں روک سکتی ہمارے کارواں میں شامل نظریاتی اور فکری ساتھی بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں ہمارے پاس فکر خیال اور نظریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہمیشہ بہادر قومیں اپنا وفود برقرار رکھتی ہیں بی این پی کے ابتک 112کارکن اور قائدین شہید کئے جاچکے ہیں بلو چستان کے حقوق کی جدوجہد کے لئے چالیس سال جدوجہد کی ہے ان چھوٹی موٹی تکالیف سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم نے وطن کی عزت بچائی ہے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ نواب امان اللہ زہری نے ہمیشہ عوامی حقوق کی جدوجہد کی ہے بی این پی کے شہدا نے بلوچستان کی سرزمین کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔

انتظامیہ اور حکومت نوابزادہ امان اللہ زہری کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگ متحد ہیں ان میں کوئی تفریق نہیں جعلی قوتوں کو سمجھ جانا چاہئے کہ بلوچستان کے لوگوں کو گزشتہ 72سال سے دست و گریبان کروا کر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا البتہ ہمارے و سائل لوٹے گئے بے روزگاری اور غربت بڑھی۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے استحصال کے خلاف آواز بلند کی انہیں سازشوں کے تحت قبائلی تنازعات میں شہید کروا یا گیا تو کبھی جعلی مذہبی تنازعات کا شکار بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے خوشحالی کیلئے جدوجہد کرنی ہے جنہوں نے مسائل کے حل،خوشحالی،ناخواندگی کے خاتمے کے لئے جدوجہد کی انہیں خراج تحسین پیش کرتاہوں بلوچستان کے لوگ ان مظلوموں کیلئے متحد ہیں جنہوں نے ہماری خوشحالی کیلئے اپنی زندگیاں قربان کردیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہاجاتا ہے کہ ہم اپنے موقف میں لچک پیدا کریں جنہوں نے لچک پیدا کی انہوں نے بلوچستان کو صرف غربت،پسماندگی،بے روزگاری کا شکار کیا اب استحصال کا راستہ روکنے کا وقت آچکا ہے مفاد پرستی کی سیاست کا دور چلا گیا اگر مفاد پرستی چلتی رہی تو غربت،پسماندگی،ناخواندگی اور بے روزگاری بڑھے گی ہمیں باعزت زندگی گزارنے کیلئے وطن پرستی کی سیاست کرنی ہوگی۔

بلوچستان میں اسٹیٹس کو کو ختم کرکے عوامی حکومت قائم کی جائے ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کو ترقی اور خوشحالی دینی ہے۔سردار نصیراحمد موسیانی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کو تنازعات کا شکار کیا جارہا ہے تاکہ ظلم و جبر کے خلاف جاری جدوجہد کو روکا جاسکے لیکن ہم نہ پہلے پیچھے ہٹے تھے اور نہ آئندہ ہٹیں گے۔

نواب امان اللہ زہری کے فرزندشہریارزہری نے کہا کہ نوابزادہ امان اللہ زہری اورانکے ساتھیوں کی قربانی کسی صورت رائیگاں نہیں جائے گی ہم نہ پہلے جھکے ہیں اور نہ آئندہ جھکیں گے پہلے بھی میرے بھائی کو شہیدکیا گیا میری گاڑی پر حملہ کیا گیا میں سرعام کہتا ہوں کہ ہم ان حملوں سے ڈرنے والے نہیں اور نہ ہی اپنے والد کے مشن سے پیچھے ہٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ نوابزادہ امان اللہ زہری اورانکے ساتھیوں کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔