|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2019

کوئٹہ پریس کلب کی کینٹین میں بیٹھا اس وقت میرے سامنے اخبارات کی ڈھیر لگی ہے۔ خبروں کی سرخیوں پر نظر دوڑاتا ہوں سب کچھ حسبِ معمول روایتی انداز میں نظر آتا ہے۔ ”روزنامہ جنگ کی صفحات پلٹنا شروع کرتا ہوں اہم خبروں پر نظر جما لیتا ہوں تو اس میں حکومتی و سیاسی بیانات ہی نظر آتے ہیں۔ خبروں پر سرسری نگاہ دوڑانے کے بعد اگلا صفحہ پلٹتا ہوں۔ حسبِ معمول وہی روایتی خبریں، بیانات اور تصویریں ہیں جو آئے روز نگاہوں سے دوچار ہوتی ہیں۔

بارہ صفحات کی اخبار کو الٹتے نگاہ جب ادارتی صفحہ پر پڑتی ہے تو اداریہ کشمیر، کابل پاکستان بم دھماکے اور ڈینگی کی سرخی سے مزین نظر آتا ہے۔ متلاشی آنکھیں بلوچستان کو کہیں بھی ڈھونڈ نہیں پاتیں۔ سات کالمز کے مجموعے میں بلوچستان کہیں نظر نہیں آتا۔ بلوچستان کا حقیقی عکس صرف بیانات تک محدود نظر آتا ہے۔

روزنامہ جنگ سے فراغت پاتے ہی روزنامہ ایکسپریس کوئٹہ کی ورق گردانی شروع کرتا ہوں تو حسبِ معمول وہی خبریں وہی بیانات وہی تصویریں وہی سرخیاں۔۔ کالمز ہیں، کالمز میں کراچی کے عنوانات ہیں، ریڈیو پاکستان کا ذکر ہے انسانی حقوق کی لفاظی ہے۔ دس کالمز اور دو اداریے پر مشتمل دو صفحات کی ادارتی مجموعہ بلوچستان کے ذکرسے عاری نظر آتا ہے اور نہ ہی وہاں بلوچستان کاکوئی قلمکار نظر آتا ہے۔

اب روزنامہ 92 نیوز کوئٹہ ہاتھ آتا ہے۔ 12صفحات پر مشتمل یہ اخبار ہئیت کے لحاظ سے پر کشش نظر آتا ہے۔ اخبار کا لے آؤٹ خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مگر ہر اخبار کی خبروں، تصاویر اور سرخیوں کو دوسرے سے مشترک پاتا ہوں۔ مذکورہ اخبار کا ادارتی صفحہ تین اداریے اور چھ کالمز پر مشتمل ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہر کالم نگار کا مطمع نظر آتا ہے۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والا یہ اخبار کہیں بھی یہ شبہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ بلوچستان کی ترجمانی کررہا ہے۔

ڈان اخبار میں کراچی، اسلام آباد، پشاور کی میٹروپولیٹن صفحات ہیں مگرکوئٹہ اب تک میٹروپولیٹن کا درجہ حاصل کرنے سے قاصر رہاہے۔ 1989کو ڈی جی پی آر کوئٹہ سے ڈیکلریشن کے حصول سے لے کر اب تک یہ اخبار کوئٹہ سے اپنا پرچہ نہیں نکال سکا۔ کوئٹہ کی اکا دکا خبریں جگہ پاتی ہیں۔ خبارات ایک سائیڈ پہ رکھ دیتا ہوں اور چائے کی چسکیاں لے کر لاپتہ بلوچستان کے منظر عام پر آنے کی دعا کرتا ہوں۔

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو انگریز دور ہو یا پاکستان کے ساتھ الحاق، یا بعد میں صوبے کا درجہ پانے تک بلوچستان میں ابلاغ کا عمل ہمیشہ سے یکطرفہ رہا ہے کہیں اس پر بندشیں نظر آتی ہیں تو کہیں ابلاغ کا عمل زبانی سطح تک محدود رہاہے۔یکطرفہ ابلاغی عمل میں بلوچستان کا بطور صوبہ مؤقف ہمیشہ گمشدہ ہی رہا۔ یکطرفہ ابلاغی عمل میں وفاق کا مؤقف صوبے تک پہنچتا رہا۔

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے بلوچستان والے کیا سوچ رہے ہیں ان کے حقیقی مسائل کیا ہیں، یہ مؤقف وفاق یا ریاست کے اندر بسنے والے دیگر حلقوں تک پہنچنے سے قاصر ہی رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد نظریہ ضرورت کے تحت جب ون یونٹ کا خاتمہ کیا گیا اور ضرورت کے تحت صوبوں کا قیام عمل میں آیا تو بلوچستان کو پہلی بار صوبائی بے اختیاری کا درجہ مل پایا۔صوبائی سطح پر ایسے اخبارات کے اجرا ء کی ضرورت محسوس ہوئی جو بلوچستان کی آواز کو وفاق تک اور وفاق کی آواز بلوچستان تک پہنچا سکیں کے پیش نظر 1972کو روزنامہ جنگ نے بلوچستان کی صحافتی میدان میں کام کا آغاز کیا۔

بعد میں مشرق اور دیگر اخبارات بھی میدانِ عمل میں آئے۔ اندازے اور توقعات کے برعکس قومی اخبارات بلوچستان کا مؤقف پسِ پشت ڈال کر صرف وفاق کا مؤقف ہی عوام تک پہنچاتے رہے۔ بھٹو دور میں نیپ کے خلاف وطن دشمن علیحدگی پسندی اور اسلحہ سمگل کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے تو ملکی سطح پر یکطرفہ ابلاغی عمل جاری تھا۔ ایک صحافی نے دورانِ انٹرویو سردار عطااللہ مینگل سے سوال کیا تھا کہ اس سرکاری پراپیگنڈے کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ اس پر ان کا جواب تھا ”ابلاغ عامہ کے جن ذرائع سے ہمارے خلاف یکطرفہ پراپیگنڈہ کیا جا رہے وہ حکمران جماعت کی تحویل میں ہیں۔ ہم سوائے اس مطالبے کے کیا کر سکتے ہیں کہ حکومت ہمیں ان کی صفائی کا اِن ذرائع سے موقع دے“۔

قومی اخبارات میں نہ ہی بلوچستان نظر آتا ہے اور نہ ہی یہاں کا قلم کار؟ سوال سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار سے کیا تو ان کا کہنا تھا”پاکستان کا پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کبھی بھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ بلوچستان میں رونما ہونے والا بڑا سانحہ اتنا جگہ نہیں گھیرتاجتنا لاہور یا اسلام آباد کی ایک چھوٹی خبر گھنٹے گھنٹے کی کوریج پاتا ہے۔ایک بار بلوچستان کا مقدمہ ہم نے اخباری مالکان کی تنظیموں کے سامنے رکھا تو ان کی جانب سے مؤقف یہ سامنے آیا کہ بلوچستان اخبارات کے لیے منافع بخش صنعت نہیں رہا“۔

کیا واقعی بلوچستان اخباری صنعت کے لیے منافع بخش نہیں رہا۔ کالم نگار امان اللہ شادیزئی کہتے ہیں ”یہ اخباری مالکان کی گھڑی ہوئی کہانی ہے جسے وہ دہراتے رہتے ہیں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ان کے اکاؤنٹ میں جاتے ہیں مگر بلوچستان کا مؤقف نظر نہیں آتا“۔تو کیا یہ تاثر درست ہے کہ بلوچستان کی سرزمین لکھاری تخلیق نہیں کرپارہا؟”لکھاری پیدا ہوئے اور اب بھی پیدا ہو رہے ہیں مگر انہیں اخبارات میں جگہ نہیں ملی۔ قوم پرستوں کی کوتاہیاں اپنی جگہ پر، جو کردار پیپلزپارٹی، مسلم لیگ یا پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں اپنے ورکرز کو اخبارات کے اندر داخل کرانے میں ادا کر چکے تھے قوم پرست جماعتیں وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئے۔ قومی اخبارات میں بلوچستان کی نمائندگی بلوچ اور پشتونوں کے ہاتھ میں آنی چاہیے تھی وہ آبادکاروں کے ہاتھ چلی گئی اور بلوچستان کا مؤقف اوجھل ہی رہا“۔

قومی اخبارات کی ادارتی صفحات پر جہاں کہیں بلوچستان نظر آیاتو لکھنے والوں نے بلوچستان کا درد محسوس کیے بغیر اسے وفاق اور پنجاب کے تناظر میں رکھ کر ہی تحریر کیا۔ وہ لوگ جو قومی اخبارات میں بلوچستان کی نمائندگی کرکے صوبے کا حقیقی تصویر سامنے لے آتے اور وفاق اور صوبے کے درمیان توازن پیدا کرتے انہیں اخبارات نے موقع ہی فراہم نہیں کیا۔ صدیق بلوچ جو ڈان اخبار کے ساتھ وابستہ تھے اور انور ساجدی جنگ کی نمائندگی کر رہے تھے کے متعلق کہا یہی جاتا ہے کہ اگر دونوں کی وابستگی قومی اخبارات کے ساتھ برقرار رہتی تو قومی سطح پر وہ بلوچستان کا مؤقف اچھے انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے شایدوہ قومی اخبارات کی نیت جان گئے تھے۔
قومی اخبارات سے علیحدہ ہوئے اور اپنا ذاتی اخبار مارکیٹ میں لے آئے۔ گو کہ یہ اخبارات انتخاب، آزادی اور بلوچستان ایکسپریس بلوچستان کا مؤقف بلوچستان تک تو پہنچاتے رہے مگر قومی سطح پر ان کا مؤقف اوجھل ہی رہا۔ایک کوشش روزنامہ آساپ کی تھی۔ ایک وسیع حلقہ لکھاریوں کا پیدا ہوا اور ریڈرشپ بڑھ گئی تو آساپ کا یہ مؤقف مقتدر حلقوں کو پسند نہیں آیا اور آساپ کو بند ہونا پڑا۔وہ مؤقف جو بلوچستان کے عام افراد کی تھی بندش کے ساتھ ہی وہ مؤقف دم توڑ گئی۔

روزنامہ جنگ کی ویب سائیٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق وابستہ کالم نگاروں کی تعداد 386 ہے جن میں ایک بھی کالم نگار بلوچستان سے نہیں۔ یہی حال دیگر روزناموں کا ہے۔ البتہ بلوچستان سے عابد میر روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگاروں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

2008کو روزنامہ ایکسپریس کے ساتھ بطور کالم نگار ان کو قبولیت کا درجہ ملا 26اپریل2016کو شائع ہونے والا کالم ”چلو چلو، گوادر چلو“ مذکورہ اخبار میں اُن کا آخری عنوان ثابت ہوا قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی کا سفر کیوں کر ختم ہوا؟ ”وجہ ادارے کا غیر سنجیدہ رویہ تھا بلوچستان کو بطور ”کوٹہ“ حصہ دیا جاتا تھا۔کبھی اسپیس ہوا تو ہفتے میں ایک آدھ دن مل گیاتو مل گیا ورنہ انتظار فرمائیے خواہ آپ کا موضوع کیسا ہی اہم کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف بلوچستان کے تناظر میں آپ جو کچھ بھی لکھ لیں لاہور کے ایڈیٹرز کے لیے وہ ”سخت مؤقف“ ہوتا ہے۔ ”قومی میڈیا“ بلوچستان کے حقیقی مؤقف کا بار اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا“۔

بلوچستان شورش کی جس گرداب میں پھنسا اور دکھوں کی چکی میں پھستا رہا اور اب بھی جس صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اس سے لکھاری اپنے آپ کو آزاد نہیں کر پایا اور یہ ممکن بھی کیسے ہو کہ بلوچستان آگ میں جل رہا ہو اور آپ وہاں جنت کی منظر کشی کریں۔ سو جو لکیر قومی اخبارات نے کھینچی تھی اور جو فضا مقتدر حلقوں کا تخلیق کردہ تھا اس لکیر پر کھڑے ہو کر یہاں کے لکھاریوں کو بلوچستان، درد و الم اور تکلیف میں گرا ہی نظر آیا۔

یہی وجہ تھی اس لکیر پر کھڑے ہو کر بلوچستان کی جو تصویرکشی یہاں کے لکھاریوں نے کی ان کا وہ مؤقف مقامی اخبارات میں ضرور نظر آیا، قومی اخبارات میں وہ گمشدہ ہی رہا۔ بلوچستان کا مؤقف قومی اخبارات میں جگہ پاتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

مؤقف اور معلومات کی عدم ترسیل یاپھر بغضِ معاویہ کہ ریاست کا دانشور طبقہ لکیر کے اس پار کھڑے ہو کر بلوچ کو بلوچی لکھتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں شرماتا۔ وفاق کا رویہ اپنی جگہ پر ہنوزقائم ہے، بلوچستان کا مؤقف بدل چکا ہے۔ اب یہ مؤقف ایک طویل عرصے سے خاموشی کا شکار ہے، خدا جانے اس خاموش مؤقف کی قومی اخبارات میں ترجمانی ہوتی ہے بھی یا نہیں۔