نوشکی: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہاہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ 6 نکات کے حوالے سے عمل درآمد کے حوالے سے نہ مکمل طور پر مطمئن ہیں اور نہ ہی عمل درآمد کے حوالے سے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔
البتہ مسنگ پرسنز کے حوالے سے کچھ حد تک عمل درآمد ضرور ہواہے اور 4 سو سے زائد مسنگ پرسنز بازیاب کئے گئے ہیں مگر ہماری فراہم کردہ لسٹ میں مسنگ پرسنز کی مکمل تعداد 5 ہزار سے زائد ہے، جبکہ اب دوسری جانب لوگوں کو غائب کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اب حتی کہ عورتوں کو غائب اور انکی بے حرمتی کی جارہی ہے جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ چھ نکات میں شامل بلوچستان کے جغرافیہ سمیت دیگر سیاسی مسائل کے حوالے سے نہ ہی کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے قانون سازی کے لئے کوئی پیش رفت کی جارہی ہے اس لئے وفاقی حکومت کے حوالے سے ہم مکمل مطمئن نہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت کے سنجیدگی کے حوالے سے اقدامات تسلی بخش ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نوشکی کے ایک روزہ دورے کے موقع پر سردار اسماعیل خان مینگل،محمد عظیم مینگل،عبدالباقی بلوچ اور ارسلان مرحوم کے تعزیت و فاتحہ خوانی کے بعد مینگل ہاوس میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میر بابو محمد رحیم مینگل کے جانب سے دئیے گئے ظہرانہ کے موقع پر میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر بی این پی کے مرکزی نائب صدر ولی کاکڑ،ضلعی صدر میر عطاء اللہ مینگل، مرکزی کمیٹی کے رکن میر خورشید جمالدینی، حاجی میر بہادر خان مینگل،سابق ضلعی صدر نذیر بلوچ و دیگر بھی موجود تھے۔
شہید نواب امان اللہ زہری اور انکے ساتھیوں کے قتل اور حکومت کے جانب قاتلوں کے خلاف اقدامات کے حوالے سے سردار اختر مینگل نے مکمل عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے تاحال شہید رہنماء کے قتل کے حوالے سے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا ہے جس سے مطمئن ہوں، بی این پی کے لئے یہ پہلا واقعہ نہیں ہمارے بہت سے ساتھی اور کارکن ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہم سے جدا کئے گئے اور انہیں قبائلی، سیاسی چوری اور ڈکیتی کا رنگ بھی دیا گیا۔
اسی طرح نواب امان اللہ زہری کو بھی سیاسی محرکات کے بنیاد پر قتل کیا گیا نواب امان اللہ زہری نہ صرف اپنے ضلع یا علاقہ بلکہ بلوچستان کے سطح کے مقبول رہنمائتھے، اور ایک عظیم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،انکی بڑھتی مقبولیت اور بی این پی کو کمزور کرنے و متاثر کرنے کے لئے انہیں قتل اور راستے سے ہٹایا گیا ان قتلوں کے پس پشت سیاسی ناپاک عزائم سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔
بی این پی کے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف حکمران اور انکے حواری اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے وہ پارٹی کو کمزور کرینگے تو انہیں تاریخ پڑھ لینی چائیے کہ بی این پی کو جب بھی کمزور یا ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اسکا نتیجہ 22 ستمبر کے تعزیتی جلسہ جیسا نکلے گا،جلسہ سے ثابت ہوا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے نہ بی این پی کو کمزور کیا جاسکتا ہے اور نہ بلوچستان کے لوگوں کو زیر دست رکھا جاسکتا ہے۔
بی این پی کے خلاف ہمیشہ ایسے گھناونے ہتھکنڈوں کے ری ایکشن میں لوگوں نے بی این پی کے ساتھ تعاون ہمدردی کیا اور 2018 کے انتخابات اسکا نتیجہ ہیں اور بلوچستان کے عوام بخوبی علم رکھتے ہیں کہ بی این پی بلوچستان کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہی ہے اور ہمارے کارکنوں کو بھی بلوچستان کے حقوق کے جدوجہد کے پاداش میں ہی شہید کیا جارہا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی این پی کے حلقوں اور منتخب نمائندوں کے مقابلے میں غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے ٹرانسفر پوسٹنگ، نوکریاں، مراعات ڈی جارہی ہیں تاکہ بلوچستان کے لوگوں کو بی این پی سے مایوس کرکے حکمران اپنے طرف لے جائیں تو یہ انکی خام خیالی ہے۔بلوچستان کے غیور اور باغیرت اور باضمیر عوام کو نوکریوں، مراعات،ترقیاتی اسکیموں، نوکریوں کے ذریعے ہرگز ورغلایا نہیں جاسکتا ہے۔
ترقیاتی اسکیموں نوکریاں اگرچہ عوام کی ضرورت اور انکی بنیادی حق ہے مگر بی این پی کے سیاسی جدوجہد سے عوام بخوبی واقف ہیں بی این پی کے خلاف ماضی میں حکمرانوں نے پارٹی کو تقسیم،کمزور کرنے کی سازش کی اور سازش کے کرداروں کو مراعات،وزارتیں حتی کہ وزارت اعلی سے بھی نوازا گیا مگر آج ان کا کوئی وجود نہیں اور بی این پی اب بھی قائم و دائم ہے۔
بلوچستان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سوال کے جواب میں انکا کہناتھا کہ ہم تحریک عدم اعتماد سے ہرگز دستبردار نہیں ہوئے ہیں جب بھی موقع ملا حکومت کے خلاف عدم اعتماد ضرور پیش کرینگے، اور اس کے لئے ہمیں لمبی جدوجہد کی ضرورت بھی نہیں بلکہ بلوچستان حکومت اپنے کردار کے وجہ سے خود یہ موقع فراہم کریگی۔
انہوں نے ایران سعودی چپقلش اور جنگ ہونے کی صورت میں بلوچستان پر اسکے اثرات کے حوالے سے کہاکہ ایران سعودی جنگ کے براہ راست اثرات بلوچستان پر پڑیں گے اور بدقسمتی سے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ملکی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ایسے جنگوں میں شامل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
افغان جنگ میں شمولیت کے وجہ سے بلوچستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے،خصوصا مہاجرین کی یلغار کے ساتھ ساتھ صوبے میں کلاشنکوف کلچر،منشیات ہیروئن،دہشت گردی و انتہا پسندی میں اضافہ ہوا،اور ملک کے نسبت صوبے پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے، اگر ایران سعودی جنگ ہوئی اور ہمارے ناعاقبت اندیش فیصلہ سازوں نے اس جنگ میں شمولیت اختیار کی تو اس سے نہ صرف بلوچستان شدید متاثر ہوگا بلکہ ملک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
کیونکہ بلوچستان کی زمینی اور سمندری حدود سرحدیں ایران سے ملتی ہیں تو جنگ کی صورت میں بلوچستان کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اس سے ملک کو بھی شدید نقصان کا احتمال ہے اور یہ کسی صورت بھی ملک یا صوبہ کے مفاد میں نہیں ہوگا۔