|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2019

بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے کا اہم ذریعہ سڑکیں ہیں جن کی حالت اب بتدریج بہتر ہورہی ہے گوکہ آج ان کی حالت کا فی حد تک بہتر ہوچکی ہے لیکن یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ ترقی کا یہ عمل انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔

نیشنل ہائی وے کی سڑکیں وفاق کے زیر انتظام ہیں بلوچستان اپنے رقبے کے لحاظ سے دیگر صوبوں سے طویل اور لمبی سڑکیں رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ وفاق نے این ایچ اے کا ہیڈ آفس کوئٹہ کے بجائے اسلام آباد میں بنارکھا ہے جہاں وفاقی وزیر سے لے کر مشیر اور سیکرٹری صاحبان کا تعلق بلوچستان سے تو ہوتا نہیں، اگر ہو بھی تو اس کے ہاتھ پاؤں اس طرح بندھے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے صوبے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، مطلب سب کچھ وفاق کے قبضے میں ہوتاہے۔

بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر اب تک سینکڑوں حادثات ہوئے ہیں اور تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سڑکوں کی چوڑائی ڈبل نہیں بلکہ سنگل ٹریک پر رکھی گئی ہے۔ اس دور جدید میں نئی لگژری گاڑیاں ہوں تو سپیڈ پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ گاڑیاں حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں اب تک ہم گنوا چکے ہیں۔اگر سروے کیاجائے تو بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر حادثات اور ان میں ہلاکتوں کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے ہ

اس کے بعد گلگت‘ اسکردو کا نمبر آتا ہے جہاں گاڑیاں محض بریک فیل ہونے سے حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ دیگر تین صوبوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں اموات کی شرح بلوچستان ے انتہائی کم ہے وجہ قومی شاہراہوں کا ڈبل ٹریک ہونا ہے، طول و عرض کو ڈبل ٹریک کے ذریعے ملا یا گیا ہے جی ٹی سڑکیں اس کے علاوہ ہیں۔بلوچستان میں جی ٹی سڑکیں دوربین میں دیکھنے سے بھی نہیں ملتیں، چند ایک شاہراہیں ہیں جہاں آئے روز بڑے خوفناک حادثات رونما ہورہے ہیں۔

ایک دوسری بات یہ بھی محسوس کی جاتی ہے کہ بلوچستان کے سرحدی شہر جو کہ دیگر صوبوں سے ملتے ہیں،یہاں بائی پاسز کی انتہائی کمی ہے سندھ‘ پنجاب‘ اور خیبر پختونخوا کے تمام بڑے شہروں میں ٹریفک کی روانی کے لئے بائی پاسز بنائے گئے ہیں جس سے ان بڑے شہروں میں ٹریفک کے دباؤ میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ڈیرہ مراد جمالی کی صورتحال کا جائزہ لیں یا حب چوکی کا‘ دونوں مقامات پر ٹریفک کی صورت حال انتہائی گھمبیر نظر آتی ہے۔

ان بڑے شہروں میں محض بائی پاس نہ ہونے سے ٹریفک رینگتی ہوئی نظر آتی ہے آپ کا کوئٹہ سے ان شہروں تک کا سفر آسانی اورخوشگوار طریقہ سے طے ہوتاہے لیکن جب آپ ان دو بڑے شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو یہاں بے ہنگم ٹریفک سے آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے ایک چھوٹی سڑک وہ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار، بارشوں کی وجہ سے دونوں شہر دریا کا منظر پیش کرتے ہیں۔گدھا گاڑیوں اور چنچی رکشوں نے صورت حال کو مزید بگاڑ رکھا ہے۔

آپ اگر کسی ایمر جنسی میں کراچی جارہے ہوں گے تو سوچئے کہ آپ کی کیا درگت بن سکتی ہے،ان جڑواں شہروں کو دیگر صوبوں کے بڑے شہروں کی طرح تمام سہولیات میسر ہونی چاہئیں تھیں لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں۔

حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ یہ دو بڑے شہر لا وارث نہیں، ان شہروں سے اب تک بعض شخصیات وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم تک بنے ہیں لیکن حیرانی اس بات پر کہ ان شہروں کے باسیوں کے نصیب نہیں بدلے جاسکے۔ ملازمتوں کا حصول‘ روزگار کے نئے ذرائع دور کی بات، ان کے باسیوں کو آج تک سڑک کے ذریعے بائی پاس تک نصیب نہیں۔ حب شہر میں داخل ہونے پر آپ کومٹھی اور دھول کے سواکچھ نظر نہیں آتا، کراچی کو جانے والی واحد سنگل سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے۔

‘ سینکڑوں دکانیں سڑک کے دائیں بائیں بنائی گئیں ہیں جن کو چلانے والے دن بھر دھول اور مٹھی اپنی سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں بھرتے ہیں،دوران سفر یہ منظر مجھ سے نہ دیکھا گیا کہ ہمارے یہ سادہ لوح لوگ کس طرح مختلف بیماریوں کا شکار بنائے جارہے ہیں، کہنے کو وہ دکانداری کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہے ہوں گے یا ہوٹلوں میں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوں گے۔ لیکن انہیں اس کا علم بھی نہیں کہ وہ ان سڑکوں پر اڑنے والی مٹھی اپنے جسم میں سانس کے ذریعے لے کر کن کن بیماریوں کو پال رہے ہیں یہ منظر آپ دوران سفر دیکھ سکتے ہیں۔

اب میں ایک خبر کا تذکرہ بھی اپنے اس مضمون میں کررہا ہوں کیونکہ میرے مضمون کا اصل موضوع آر سی ڈی شاہرائیں اور بڑے شہروں میں بائی پاسز بننے پر توجہ مبذول کرانا ہے۔ حب کے بارے میں مقامی اخبار کی خبر ہے کہ حب میں گزشتہ روز ٹریفک بری طرح معطل رہی۔ حب ندی پل سے پولیس تھانہ تک گاڑیوں کی طویل قطاریں تھیں جس سے مسافروں کو شدید ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، ٹریفک جام کا یہ سلسلہ آئے روز گھنٹوں جاری رہتا ہے جو سفر حب سے کراچی کے لئے محض آدھ گھنٹے کا ہونا چائیے وہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔

وقت اور پٹرول، ڈیزل کا ضیاع لوگوں کی پریشانی میں اضافے کی وجہ بنتا تو ہے لیکن اصل مسئلہ ذہنی پریشانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب آپ کسی ایمر جنسی میں کسی مریض کو کراچی لے جارہے ہوں اور حب ندی پر ٹریفک جام رہے تو آپ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتاہے، آپ حکمرانوں کو جس قدر کوس رہے ہوتے ہیں۔

اگر ان کو تحریر میں لایا جائے اور ان مغلظات کو ہمارے حکمرانوں کو سنایا جائے تو میرے خیال میں وہ انسان یا غیرت مند حکمران استعفیٰ دے کر اپنے گھر کی راہ کو چل نکلتا‘ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ روایات بھی ہمارے ملک میں ناپید ہیں یہ روایات جاپان‘ امریکا یورپ حتیٰ کہ ہمارے دشمن ملک بھارت میں بھی موجود ہیں کہ کئی وزراء کسی بڑے حادثے پر اپنی نا اہلی کو تسلیم کرتے ہوئے وزارتوں کوچھوڑ کر حکومت سے باہر ہوئے، ایسے غیرت مند فیصلے انسان کو عوام میں سر خرو کرتے ہیں۔

کاش یہاں بھی ایسا ہوتا۔ میں سمجھتا ہو کہ ان باتوں کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جن کی لمبی چوڑی تقریر یں سن سن کر کان پک جاتے ہیں لیکن غریب عوام کی طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ہماری روز مرہ کی زندگی ملاحظہ کریں کہ ہر شخص مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ بیماریوں سے ان کی جنگ ہے تعلیم یافتہ افراد روز گار کی عمر کو گزار چکے ہیں حکومت ان سے غافل ہے،شہر اجڑے ہوئے بستیوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں یہ سروے رپورٹ بھی شائع ہوچکی کہ بلوچستان میں شرح غربت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ بہر حال میں اپنے مضمون کو مکمل کرتے ہوئے موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان کے عوام پر رحم فرماتے ہوئے حب کراچی بائی پاس کو جلد مکمل کروا کر اس کا باقاعدہ افتتاح بھی اپنے ہاتھوں سے کریں تاکہ بلوچستان کے لوگ کسی ایمر جنسی میں کراچی جارہے ہوں تو وہ اللہ کے پاس پہنچنے سے پہلے فوری طورپر کراچی پہنچ جائیں۔ امید ہے کہ جناب اس جانب فوری توجہ فرمائیں گے۔