بھیا کے آنکھوں کی چمک، نمی اور چہرے پر تھکن کے اثرات سے میرا دل مضطرب ہوا کہ آج پہلی مرتبہ کئی سالوں بعد بھیا کو اپنی گزشتہ پچیس سالہ محنت پر پانی پھیر جانیکا اندیشہ یقین میں بدلتا نظر آرہا ہے۔
کیونکہ سڑک توسیع منصوبے میں ایک جانب اسکی دکان جسے اس نے صرف چند ہزار روپوں سے شروع کیا اور کئی سالوں تک محنت کرتے کرتے بڑی مشکلوں سے آج ایک سپر اسٹور بنانے میں وہ کامیاب ہوا اور اب جب اس تناور درخت سے پھل حاصل ہونے کا وقت شروع ہوا تو سڑک توسیع منصوبے کی افتاد نے بے چارے بھیا کو پریشان کر دیا کہ اب تو بچوں کی روزی روٹی اور ٹھکانہ تو ہاتھوں سے بس چلا ہی گیا۔
بات یہاں تک ہوتی تو بھی خیر ہوتا لیکن بھیا کی پریشانیوں میں تب اضافہ ہوا جب اسے پتہ چلا کہ ضلعی انتظامیہ نے دکان کی قیمت ایوارڈ لسٹ میں فی مربع فٹ جو دس ہزار روپے سے بھی زیادہ ہے صرف دو ہزار روپے طے کیا ہے۔
اب تو بھیا کی راتوں کی نیندیں بھی حرام ہو چکی ہیں اور وہ کوئٹہ کے اس سرد گرم موسم میں دکان کے کاؤنٹر پر دونوں ہاتھ رکھے میرے ساتھ بات کرتے دکان میں رکھے سامان و دیگر اشیاء کو غور سے دیکھتے ہوئے اپنی اس کل کائنات کے یوں ہاتھوں سے چلے جانے پر چشم تصور میں آنسو بہا رہا تھا اور میں دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہلکان ہوا کہ بھیا کو اپنی دکان اور سب سے اہم ٹھکانہ ختم ہونے کا اس قدر دکھ ہے تو مجھے اس سے بدرجہ زیادہ پریشان ہونیکی ضرورت ہے کہ میرا آشیانہ یعنی گھر جس میں اپنی پیدائش سے لیکر اب تک گزشتہ چالیس سالوں سے مقیم ہوں اور وہ گھر جسے بناتے وقت میرے والد محترم تیس سال کا نوجوان تھا۔
تب دو کمروں پر مشتمل چادر کی چھتوں کا گھر بنا کر وہ خود کو دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں شمار کرنے لگے تھے کہ میں نے اپنے بچوں کے سر چھپانے کیلئے گھر بنا دیا اور زندگی کا یہ لمبا سفر جاری رہا۔ ہم بچے جوان ہوئے والد محترم بڑھاپے کی حدوں کو چو کر ستر سال کی عمر کو پہنچے ہیں اور اس طویل سفر میں دو کمروں کے مکان کو ابا جان نے محنت مشقت اور اللہ بہتر جانتا ہے۔
کس طرح سے پیسوں کو جوڑ جوڑ کر کئی سالوں میں اس گھر کی توسیع کی، مجھے یاد ہے ہم نئی تعمیر شدہ آر سی سی چھتوں کے بنے کمروں میں جب شفٹ ہوئے تو والدہ محترمہ اس واقعہ کو دوہراتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ جب ہم چادر کی چھتوں والی کمروں میں رہائش پذیر تھے تب ایک دن چادر کی چھت میں اندھی گولی لگنے سے میرا چھوٹا بھائی بال بال بچ گیا تھا۔
لہٰذا اب مجھے چھت پر کسی اندھی گولی لگنے کی کوئی پریشانی نہیں، لیکن گزشتہ چند مہینوں سے امی جان کو جانے انجانے میں پھر سے ایک پریشانی نے گھیر لیا ہے میرے گھر سے نکلتے اور واپس آتے ہوئے انکا ایک ہی سوال بیٹا گھر خالی کرنے کا نوٹس ملا ہے یا نہیں، ان معصوم بچوں کو لے کر ہم کہاں جائیں گے، بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا، اپنے محلے، عزیزوں اور دکھ درد میں ساتھ دینے والے ہمسایوں سے دور کس جگہ ہمارا گھر بنے گا۔
کیا کرائے پر پورے فیملی کیلئے گھر مل سکے گا، اتنی تو مہلت دیں گے تاکہ ہم نیا گھر تعمیر کرسکیں، بیٹا کیا ان کم پیسوں میں اپنے ہی علاقے میں زمین یا کوئی مکان مل سکتا ہے؟ مجھے روز انہیں تسلی دیتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اماں جان ہم کوئی بنانا Banana ریپبلک اور صومالیہ میں نہیں رہتے جہاں کوئی حکومت اور قانون نامی کوئی شے نہ ہو، ہم تو ایک ذمہ دار ریاست کے ذمہ دار شہری ہیں جہاں ہمارے صوبے میں جام کمال خان عالیانی صاحب کی سرکردگی میں قائم اس حکومت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جس کی پہلی ترجیح عوام کی فلاح و بہبود اور مفادات ہیں اور ضلعی انتظامیہ کے سرکردہ ڈی سی کوئٹہ صاحب تو ملک کے ایک ایسے ادارے سے ریٹائرڈ آفیسر ہیں۔
جس کا پہلا حلف ملک و قوم کیلئے قربان کرنا ہے وہ کس طرح ایک دن کے نوٹس پر گھر خالی کرنے کیلئے ہم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں سب ہماری طرح انسان ہیں جنہیں ہمارے جذبات، احساسات اور مجبوریوں کا بخوبی ادراک ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجبوری کی حالت میں بیچاری چڑیا اپنے گھونسلے اور بچوں کو بچانے کیلئے موذی سانپ کے ساتھ بھی بڑ جاتا ہے۔