|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2019

دنیا میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو آنکھوں میں خواب سجاکر گھر سے نکلتے ہیں خوابوں کی تکمیل تک بس جٹے رہتے ہیں بسا اوقات ایسا ہو تا ہے خوابوں کو تکمیل کے مراحل سے گزار کر وہ خود تکلیف اور دشواریوں سے دوچارہوتے ہیں پھر وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ خواب کہیں چکنا چور نہ ہو جائیں۔ مگر وہ ہمت کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ راستے کے کانٹوں کو ہٹاتے ہوئے منزل پا لیتے ہیں۔ پھر وہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔

کائنات بہت وسیع ہے اس میں نہ جانے ایسے کتنے چہرے ہوں گے جن سے ہم انجان رہتے ہیں کہ وہ کون ہیں ان کی حقیقی کہانی کیا ہے وہ کن دشوار گزار راستوں کو پار کرتے ہوئے کہاں پہنچے اگر جدوجہد بھری کہانی کو لے کر بیٹھ جائیں تو ایسے بے شمار چہرے در آتے ہیں۔مگر جب تک ہم ان سے متعارف نہیں ہوتے یا ان کی کہانی سامنے نہیں آتی اس وقت تک ہم انجان رہتے ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ ہر انسان اپنی زندگی میں ایک الگ کہانی ہے۔ بس دیر ہے اس کہانی کا عنوان چھیڑنے کی پھر تو آپ سنتے چلے جائیں اور وہ کہانی سناتا چلا جائے۔

ایک نوجوان ہیں معراج گل (لفظ گل سے بعد میں شناسائی ہوئی) جب متعارف ہوئے تو ہم نے اسے لفظ بادینی سے جانا۔ معراج گل نوشکی کی صحراؤں ا کو پار کرتا ہوا جب اسلام آباد کی فضاؤں میں سانس لینے لگا تو وہاں کی ہوا نہ صرف اسے راس آئی بلکہ ایک بڑے ادارے تک رسائی ہوئی جہاں اس وقت وہ خدمات انجام دے رہے ہیں اسلام آباد میں ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں بطور سائینٹفک آفیسر مائیکرو بیالوجی کام کر رہے ہیں۔

گپ شپ کے بعد ایک دوسرے گھل مل گئے، گھل ملتے کیسے نہیں اسلام آباد کی فضاؤں نے اپنائیت دیا کب ہے جب بھی بلوچ ماما نے وہاں پاؤں پھیلانے کی کوشش کی تو اسے بے دخل کر دیا گیا ایسے کئی چہرے ہیں جو چند سال پہلے اسلام آباد کی آب و ہوا میں سانس لیتے ہوئے نظر آرہے تھے اسلام آباد نے انہیں واپس بلوچستان دھکیل دیا جہاں سوائے بیروزگاری اور افراتفری کے کچھ نہیں،خدا کرے معراج کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہ ہو۔ اپنوں کو دیکھ کر اجنبی پن کا احساس چھٹنے لگتا ہے، سو معراج کو دیکھ کر اجنبیت کا احساس چھٹنے لگا۔

بارہویں جماعت تک تو وہ نوشکی کے سرکاری اداروں کا ہی سہارا لیتے رہے۔ نوشکی میں جب رہنے کاکوئی جواز پیدا نہیں ہوا تو وہاں سے نکل کر کوئٹہ چلے آئے۔ کوئٹہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ شہر ہے شہر میں اخراجات زیادہ ہوتے ہیں جب تک جیب گرم نہ ہو تو چلنا پھرنا محال ہے۔ گھر کی کفالت والد کے ذمے تھی جو بمشکل ہی گھر کے اخراجات پورا کرتے تھے گھر کی مالی حالت دیکھ کر انہوں نے والد کی طرف دیکھا نہیں۔ پھر کیا تھا کوئٹہ میں مقیم ایک رشتہ دار نے رہائش کے لیے اپنا گھر پیشکش کیا تو سونے پہ سہاگہ ہوا۔ مگر تعلیم ادھورا نہ رہ جائے اس کے لیے انہیں مزید تگ و دو کرنی تھی۔

یہ کام کس طرح پورا ہو، اور کس شعبے کا چناؤ کیا جائے شش و پنج میں مبتلا ہوئے۔ لیب کا ہلکا پھلکا کام وہ کسی اور جگہ سے سیکھ چکے تھے۔ سو قسمت آزمائی کے لیے انہوں نے لیبارٹریز کا رخ کیا۔ کہیں سے خبر ہوئی کہ کیچی بیگ سریاب میں واقع پی پی ایچ آئی کی بنیادی مرکز میں لیب اٹنڈنٹ کی پوزیشن خالی ہے سو قسمت آزمانے کے لیے وہاں چلے آئے۔ قسمت نے ساتھ دیا لیب اٹنڈنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔ جب تک تعلیمی سلسلہ چلتا رہا پی پی ایچ آئی کے ساتھ منسلک رہے،اس دوران صحت کی سرگرمیوں اور بیماریوں سے متعلق آگاہی نے اسے صحت کے شعبے کی جانب راغب کیا۔ کیرئیر کونسلنگ کے بغیر اس نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ مائیکرو بیالوجی میں داخلہ لیا۔ چار سالہ کورس مکمل کیا رزلٹ آئی تو گولڈ میڈلسٹ قرار پائے۔

ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”جب کوئٹہ آیا تو کئی مشکلات درپیش تھے اول تو یہ کہ کیا کیا جائے، دوئم یہ کہ اخراجات کا بندوبست کس طرح ہو۔ پی پی ایچ آئی ہی وہ ادارہ تھا جس نے بوقت ضرورت نہ صرف مجھے سہارا دیا بلکہ مائیکروبیالوجی کی طرف آمادہ کیا۔ ادارے نے مجھے بنیاد فراہم کی اور آگے کی راہوں کا تعین کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوا۔“ بعد میں جب بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تو صبح کے وقت وہ یونیورسٹی جانے لگا یونیورسٹی سے فراغت پاتے ہی وہ لوکل بس پکڑ کر کیچی بیگ پہنچ جاتے جہاں رات گئے تک ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ ”یہ میرا مشکل دور تھا۔ جاب کرنا بھی ضروری تھا اور تعلیم حاصل کرنا اس سے بھی کہیں زیادہ۔ دونوں لازم و ملزوم ٹھہرے۔ لیکن وقت و حالات نے بہت کچھ دیا۔ اور حالات نے سمجھا دیا کہ وقتی مشکلات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنا ہے بلکہ سفر جاری رکھنا ہے۔“

بلوچستان یونیورسٹی سے بی ایس مائیکرو بیالوجی کرنے کے بعد ایم فل کے لیے انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی میں قسمت آزمائی کی تو کامیاب نہ ہوئے۔ پھر ایئرڈ یونیورسٹی راولپنڈی شعبہ بائیو ٹیکنالوجی میں داخلہ مل گیا۔دل نہیں لگا تو فیصل آباد چلے آئے۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں سے مائیکرو بیالوجی میں ایڈمیشن مل گیا۔ 2018کو جب اپنا ایم فل مکمل کر گئے تو قسمت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایک دن ایک اشتہار پر نگاہ دوڑائی اپلائی کیا ٹیسٹ و انٹرویو میں کامیابی ملی تو بن گئے جی سائینٹفک آفیسر مائیکرو بیالوجی۔

جنوری 2019 سے وہ پاکستان کے صحت کے ایک بہت بڑے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سے وابستہ ہیں۔ یہ ادارہ صحت کے شعبے میں ریسرچ کے ساتھ ساتھ ویکیسینیشن پر کام کر رہا ہے۔ معراج گل بادینی بلوچستان سے پہلے آدمی ہیں جو این آئی ایچ میں بطور سائینٹفک آفیسر کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا دور مائیکرو بیالوجی کا ہے۔ نئی نئی بیماریاں پیداہو رہی ہیں ان بیماریوں پر ریسرچ کرنے اور ان کے لیے ادویات بنانے کے لیے یہ شعبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔


معراج گل بادینی نہ صرف ادارے کے کوالٹی کنٹرول ٹیسٹنگ میں اس کا پراسیس دیکھتے ہیں بلکہ این آئی ایچ کے کالج آف میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی میں بطور مائیکروبیالوجسٹ درس و تدریس کا کام بھی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پی پی ایچ آئی کے ساتھ کام کرتے ہوئے نہ صرف مجھے مالی مدد ملی بلکہ ایکسپوژر کا موقع بھی ملا۔ جس نے مجھے اس شعبے کی جانب راغب کیا۔ اگر پی پی ایچ آئی کی سپورٹ نہیں ہوتی یا ادارے میں کام کرنے کا موقع نہ ملتاتو زندگی میں ایک خلا سا آجاتا۔ مزید کہتے ہیں کہ مواقع ہر جگہ موجود ہیں بس نوجوانوں کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آگے آئیں مشکلات کا سامنا کریں اور اپنی منزل پا لیں۔