|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2019

کریم امن فاؤنڈیشن (ہیلتھ و ایجوکیشن سروسز) کی زیر نگرانی بابو عبدالرحمن کرد کے نام سے ایک پبلک لائبریری کا قیام بمقام دشت جلب گندان ضلع مستونگ میں عمل میں لایا گیا۔

لائبریری کے لئے مختلف ادبی اکیڈمیوں اور علمی و ادبی شخصیات نے تعاون کیا جن میں بلوچی اکیڈمی، براہوئی اکیڈمی، اکیڈمی آف ادبیات، براہوئی ادبی سوسائٹی، الف لیلیٰ بک و بس سوسائٹی لاہور، آماچ ادبی دیوان مستونگ اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز ڈاکٹر خالد پندرانی کے لائبریری سے ڈاکٹر انور پندرانی نے کثیر تعداد میں کتابیں دیں، اسکے علاوہ ادبی شخصیات میں وحید زہیر، افضل مراد، پروفیسر شفقت عاصمی، پروفیسر قیوم قاضی، پروفیسر ڈاکٹر اعظم بنگلزئی، پروفیسر باری آجو، ڈاکٹر تاج رئیسانی نے کتابیں عنایت کیں محترم حاجی لشکری رئیسانی، محترمہ فضیلہ عالیانی اور ناصر کریم (کراچی)نے کثیر تعداد میں کتابیں مہیا کرنے میں اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا بابو عبدالرحمن کرد پبلک لائبریری کی افتتاحی تقریب بمورخہ 29 ستمبر کو دشت جلب گندان میں منعقد ہوئی جس میں کوئٹہ، مستونگ، مچھ، نوشکی اور قریب و جوارکے علاقوں سے وسیع تعداد میں علم دوست و کتاب دوست ادبی تنظیموں اور شخصیات نے شرکت کیں۔

لائبریری کا افتتاح گرلز سکول کے بچیوں نے کی افتتاحی تقریب لائبریری کے ہال منعقد ہوئی جس میں ادباء، شعراء، سماجی ورکرز کے علاوہ علاقہ کے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کریم امن فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری کامریڈ نہال خان نے سر انجاام دی نہال خان نے کریم امن فاؤنڈیشن کے ہیلتھ و ایجوکیشن کے حوالے سے انجام دیئے گئے فلاحی خدمات پرتفصیل سے روشنی ڈالی۔

اس کے بعد سرجن ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کی دعوت خطاب دیا گیا جنہوں نے اپنے خطاب میں بابو عبدالرحمن کرد پبلک لائبریری کے قیام پر فاؤنڈیشن اور علاقہ کے عوام کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ اس بے آب و گیاہ صحرا میں لائبریری کا قیام ایک خوش آئند امر ہے اور یہاں ہیلتھ سروسز و ایجوکیشن کے حوالے سے کریم امن فاؤنڈیشن کی خدمات قابل ستائش ہیں یہاں کے لوگ پسماندہ ہیں صحت عامہ کے حوالے سے بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں ابھی تک یہاں کی آبادی کی اکثریت صحت کے جدید سہولتوں سے محروم ہیں علاج و معاجلہ کے لئے پیروں اور مزاروں کا رخ کرتے ہیں چھوٹی چھوٹی عام بیماریاں جن کا علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بڑی جان لیوا بیماریوں میں بد ل جاتی ہیں چھوٹے مسائل وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بڑے مسائل کو جنم دیتے ہیں صحت عامہ کے حوالے سے یہاں بہت کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر نور پندرانی نے اپنے خطاب میں علاقہ کے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں روایتی فرسودہ طریقہ علاج کی بجائے مستند ڈاکٹروں سے علاج معاجلہ کے لئے رجوع کرنا چاہیے عطائی ڈاکٹروں سے دور رہیں صحت عامہ کے حوالے سے خواتین کا خیال رکھیں زچگی کے لئے مستند لیڈی ڈاکٹروں سے رجوع کریں اور دوران زچگی عورتوں کے خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔

سرجن ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے علاج معالجہ کے سلسلے میں اپنے فری خدمات پیش کیں ار شیخ زید ہسپتال جوکہ بڑا ہسپتال ہے وہاں منگل اور جمعہ کے دن اپنی O.P.D کے دوران مریضوں سے رابطے کا کہا آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ پبلک لائبریری علم کی روشنی پھیلانے میں کارگر ثابت ہوگی۔

اسکے بعد کامریڈ حمید نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لائبریری کے قیام پر خوشی ظاہر کی انہوں نے یہاں کچھ سینئر دوستوں کے بارے میں کہا کہ 25 سال بعد ہمیں اپنے استادوں کی دید نصیب ہوئی انہوں نے شکایت کی کہ کہنے والے سمجھانے والے بہت ہیں لیکن سمجھ کو سمجھنے کی کمی ہے انہوں نے سمجھ و شعور کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شعور ہمارے لئے زہر ہلائل کا درجہ رکھتی ہے وہ حال اور مستقبل کو پیش نظر رکھتی ہے سامنے اورآگے کا درجہ بتاتی ہے مظاہر کو سطی دیکھنا نہیں چاہیے بلکہ باریک بیتی سے ضرر ارسال چیزوں کو قریب آنے سے روکیں اور مفید چیزوں کو آشکار کریں یہ تمام مفید مشورے کتابوں کے علم سے حاصل ہوتی ہیں اور جو شعور میں رچ بس کر پھلتی پھولتی ہیں۔

معروف دانشور شاہ بیگ شیدا:۔
نے کہا کہ بابو شورش جن کے نام سے فاؤنڈیشن ہے اور بابو عبدالرحمن کرد جن کے نام سے پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ہمارے لئے اس خطے کے عوام کی خدمت کے حوالے سے بہت ہی محترم نام ہیں جو سیاست، سماجی، خدمات صحافتی و علمی حوالے سے ہمہ جہت شخصیات تھے ان کا دور انتہائی مشکل دور تھا وہ جن حالات سے ایسے بے آب گیاہ دیہاتوں میں پڑھے آگے بڑھے اور خدمات سر انجام دیں اس کا ثمر آج یہاں بیٹھے ہوئے ادباء، شعراء اور دیگر علمی شخصیات ہیں جو نہ صرف علاقائی بلکہ ملکی حوالے سے جان پہچانے جاتے ہیں انہوں نے لائبریری کو خوش آئند قرار دیکر کہا کہ لائبریری کے کتابوں کی روشنی سے آنے والی نسل مستفید ہوگی مجھے امید ہے کہ یہ یہاں کے نوجوانوں کی فکری آبیاری کرے گی۔

بلوچی اکیڈمی کے پناہ بلوچ:
نے اپنے خطاب میں خوشی کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان کا کریم یہاں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور بلوچستان کے اس دشت بے آب و گیاہ میں علم کی روشنی پھیلانے آئے ہیں یہ ہمارے لئے اُمید کی کرن ہے اور یقین ہے کہ یہاں کی آنے والی نسل علم کی روشنی کے علم کو تھام کر آگے بڑھے گی۔

براہوئی ادبی سوسائٹی کے چیئر مین عبدالقیوم بیدار:
نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سننے میں آتا تھا کہ اس جیسے دشت سے علم کی روشنی پھیلے گی آگے بڑھے گی آج یہاں ملک کے ممتاز دانشوروں کی موجودگی سے ظاہر ہے کہ یہاں کے آنے وانے نوجوان اپنے اسلاف ان کے نقش قدم پر چل کر اس دشت کا نام روشن کریں گے۔

معروف آرٹسٹ اے ڈی بلوچ:
نے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ بابو عبدالرحمن کرد سے زمانہ طالب علمی سے شناسائی نصیب ہوئی ان سے قریب رہے ان سے سیکھا ملی خدمات سے آشنا ہوئے عوام کے کرب و دور سے آشنا ہوئے امید ہے کہ یہاں کے عوام اور نوجوان بابو کے نام کی لائبریری سے اپنی قربت رکھ کر شعورو آگاہی سے مستفید ہوں گے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے پروفیسر شفقت عاصمی نے خطاب میں کہا کہ
روشنی چاؤ تو تخلیق کرو چراغ کوئی
یوں دعاؤں سے نہیں چاند نکلنے والا
انہوں نے کہا کہ آج زندگی بغیر کتاب کے ادھوری ہے عذاب ہے جہاں کتاب ہے وہاں روشنی ہے شعور ہے، زندگی ہے،وہاں تسکین ہے خوشحالی و امن ہے،

معروف دانشور وحید زہیر:
نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ علم دشت، و جبل اورگِدانوں سے پھیلے ہیں جو شہروں کی طرف رخ کئے ہیں ہمیں کتاب، تعلیم عطا کرتا ہے جو روشنی کی صورت میں علم و آگاہی بکھیرتا ہے۔

اکیڈمی آف ادبیات کے ریجنل ڈائریکٹر افضل مراد:۔
نے خطاب کرتے ہوئے مہزبانوں کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف قبیلوں کے نوجوان، بچے، عمر رسیدہ لوگ بیٹھے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس زمین کی فطرت علم، صلاحیتوں سے بھرا پڑا ہے جو مہر گڑھ کے دور سے ابھی تک آبیاری کرتا آرہا ہے ہم کتابوں کی روشنی سے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر اسے مزید نکھار سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ علم کی راہ کتاب کی راہ ہمیں اپنے اسلاف کے راستے کی طرف لے جاتی ہے انہوں نے کامریڈ حمید کی خدمات کو لائبریری کے حوالے سے سراہا اور کہا کہ اُن کا کام اپنی رفتار سے جاری ہے جو دن بدن علم شعور اور آگاہی کی روشنی پھیلا رہی ہے وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہیں۔
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساتھی دل جانے سے میخانہ نہ بدلے

ڈاکٹر کہور خان: نے اپنی تقریر میں کریم امن فاؤنڈیشن کو اس تقریب کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کیا انہوں نے لائبریری کے قیام کو اچھی شروعات سے تعبیر کیا انہوں نے اُمید وابستہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدام نئی کلچر کا پیش خیمہ ثابت ہوگا انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کتاب وانسان کے درمیان رشتہ ابتداء سے وابستہ ہے کتاب انسان کو انسان سے قریب لاتا ہے کتاب انسان کو اللہ سے منسلک کرتا ہے۔

کتاب انسان کو تاریخ اور مستقبل کی ضروریات سے باخبر کرتا ہے کتاب کے بغیر اندھیرا ہی اندھیرا ہے لائبریریاں جو کہ علم پھیلاتی ہیں انسانی، سماجی ارتقاء پر نظر ڈالیں تو بات سمجھ میں آئے گی کہ انسانی سماج مختلف ادوار گزرا ایک دور تھا کہ جس کے پاس زیادہ دہشت تھا طاقت کے ذریعے اُس نے دنیا پر حکمرانی کی اس کے بعد ایک ایسا دور آیا کہ طاقت کی جگہ دولت نے لے لی اور دنیا دولت کے قبضے میں آگئی جواب تک جاری ہے سائنس، ٹیکنالوجی، کی رفتار سے ایک ایسا دور آرہا ہے کہ جسکے پاس علم، ٹیکنالوجی ہوگی دنیا اُسی کے اشاروں پر چلے گی علم سوالات اُٹھاتا ہے دنیا سوال کو پسند نہیں کرتی سوال کو ہر دور میں مارا گیا ہے سقراط سے گیلیلیو اورآج تک سوال جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال ہی وہ چابی ہے جو علم کا دروازہ کھولے گا لائبریریوں کے علم کو پھیلائے گا علم تنقید پر اکساتا ہے تنقید کو بھی لوگ پسند نہیں کرتے لہٰذا تنقیدی ذہن کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علم کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ وہ روایات کو توڑتا ہے جدت کی راہیں دکھاتا ہے روایت شکن ہے شخصیت پرستی کا دشمن ہے بُت پرستی کے خاتمہ کے لئے مؤثر آلہ ہے ذات پات کے سامنے دیوار ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں علم کی اس روایات شکنی کو بر قرار رکھنا چاہیے یہ علم ہمیں کتابوں کے مطالبہ سے حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے ارد گرد کو سمجھ سکتے ہیں آخر میں ڈاکٹر سلیم کرد نے مختصر خطاب کے بعد حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔