کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں میں بے قاعدگیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کیلئے کمیٹی قائم نہ ہونے پر ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھرتیوں میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ا
جلاس میں فلاحی وعطیاتی اداروں کا مسودہ قانون منظور کرلیا گیاجبکہ ضابطہ دیوانی کا ترمیمی مسووہ قانون قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ پیر کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ مختلف آسامیوں کے اشتہارات مشتہر کرنے سے قبل اخبارات میں یہ اشتہار بھی صوبائی حکومت کی جانب سے مشتہر کرایا گیا۔
کہ کہیں بھی ملازمتوں، ترقیاتی منصوبوں سمیت کہیں بھی کوئی غلط اقدام ہورہا ہو تو کوئی بھی اس کی سی ایم آئی ٹی میں شکایات درج کراسکتے ہیں جس کے لئے سی ایم آئی ٹی کے نمبرز بھی اخبارات میں مشتہر کرائے گئے جس کا مقصد یہ ہے کہ معاملات کو درست اور صحیح رکھنا ہے انہوں نے کہا کہ ملازمتوں کے حوالے سے بنائی جانیوالی کمیٹیوں کے حوالے سے وزیرتعلیم خود شامل نہیں ہوتے۔
ا نہوں نے کہا کہ آج محکمہ تعلیم کا مسئلہ ہے کل کسی دوسرے محکمہ کا مسئلہ ہوسکتا ہے ہر جگہ کمیٹیاں نہیں بن سکتی اس لئے ایسے کسی صورتحال سے سی ایم آئی ٹی کو آگاہ کیا جائے تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی قبل ازیں جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے توجہ دلاو نوٹس پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب تک اس حوالے سے تحقیقات نہیں ہوتی تب تک ملازمتوں کو تعطل میں رکھا جائے اور حقیقی لوگوں کو ان کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی بے حسی اور ظلم پر افسوس ہے۔
انہوں نے گزشتہ روز کے اخبارات میں وزیراعلیٰ کے شائع ہونے والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وزیراعلیٰ کے علم میں میرٹ کی پامالی کا مسئلہ آگیا ہے تو ایسے میں اخبارات میں بیان دینے سے بہتر تھا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اس ناانصافی کا ازالہ کرتے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حالیہ تمام بھرتیوں کو کالعدم قرار دیاجائے اور ناانصافوں کا ازالہ کیاجائے۔
اجلاس میں پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیر ے نے اپنی توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ گزشتہ دنوں محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے لیب اسسٹنٹ،چوکیدار اور نائب قاصدوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اگر جواب اثبات میں ہے تو لیب اسسٹنٹ، چوکیدار اور نائب قاصدوں کی کل کتنی آسامیاں خالی تھیں،کتنے لوگوں نے درخواستیں جمع کرائیں اور کتنے لوگوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئیں مکمل تفصیل سے آگاہ کیا جائے نصراللہ زیرے نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی ان آسامیوں پر تعیناتی میں میرٹ کی پامالی کی گئی ہے۔
دوسو سے زائد ایسے لوگوں کو ملازمت دی گئی ہے جنہوں نے نہ تو درخواستیں جمع کرائیں اور نہ ہی ٹیسٹ و انٹرویو میں حصہ لیا تھا بلکہ مختلف آسامیوں کی بولی لگائی گئی اگر وزیر تعلیم کو اسکا علم نہیں تو ذمہ داروں کے خلاف فوری طور پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی نصیر شاہوانی نے کہا کہ ملازمتوں میں بے قاعدگی پر کوئی کمیٹی نہیں بنتی اور کوئی اقدمات نہیں کیا جاتے تو صرف تحقیقات کی باتوں سے مطمئن نہیں ہونگے۔ محکمہ تعلیم نے حالیہ بھرتیوں کے خلاف سب سے پہلے میں نے بیان جاری کیا تھا۔
جس کے بعد صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کے بھی بیانات آئیں ان ملازمتوں میں کہیں پر میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا جس علاقوں میں سکول ہو وہاں پر چوکیدار اور چپڑاسی اس علاقے سے لئے جائیں انہوں نے کہا کہ حالیہ انٹرویو میں بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے جنہوں نے ٹیسٹ و انٹرویو میں حصہ تک نہیں لیا جبکہ کئی ایسے لوگ بھی بھرتی کئے گئے جن کا بلوچستان سے تعلق تک نہیں اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ ارکان اپنا موقف ضرور پیش کریں مگر مختصر وقت میں بات کریں تاکہ دوسرے اراکین کو با ت کرنے کا موقع ملیں انہوں نے کہا کہ۔
گزشتہ پانچ سالوں میں بھرتیاں نہیں ہوئی اب موجودہ دور میں ملازمتیں دی جارہی ہے تو یہ خوش آئند ہے جبکہ وزیراعلیٰ اور وزیر تعلیم نے بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لے لیا ہے تحریک انصاف کے مبین خان خلجی نے کہا کہ مخلوط حکومت کے قیام کے پہلے دن وزیراعلیٰ نے ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی توقعات وزیراعلیٰ سے وابستہ ہے انہوں نے وزیراعلیٰ سے استدعا کی کہ جہاں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں وہاں سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ سی ایم آئی ٹی کا طریقہ کار طویل ہوتا ہے۔
انہوں نے اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ وزیرتعلیم اور اپوزیشن ارکان کو اس مسئلہ پر بٹھائیں اگر ان کے درمیان آئندہ اجلاس تک مسئلہ حل نہیں ہوتا تو وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور وزیرتعلیم صورتحال کا نوٹس لے چکے ہیں سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ آنے دیں اگر اس پر اپوزیشن ارکان مطمئن نہ ہو ئے تو تب اس پر مزید بات کی جائے۔ صوبائی وزیر ذراعت زمرک اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ۔
تعیناتیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے ادارے موجود ہیں اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے اسمبلی فلور پر معاملہ کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ معزز اراکین کے اگر تحفظات دور نہیں ہوئے تواپوزیشن اراکین کیساتھ ملکر آواز اٹھائیں گے۔ بی این پی کے رکن اسمبلی اختر حسین لانگو نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا ایوان ایک ذمہ دار فورم ہے بغیر کسی ثبوت اور تصدیق کے ہم کسی پر الزام نہیں لگارہے ہیں۔
محکمہ تعلیم میں ہونے والے تعیناتیوں میں جن لوگوں نے کاغذات جمع کرائے تھے تعینات ہونے والے افراد کے ناموں کی فہرست ان سے مختلف ہے۔ تعیناتیوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم نہ ہونے پر اپوزیشن اراکین نے ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا، اجلاس میں نقطہ اعتراض پراپوزیشن رکن کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے کہا کہ گورننس میں بہتری اور محکموں میں اصلاحات اور بجٹ پر عملددرآمد اولین ترجیح رہی ہے۔
ریکوڈک سے متعلق صوبائی کابینہ نے کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے اس سلسلے میں مربوط اور موثر اقدامات اٹھائے جائیں،اور اس سلسلے میں نظر ثانی کی درخواست جمع کرانے سمیت دیگر آپشنز پر بھی غور کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریکورڈک منصوبے سے متعلق اراکین اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ گوادر میں سعودی آئل ریفائنری کے قیام سے متعلق فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی،صوبے میں لینڈ لیز ایکٹ منظور ہوئی جس کے تحت بیرون ممالک سے آنیوالے سرمایہ کار زمیں خرید نہیں سکتے انہیں حکومت سے زمین کرایہ پر لینی ہوگی پہلی مرتبہ صوبے میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو بہتر بنایا گیا ہے۔
ٹرانسفر پوسٹنگ محکموں میں بہتری کے لئے معمول کے مطابق کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کوسٹل ڈویولپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے متعلق آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں کو اعتما میں لیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے انجینئروں کو درپیش مسائل کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انجینئرؤں نے مجھ سے ملاقات کرکے اپنے مسائل سے آگاہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کو چائیے کہ وہ انجینئرزکو اپنے پاس بلاکر ان کے مسائل سنیں انہوں نے کہا کہ کسی بھی ٹکینکل پوسٹ پر ٹیکنیکل لوگ ہی بہتر کام کرسکتے ہیں اگر ان کی جگہ کسی بیوروکریٹ اور لگادیا جائے تو نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے جب میں وفاقی وزیر تھا تو میں نے واضح ہدایت کی تھی کہ ٹینکیکل پوسٹ پر ٹکینکل لوگوں کو تعینات کیا جائے گا اور کسی ایک پروجیکٹ ڈائریکٹر کو ایک سے زیادہ منصوبوں کا پی ڈی نہیں لگایاجائے گا۔ انہوں نے صوبائی وزیر خزانہ کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ریکوڈک منصوبے پر ان کمیرہ بریفنگ دینے کی تجویز کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے۔
کہ اراکین کو ان کے ہمراہ بریفنگ دی جائے ریکوڈک پر جتنا جرمانہ کیا گیا ہے اتنا تو ہماری تین نسلیں بھی ادا نہیں کرسکیں گی دعا ہے حکومت اس مسئلہ کو بہتر اندازمیں حل کرے اس سلسلے میں وفاقی حکومت صوبائی حکومت بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیکر صوبے کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرے۔قبل ازیں اجلاس میں نقطہ اعتراض پراظہارخیال کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز بلوچستان حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر نیشنل کوسٹل ڈویولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے وفاقی حکومت کا فیصلہ صوبائی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
آئین کے تحت صوبے کے کسی بھی علاقے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اتھارٹیزکا قیام حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں انہوں نے کہا کہ آج اس اسمبلی سے ہمیں مشترکہ پیغام دینا چاہئے کہ صوبے میں آئینی مداخلت کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اگر بلوچستان میں واقعی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے تو اسے ژوب، گوادر، خضدار، خاران سمیت دیگر پسماندہ علاقوں میں سرمایہ کاری کریں انہوں نے کہا کہ۔
ریکورڈک سے متعلق اسمبلی کی قائم کمیٹی غیر فعال ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر کمیٹی قائم کرکے بیرون ملک دورے کررہی ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ریکورڈک بلوچستان حکومت کی نہیں بلکہ صوبے کے عوام کی ملکیت ہے۔انہوں نے گوادر میں سعودی وفد کی تیسری مرتبہ دورے میں بھی بلوچستان حکومت کے نمائندوں کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئل ریفائنری سے متعلق ہونیوالے معاہدوں کو ایوان میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت کے دور میں 1ہزار سے زائد آفیسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ ہوئی ہے مختلف سیکرٹریز کو جبری طور پر رخصت پر بھیجا گیا ہے جو باعث افسوس ہے انہوں نے کہا کہ حکومتی رویے کے خلاف عوام سڑکوں پر نکلے گی۔ اجلاس میں وزیر قانون و پارلیمانی امور ماجبین شیران نے ضابطہ دیوانی بلوچستان کا ترمیمی مسودہ قانون مصدرہ 2019ء ایوان میں پیش کیا گیا۔
جس پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے مسووہ قانون قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی۔ اجلاس میں وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے بلوچستان فلاحی وعطیاتی اداروں / تنظیم (رجسٹریشن ریگولیشن اور معاونت) کا مسودہ قانون مصدر2019 ایوان میں پیش کیا جسے رائے شماری کے بعد اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے منظور کرلیا۔ اجلاس میں ڈاکٹر ربابہ بلیدی، عبدالواحد صدیقی نے مجالس قائمہ کی رپورٹس ایوان میں پیش کی۔