|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2019

گزشتہ چند سالوں سے ملک بھر کے مختلف شہروں سے بسوں کے ذریعے شیعہ زاہرین کو کوئٹہ کے راستے ایران بجھوانے کا سلسلہ شروع کیا گیاہے، شروع کے دنوں میں شہریوں نے اس پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ شہریوں کا منفی رد عمل ظاہر کرنا بنتا بھی نہیں تھا۔ زائرین کو اپنے مذہبی رسومات یا ایران اور عراق جاکر اہم مقامات کی زیارت کرنے کا اتنا ہی حق ہے جس طرح ملک کے ہر طبقے کواپنے مسلک کے مطابق عبادات کرنے کا حق ہمارے ملک کے آئین کے تحت حاصل ہے۔

بات یہاں تک رہتی تو درست عمل ہوتا لیکن اب ان زائرین کے نقل وحمل سے دیگر شہریوں بشمول کوئٹہ سے لیکر نوشکی، دالبندین،نوکنڈی اور سرحدی شہر تفتان کے شہریوں کو جس کرب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ لگانا حکمرانوں کے لیے ممکن ہی نہیں، کیونکہ ان کے لیے کوئٹہ سمیت تمام شہروں کی ٹریفک روک کر پروٹوکول دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں عوام کی ان زائرین کے نقل وحمل سے ہونیوالی تکالیف کا احساس تک نہیں۔مجھے یاد ہے کہ جب ان زائرین پر کوئٹہ کے آس پاس کئی بار جان لیوا حملے ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

سابق گورنرجنرل عبدالقادر بلوچ، سابق وزراء اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کے دور حکومت میں اعلانات کئے گئے کہ زائرین کو ان خود کش حملوں اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کراچی یا گوادرسے بحری جہازوں میں ایران تک بجھوایا جائیگا جہاں انہیں کم لاگت پر سفر کی سہولیات بہم پہنچانا تھا دوسری طرف ان کے سفر کو بھی محفوظ بنانا تھا تاکہ کسی دشمن قوت کے ہاتھوں انہیں کوئی گزند نہ پہنچے لیکن ان گورنر صاحبان سمیت تمام سابق وزراء اعلیٰ صاحبان کے اعلانات محض اعلانات رہے۔

موجودہ وفاقی وزیرعلی محمد نے وزیرداخلہ کی حیثیت سے تفتان تک کا دورہ کیا اور اس صورتحال کا جائزہ لیا لیکن ان زائرین کے نقل حمل کے موقع پر دیگر بڑی آبادیوں کو”یرغمال“ بنانے پر کوئی غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کا احساس کیا گیا کہ یہ عمل کیسے درست قراردیا جاسکتا ہے کہ جب زائرین کی درجنوں بسوں کے کوئٹہ سے تفتان کے لیے اور تفتان سے کوئٹہ کیلئے روانگی کے ساتھ ہی ضلع چاغی اور ضلع نوشکی کے بڑے شہروں سمیت کوئٹہ کے شہریوں خصوصاً لک پاس سے مغربی بائی پاس اور اسپنی روڈ کے شہریوں کو یرغمال بنا کر ان کوگھروں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

کوئٹہ سے تفتان آنے اور جانیوالی دیگر ٹریفک کو گھنٹوں سڑکوں اور تیز دھوپ اور طوفانی بارشوں میں بھی روک کر یرغمال بنایا جاتا ہے ان بسوں میں خواتین اور بچے،بوڑھے افراد بھی ہوتے ہیں، طویل انتظار سے ان کی حالت ابتر ہو جاتی ہے صرف اس لیے کہ زائرین کی بسوں کے راستے میں دیگر کوئی ٹریفک چلنے نہ پائے بلکہ ان گاڑیوں میں موجودمیتوں کو بھی ان کے شہروں کو لیجانے یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس گاڑیوں میں موجود مریضوں کو بھی جانے نہیں دیا جاتا۔

یہ حادثہ یا واقعہ راقم الحروف کیساتھ بذات خود پیش آیاجب ہمارے ساتھ ایک عزیز کی میت والی گاڑیوں کو دالبندین لیجاتے ہوئے روکا گیا،یہ صورتحال کس حد تک اذیت ناک تھا کہ ہم عزیز کی میت کیساتھ روڈ کے کنارے کانک کی لیویز کے ہاتھوں روکے گئے، جب ہم نے اس پر شدید احتجاج کیا کہ یہ دنیا کے کس قانون میں ہے کہ ایک مختصر آبادی کے لیے دیگر لوگوں کو یرغمال بنایا جائے حتیٰ کہ ایمبولینس کو بھی جانے نہ دیا جائے۔

ہمارے شدید احتجاج اور تمام گاڑیوں کو روک کر احتجاج کی دھمکی پر ہمیں جانے دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات آئے روز ہو رہے ہیں۔ ایف سی اہلکار تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے، ان سے بات کرو تو کہتے ہیں کہ آرڈر نہیں ہے، بس بات کو ختم کرتے ہیں کسی کی سنتے ہی نہیں، چاہے کوئی مریض شدید کرب میں مبتلا کیوں نہ ہو۔ اس رویے سے شہریوں کو جس کرب اور اذیت کا شکار بنادیا گیا ہے اس پرجتناافسوس کا اظہار کیا جائے کم ہے، دکھ تو اس بات کی ہے کہ محض چند بسوں کے لیے کوئٹہ سے تفتان تک کے شہریوں کو قید کرنا، کس قانون کے تحت جائز ہے۔

اس صورتحال کو بہتر بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تفتان سے کوئٹہ یا کوئٹہ سے تفتان کیلئے بسوں کی روانگی اور داخلے کا وقت نصف شب رکھ دیا جائے تاکہ کوئٹہ شہر میں داخل ہونے اور نکلنے کے موقع پر شہری کسی عذاب سے دو چار نہ ہوں اور راستے میں آنیوالی ٹریفک کو گھنٹوں روکنے کی بجائے چلنے دیا جائے، لق دق صحرا ضلع چاغی میں بسوں کو روکنا کوئی دانشمندی نہیں جس طرح دیگر شہروں کو جاتے ہوئے ان زائرین کی بسوں کو جانے کی اجازت ہے کوئٹہ سے ژوب کے راستے کو نہ تو بند کیا جاتا ے نہ ہی اس سڑک کے قریب گزرنے والی آبادی کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔

نیزجب زائرین کا قافلہ دن کے وقت کوئٹہ شہر میں داخل ہوتا ہے تو ان کے روٹ پر واقع دکانوں کو گھنٹوں پہلے بند کردیا جاتا ہے جس سے ان کی روزگار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ دورانیہ 10 سے زیادہ نہیں ہونا چائیے۔

ہماری صوبائی وزیراعلیٰ سے دست بستہ اپیل ہے کہ وہ اخبارات میں عوامی مسائل کی اشاعت کے ساتھ ہی از خود نوٹس لینے کی روایت قائم کریں اور انہیں حل کرنیکی کوشش کریں کیونکہ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ہمارے حکمران سب اچھا ہے پر عمل پیرا ہیں اور عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہے نہ ہی ان کی جانب سے کسی مسئلے پر نوٹس لینے کی خبر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اللہ کرے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی صاحب اپنے پیش رؤں سے کچھ مختلف ہوتے ہوئے اقدامات کرتے نظر آئیں۔ہماری دعائیں اور نیک خواہشات ان کیساتھ ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عوام کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائے (آمین)