کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے تاپی پائپ لائن منصوبے سے بلوچستان کی مختلف اضلاع کو گیس کی فراہمی، تیزاب گردی میں ملوث افراد کی گرفتاری اور کھلے عام تیزاب کی فروخت پر پابندی عائد کرنے،تھرمل پاو ر پر وجیکٹ کی حفاظت پر تعینات لیویز اہلکاروں کو مستقل کرنے سے متعلق قراردادیں منظور کرلیں گئیں صوبے میں امن وامان کے حوالے سے پیش کردہ تحریک التوا 12 اکتوبر کے اجلاس میں بحث کیلئے منظور کرلی گئی۔
جمعرات کے روز ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ تاپے گیس پائپ لائن جو کہ ترکمانستان، افغانستان سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے اضلاع چمن، قلعہ عبداللہ، پشین، زیارت، لورالائی اور موسیٰ خیل سے ہوتے ہوئے صوبہ پنجاب میں داخل ہوگا۔
اور اس منصوبے پر تقریباً10ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا۔ 56انچ کے اس پائپ لائن کے لئے500میٹر (یعنی آدھا کلو میٹر) علاقہ محفوظ کیا جائے گا۔ سیکورٹی کی وجہ سے مذکورہ علاقوں کے جنگلات کاٹے جائیں گے جس کی وجہ سے کم و بیش100کے قریب گاؤں متاثر ہوں گے اور اس طرح علاقے کے ماحولیات پر بھی اثرات پڑیں گے۔ اس حقیقت کے باوجود صوبہ کے مذکورہ علاقوں کو اس پائپ لائن سے لنک دینے سے محروم رکھا جارہا ہے۔
جو کہ صوبے کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ مذکورہ گیس پائپ لائن صوبے کے جس بھی ضلع سے گزرے وہاں کے مکینوں کو گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور اس بابت زمینوں کے معاوضوں اور ملازمتوں کی تعداد و طریقہ کار بھی وضع کرے نیز اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی جائے کہ متعلقہ اضلاع میں گیس اسٹیشن اور گھریلو گیس لائن دیا جائے گا۔
نیز زمینوں کے معاوضے صوبہ پنجاب کی طرز پر دیئے جائیں اور اس منصوبے سے ہونے والے ریونیو میں صوبہ بلوچستان کے لئے فارمولہ بھی وضع کیا جائے۔اپنی قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پرانا منصوبہ ہے جو سرد خانے کی نذر ہوگیا تھا اب اس کی فزیبلٹی رپورٹ قریب تیار ہوچکی ہے انہوں نے کہا کہ جہاں بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں وہاں قواعد وضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے۔
کیونکہ بڑے منصوبوں کے جہاں مثبت اثرات ہوتے ہیں وہاں ان کے کچھ مضر اثرات بھی ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ پائپ لائن چمن کے راستے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوگا یہاں پشین، لورالائی اور موسیٰ خیل سے ہوتے ہوئے پنجاب جائے گی یہ 56انچ کی پائپ لائن ہے یہ پائپ لائن جہاں سے گزرے گی وہاں آدھا کلو میٹر علاقہ پائپ لائن کو محفوظ بنانے کے لئے لیاجائے گا۔
جس سے چراہ گاہیں، زرعی زمین اور آبادیاں متاثر ہوں گی خدشہ ہے کہ اس سے آبادیاں بھی تقسیم ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے منصوبوں سے پہلے عوامی سماعت کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں عوام، عوامی نمائندوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر ان سے بات کی اور تحفظات سنے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا یہ گیس پائپ لائن جہاں سے گزرے گی وہاں گیس سٹیشن بنانے کی تجویز نہیں جبکہ پنجاب میں 7سے8گیس اسٹیشن بنیں گے۔
یہاں پر یہ واضح نہیں کہ یہ گیس لائن جہاں سے گزرے گی وہاں چراہ گاہوں، جنگلات، عوام کی اراضی اور ملازمتوں کے حوالے سے کیا لائحہ عمل گا زیارت میں واقع صنوبر کے جنگلات دنیا بھر میں صنوبر کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں ان کے بے دریغ کاٹنے سے ماحول پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے انہوں نے زور دیا کہ یہ گیس پائپ لائن جہاں سے گزرے گی۔
وہاں لوگوں کی آمدورفت کے لئے رستے بنائے جائیں چمن پشین زیارت لورالائی اورموسیٰ خیل میں گیس سٹیشن بنائے جائیں اور ان شہروں سمیت دیگر شہروں کو گیس فراہم کی جائے پائپ لائن کے راستے میں آنے والے درختوں کو کاٹنے کی بجائے محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے پائپ لائن منصوبے میں مقامی لوگوں کو ملازمت دی اور لوگوں کو اراضی کا معاوضہ دیا جائے۔ صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ۔
گیس پائپ لائن جہاں سے گزرے وہاں گیس کی فراہمی کے ساتھ کوئٹہ میں اغبرگ و دیگر حصوں کوبھی گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے کیونکہ موسم سرما میں کوئٹہ کے عوام کو گیس پریشر میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد اللہ بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد میں ترمیم کرکے اس میں صوبے کے تمام علاقوں کو شامل کیاجائے۔
انہوں نے کہا کہ گیس ہر گھر کی ضرورت ہے بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے پنجاب کے تمام یونین کونسل اور کارخانے آباد ہوئے اور کروڑوں لوگوں کو فائدہ ہوا لیکن آج بھی جس مقام سے گیس نکلی ہے وہاں کے لوگ گیس سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ پنجگور میں ہمارے لوگ ایندھن کے لئے سلینڈر استعمال کرتے ہیں سرحد کی بندش کی صورت میں لوگوں کو دس سے پندرہ دنوں تک مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان بلوچستان کے ان اضلاع کو گیس کی فراہمی یقینی بنائیں جو اب تک گیس سے محروم ہیں۔ صوبائی وزیر پی ایچ ای و واسا نور محمد دمڑ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں سے یہ پائپ لائن گزررہی ہے وہاں کے عوامی نمائندوں اور قبائلی عمائدین کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیا جائے کیونکہ یہ پائپ لائن لوگوں کے باغات، گھروں اور املاک سے گزرے گی۔ انہوں نے کہا کہ قرار داد حقیقت پر مبنی ہے۔
اس پر عملدرآمد کے لئے ہم سب کو ہم آواز ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ منصوبے سے متعلق ہمیں بریفنگ دی جائے۔ بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ 1953ء میں سوئی کے مقا م سے نکلنے والی گیس 1984ء میں کوئٹہ پہنچی اور صوبے کے چار اضلاع اس سے مستفید ہورہے ہیں جبکہ نوشکی، پنجگور اور دیگر علاقوں میں ایل پی جی گیس استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر پٹرولیم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر پارٹی وفد نے ان سے ملاقات کرکے تجویز دی تھی کہ بلوچستان کے جو اضلاع گیس سے محروم ہیں۔
ان اضلاع کو گیس فراہمی کے لئے ایل پی جی پلانٹ نصب کئے جائیں انہوں نے کہا کہ ایندھن اور روز مرہ معمولات کے لئے درختوں کو کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے جس سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ قرار داد میں پشین زیارت موسیٰ خیل لورالائی سمیت مستونگ قلات پنجگور نوشکی، دالبندین اور دیگر علاقوں کو بھی شامل کیا جائے بعدازاں قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی گئی۔
اجلاس میں بی این پی کے شکیلہ نوید دیوار اور زینت شاہوانی کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ چند ماہ قبل صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں عورتوں اور بچوں پر چار افراد کی جانب سے تیزاب پھینکا گیا جس کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچہ جھلس کر زخمی ہوئے اس سے قبل بھی کوئٹہ شہر میں تیزاب گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بالخصوص کوئٹہ شہر کی خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ تیزاب گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔ تیزاب کے کھلے عام فروخت پر بھی فوری طو رپر پابندی عائد کی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیزاب گردی کے واقعات تسلسل سے رونما ہورہے ہیں۔
اور دو ماہ قبل بھی ہم نے ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی حالیہ دنوں سریاب کے علاقے میں ایک بار پھر ایک گھر میں خواتین اور بچوں پر تیزاب پھینکا گیا جو اقدام قتل کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ تیزاب سے متاثرہ لوگ پوری زندگی اذیت میں مبتلا ہو کر گزارتے ہیں۔ انہوں نے کہا تیزاب گردی کے واقعات کے مقدمات کم درج کرائے جاتے ہیں۔
جس کی مختلف وجوہات ہیں ایسے واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے تیزاب کے سرعام فروخت پرپابندی عائد کی جائے اور جو تیزاب خریدنے کے لئے آتا ہے اس کا شناختی کارڈ اور متعلقہ کوائف جمع کرکے اسے تیزاب دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سزا اور جزاء کے نظام کو مضبوط کئے بغیر اس طرح کے واقعات کا روک تھام ممکن نہیں اور اس پر خاموشی اختیار کرنا قومی جرم کے مترادف ہے۔
پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے خواتین اور بچوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں متاثر ہونے والی خواتین اور بچیاں پوری زندگی بڑی مشکل سے گزارتی ہیں مگر ایسے واقعات کے مرتکب عناصر کو کڑی سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ متعلقہ حکام بتائیں کہ اب تک ایسے واقعات میں کتنے ملزمان کو پکڑا گیا۔
اور انہیں کیا سزا ملی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مزید سخت قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی زینت شاہوانی نے کہا کہ خواتین پر تیزاب گردی تشدد کی بد ترین شکل ہے ایسی خواتین نہ صرف جسمانی طور پر معذور ہوجاتی ہیں بلکہ پوری زندگی تکلیف میں گزارتی ہیں ہمارے معاشرے میں خواتین کو اسلام میں حاصل حقوق بھی نہیں دیئے جارہے۔
اکثر اوقات خواتین کو دشمنی کا نشانہ بنانے کے لئے تیزاب گردی کا شکار بنایا جاتا ہے جبکہ بعض خواتین تو اپنے خاندانوں کے افراد کے ہاتھوں بھی متاثر ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے اکثر واقعات کی رپورٹ تک سامنے نہیں آتی ایسے واقعات اگرچہ پوری دنیا میں ہورہے ہیں مگر ہمارے ہاں معاشرے میں ایسے واقعات کو روکنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تیزاب گردی کے گزشتہ واقعے میں خواتین اور بچیاں متاثر ہوئیں مگر نہ تو اس واقعے کے مرتکب عناصر گرفتار کئے گئے۔
اور نہ انہیں علاج معالجے کی بہتر سہولت فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کی ایک اہم وجہ تیزاب کی کھلے عام خریدوفروخت ہے جس کو روکنے کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر سماجی بہبوود میر اسد بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جو مثبت کام ہونے چاہئے تھے وہ بدقسمتی سے نہیں ہورہے تیزاب گردی کے واقعات نہ صرف افسوسناک بلکہ قابل مذمت ہیں ایسے واقعات میں ملوث عناصر اگرصرف یہ سوچیں کہ ایسا کوئی واقعہ ان کے خاندان کے ساتھ پیش آئے تو ان پر کیا گزرے گی؟
انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کبھی نہیں ہوئے مگر اب بدقسمتی سے دوسرے صوبوں اور ممالک کی دیکھا دیکھی ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہورہے ہیں جس کی نہ تو انسانیت، معاشرے اور قبائلی معاشرے میں اجازت دی جاسکتی ہے خواتین ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں ایسے واقعات سے نہ جانے معاشرے کو کس جانب لیجا جارہا ہے قبائلی عمائدین سیاسی رہنماؤں کے ساتھ سب کو بیٹھ کر مثبت معاشرے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی مثبت تعمیر نہیں ہورہی ہمارے معاشرے کو اچھے لوگوں کی ضرورت ہے تمام سیاسی جماعتیں ایسے واقعات کی مذمت کریں اور تیزاب گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کو عمر قید کی سزااور ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ماہ جبین شیران نے تیزاب گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی آواز دبانے اوران کو ڈرانے کے لئے ان کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتاہے۔
ایسے واقعات میں متاثر ہونے والی خواتین کے لئے زندگی بسر کرنا مشکل ہوجاتا ہے وہ پوری عمر مشکلات کا شکار رہتی ہیں ہمارے صوبے میں ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے مگر اب بدقسمتی سے ہورہے ہیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مرتکب عناصرکو سخت سزا ملنی چاہئے۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تیزاب گردی کے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ہمارے معاشرے میں کچھ برائیاں اور غلط چیزیں انجیکٹ کی گئی ہیں ہمارے رسم و رواج میں خواتین کو جو مقام حاصل ہے شاید وہ برصغیر میں کہیں بھی حاصل نہ ہوہماری ذمہ داری ہے کہ وہ تمام برائیاں جن کا تعلق ہمارے معاشرے اور رسم و رواج سے دور دور تک نہیں ان کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کریں اور سزاؤں کا تعین کریں تاکہ کسی کو خواتین کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ قوانین میں موجود خامیوں کی وجہ سے ملوث عناصر بچ نکلتے ہیں ان خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات رونما نہ ہوسکے بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی۔قبل ازیں اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ۔
حبیب اللہ تھرمل پاور پراجیکٹ کے تحفظ کے لئے ڈپٹی کمشنرکوئٹہ نے سرہ غڑگئی، الماس و چشمہ اچوزئی ایریا سے45لیویز ملازمین بھرتی کئے ہیں لیکن اب تک ان کی سروس ریگولر نہیں ہوئی تنخواہ بھی آٹھ یا دس ماہ بعد دی جاتی ہے۔ سرکاری ملازم کی حیثیت سے وہ تمام مراعات سے محروم ہیں ان ملازمین کی ریگولر تعیناتی کی سمر ہوم سیکرٹری کے پاس ہے اور ڈی جی لیویز نے انہیں ریگولر کرنے کی سفارش بھی کی ہے اس لئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ عرصہ دراز سے تعینات لیویز ملازمین کو ریگولر کرنے اور انہیں مراعات جو سرکاری لیویز کے ملازمین کو ملتی ہیں۔
وہ دی جائیں تاکہ ان ملازمین میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں اس سے قبل بھی یہ مسئلہ ایوان میں اٹھا چکا ہوں اور پوری اسمبلی اس مسئلے کے حل پر متفق تھی۔ انہوں نے کہا کہ لیویز کے یہ ملازمین 1999ء سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اب تک نہ تو انہیں مستقل کیا گیا ہے۔
اور نہ ہی ان کی تنخواہیں باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہیں سروس ٹریبونل بھی ان ملازمین کے حق میں فیصلے دیتے ہوئے ان کو مستقل کرنے کی ہدایات جاری کرچکا ہے مگر 2011ء سے لے کر اب تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی حالانکہ سیکرٹری ہوم اور ڈی جی لیویز بھی ان ملازمین کو مستقل کرنے کے حق میں ہیں یہ ملازمین بڑی مشکلات اور تکالیف برداشت کرچکے ہیں اس کے باوجود انہیں مستقل نہ کرنا افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے مختلف مائیکرویو سٹیشن پر تعینات 60لیویز اہلکاروں کو اسی سال مستقل کیا جاچکا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے۔
کہ مذکورہ لیویز ملازمین کو ان کی تاریخ تقرری سے مستقل کیا جائے۔ ایوان نے قرار داد کی متفقہ طو رپر منظوری دے دی۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے چودہ ستمبر کو ہرنائی پولیس ایریا میں بیس سے پچیس دہشت گردوں نے سرعام سرور خان نامی کوئلہ ٹھیکیدار کو گولی مار کر شہید کردیا۔28ستمبر کو چمن میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا حنیف کوساتھیوں سمیت شہید کیا گیا یکم اکتوبر کو لیویز اہلکار رفیع اللہ مسلم باغ میں فائرنگ کرکے شہید کردیئے گئے۔ لورالائی میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔
جس کے باعث صوبے کے عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے لہٰذا ایوان کی کارروائی روک کر صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو زیر بحث لایا جائے۔ایوان کی رائے سے ڈپٹی اسپیکر نے تحریک التواء پر 12 اکتوبر کے اجلاس میں بحث کرانے کی رولنگ دی اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ کی کوئٹہ پیکج سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی آئندہ اجلاس کیلئے ملتوی کردی گئی۔
جس کے بعداجلاس ہفتے کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیاگیا۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی میں حکومت اورحزب اختلاف کے اراکین نے بی ایم سی ہاسٹل سے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کو بے دخل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن راکین نے دکی میں اسٹنٹ کمشنر کی جانب سے پرامن مظاہرین پر تشدد، مقدمات کے اندراج کی مذمت کی۔
اور محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں پر بھی ایک مرتبہ پھر سے ایوان میں اپنے تحفظات کیا اظہار کیا۔اراکین اسمبلی نے اجلاس میں ملک بھر سے آنیوالے زائرین کیلئے زائرین ہاؤسز کے قیام اور کراچی سے سمندر کے راستے انہیں ایران اور عراق بھیجنے سے متعلق اپنی اپنی تجاویز پیش کی اجلاس میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں۔
کو سیکورٹی کی فراہمی اوربی ایم سی ہسپتال میں واقع کینسر وارڈ کی خستہ حالی پر بھی ایوان کی توجہ مبذول کرائی،جمعرات کے روز حسب معمول دو گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے گزشتہ روز دکی میں احتجاج پر بیٹھے مظاہرین پر تشدد کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارروائی نہ ہونے۔
پر ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پیر کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ نے اسمبلی فلور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ انہوں نے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے تاہم آج احتجاجی مظاہرین پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ماں باپ کا درجہ رکھتی ہے اور آئین میں شہری کو تقریر، تحریر اور احتجاج کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک آفیسر کو بچانے کے لئے احتجاج پر بیٹھے افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے وزیر داخلہ پرامن مظاہرین پر تشدد کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارروائی یقینی بناتے ہوئے عوام پر درج مقدمہ واپس لے۔جمعیت العلماء اسلام کے اصغرترین نے کہا کہ دکی میں پیش آنے والا واقعہ باعث افسوس ہے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کہ اسسٹنٹ کمشنر نے باقاعدہ منصوبے کے تحت مظاہرین پر دھاوا بولا انہوں نے ماتحت اہلکاروں کو پہلے ہی ہدایت کی تھی کہ وہ جب مظاہرین پر تشدد کریں تو فوری طو رپر ہوائی فائرنگ کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر عوام کے ساتھ اسلحہ ہوتا اور وہ کراس فائرنگ کرتے تو اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے سانحہ کا ذمہ دار کون ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وزیر داخلہ مقدمہ واپس لینے کے لئے متعلقہ ذمہ داروں کو ہدایت کریں۔
جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ انتظامی پوسٹوں پر تعینات لوگ کچھ زیادہ ہی بے لگام ہوئے ہیں حکومت فوری طور پر واقعے کا نوٹس لے انہوں نے بولان میڈیکل یونیورسٹی اینڈ میڈیکل سائنسز کے ہاسٹل سے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کو بے دخل کرنے کے واقعے کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ لسبیلہ میں ہندو تاجرکو قتل کیاگیا ہے پاکستان ایسے واقعات کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔
آئین اور اسلامی قوانین میں اقلیتوں کویکساں حقوق حاصل ہیں اور ریاست انہیں تحفظ کرنے کی ذمہ دار ہے انہوں نے وزیر داخلہ سے واقعے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کے لئے اقدامات اٹھانے کامطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں پر مودی سرکار جس طرح سے مظالم ڈھا رہی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ بہار میں آج بھی مسلمانوں کے مساجد اور گھروں کو آگ لگایا گیا ہے۔
بھارت کے مسلم دشمن اقدامات سے اس کا سیکولر کہلانے والا چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اختر حسین لانگو نے گلگت بلتستان سے آنے والے اراکین اسمبلی کو ایوان میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ دکی میں پیش آنے والا واقعہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ایم سی ہاسٹل سے بندوق کی نوک پر ہاؤس جاب خواتین ڈاکٹرز کو بے دخل کرکے اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ نے وہاں موجود ڈاکٹروں سے جو رویہ اختیار کرکے ان کی تذلیل کی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے رویئے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ انتظامی افسران کا یہ مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ ان کی پوسٹنگ جہاں ہوتی ہے وہ خود کو وہاں کا بادشاہ سمجھتے ہیں انہیں قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ دکی میں احتجاجی مظاہرین پر تشدد اور کوئٹہ میں ہاؤس جاب خواتین آفیسرز کے ساتھ پیش آنے والے واقعات قابل مذمت ہیں۔
انتظامی افسران کے رویوں اور واقعات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔ اجلاس میں بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے بھی بولان میڈیکل ہاسٹل سے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کی بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ روز قبل بھی ڈاکٹرز کو ہاسٹل سے بے دخل کیا گیا تھا جب میں وہاں پہنچی تو بکتر بند گاڑیاں اور فورسز کی بھاری نفری وہاں موجود تھی اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہاؤس جاب ڈاکٹرز کا سامان روڈ پر بکھرا پڑا تھا اس سے متعلق میں نے گورنر بلوچستان سے بھی ملاقات کی تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔
کہ وائس چانسلر نے طلبہ سے متعلق جو نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں انہیں میں یہاں بیان نہیں کرسکتی انہوں نے اے سی کوئٹہ کی جانب سے ہاسٹل میں رہائش پذیر طلبہ کے ساتھ اختیار کئے گئے رویئے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے سی کا رویہ غیر مناسب تھا۔جب ذمہ دار شخص کی جانب سے طلبہ کانام کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے ساتھ ان کا نام منسلک کیا جائے تو ایسے ماحول میں ہماری بچیاں کیسے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔
انہوں نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں پر بھی ایوان میں اپنے تحفظات کااظہار کیا۔صوبائی وزیر سماجی بہبود میر اسداللہ بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہماری روایات باقی صوبوں سے مختلف ہیں پسماندہ صوبے میں چھ سو کلومیٹر دور سفر کرکے ہماری بچیاں اور بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں انکے ساتھ اچھا برتاؤ اور انکی اخلاقی حوصلہ افزائی ہماری قومی اقدار اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچیوں کو رات کی تاریک میں ہاسٹل سے بیدخل کرکے انکی تذلیل کرنا قابل مذمت ہے اپنے بچیوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں غلط عمل میں جو بھی ملوث ہو اس کیخلاف کارروائی ہونی چائیے۔ انہوں نے کہاکہ ہاؤس آفیسر ڈاکٹرز کیساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کیاجائے۔ بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے بھی بی ایم سی ہاسٹل میں ہاؤس آفیسر ڈاکٹرز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔
وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے کہا کہ دکی میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق میں نے پشتونخوا میپ کے رکن کو اس ایوان میں یقین دہانی کرائی تھی کہ بلوچستان کی فورسز اور عوام ہمارے ہیں واقعے کی رپورٹ مل چکی ہے تاہم مصروفیات کی وجہ سے اس کا جائزہ نہیں لے سکا ہوں رپورٹ کا جائزہ لے کر مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بی ایم سی ہاسٹل میں بے دخل ہونے والی بچیوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھا اور میں نے انہیں اگلے روز وزیراعلیٰ سے ملاقات کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاکہ ان کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔بی اے پی کے دنیش کمار نے کہا کہ تعیناتیوں میں اقلیتوں، معذوروں اور خواتین کے کوٹے پر عملدرآمد نہ ہونے پر میں پہلا شخص ہوں گا جو عدالت کے دروازے پر دستک دے گا۔
وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ بی ایم سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا ہم نے اس سے قبل مسئلہ حل کرلیا تھا آج بھی سیکرٹری صحت کو وائس چانسلر سے معاملے سے متعلق بات کرنے کی ہدایت کی ہے انہوں نے کہا کہ بی ایم سی معاملے پر کمیٹی بننی چاہئے میں اس کے حق میں ہوں تاکہ کمیٹی معاملے کی تحقیقات کرے اور رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔
انہو ں نے کہا کہ حکومت ہاؤس جاب ڈاکٹرز کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔ اجلاس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں پر اپنے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو درجہ چہارم کی آسامیوں پر بھی تعینات نہیں کیاگیاانہوں نے کہا کہ میرٹ کے برعکس ہونے والی بھرتیوں پر ہم نے پہلے ہی دن اخبارات کے ذریعے اپنا موقف واضح کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پندرہ سالوں سے ایک شخص رضاکارانہ طو رپر کام کررہا تھا لیکن حالیہ تعیناتیوں میں اسے بھی نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کی جگہ دوسرے علاقوں سے لوگوں کو تعینات کیا گیا انہوں نے کہا کہ تعینات ہونے والے افراد اس کے منتظر ہیں کہ وہ جلد جوائننگ کرکے اپنا تبادلہ کہیں اور کروائیں۔ گزشتہ روز اس سلسلے میں کوئٹہ سے منتخب ہونے والے مبین خلجی، ملک نعیم بازئی اور میں نے وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کے سر براہ سے ملاقات کی توقع ہے۔
کہ کمیٹی ہمارے تحفظات کاازالہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب سمیت دیگرعلاقوں سے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے ایران اور عراق جانے والے زائرین قافلوں کی صورت میں کوئٹہ آتے ہیں وہ یہاں علمدار روڈ اور بروری میں قیام کرتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کے لئے راستے میں زائرین ہاؤسز بنا کر انہیں سہولیات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ زائرین کی آمد پر سڑکیں بند ہوتی ہیں۔
جس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہوئی اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل کا ذمہ دار ہزارہ قبیلہ ہے۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے تجویز دی کہ کوئٹہ آنے والے زائرین کو کراچی سے سمندر کے راستے ایران اور عراق بھیجا جائے جو سیکورٹی کے حوالے سے بھی محفوظ ہے اور اس پر اخراجات بھی کم آئیں گے۔انہوں نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں سے متعلق کہا کہ یہ ایک کمیونٹی، کسی ایک پارٹی یا حلقے کی بات نہیں میرٹ کے برعکس بھرتیاں کرکے۔
حقیقی اور حقدار نوجوانوں کی حق تلفی کی گئی ہم نے گزشتہ اجلاس میں مطالبہ کیا تھا کہ تعیناتیوں کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی جائے لیکن وزیراعلیٰ نے کمیٹی کی تشکیل کی بجائے اس معاملے کو سی ایم آئی ٹی کے حوالے کیا ایچ ڈی پی کے رکن نے جس طرح اعتراف کیا ہے کہ وہ سی ایم آئی ٹی کے چیئر مین سے ملے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اور حکومت کی اتحادی جماعتیں خود کو نوازنے کی بات کرتی ہیں۔
اگر وہ بطور عوامی نمائندے ملے ہیں توا نہیں کوئٹہ سے منتخب ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ سی ایم آئی ٹی کا کردار متنازعہ ہے ہمیں اس پر کسی صورت اعتماد نہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعیناتیوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے۔ بی این پی کے رکن اسمبلی ٹائٹس جانسن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ۔
چرچز کی سیکورٹی کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں اس سلسلے میں گزشتہ ماہ میں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا ن سے ملاقات کی تھی تاہم اس کے باوجود سیکورٹی کے حوالے سے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ چرچ کی سیکورٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں اگر کسی کو مجھ سے سیاسی اختلاف ہے تو سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے تحت چرچز کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔
حکومتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے سیکورٹی اقدامات کے لئے 20کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں،حکومت اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو ہر ممکن سیکورٹی فراہم کرے گی۔ جمعیت العلماء اسلام کے شام لعل لاسی نے بھی اقلیتوں کی عبادت گاہوں سے متعلق موثر سیکورٹی اقدامات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا انہوں نے ایوان کی توجہ بی ایم سی ہاسٹل میں قائم کینسر وارڈ کی خستہ حالی کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ۔
کینسر وارڈ میں مریضوں کے لئے جگہ نہیں ہے گزشتہ حکومت نے2008ء میں وارڈ کی توسیع کے لئے بجٹ میں رقم مختص کی تھی لیکن رقم لیپس ہوگئی موجودہ حکومت نے بھی اب بجٹ میں رقم مختص کی ہے اس کا فوری ٹینڈر کیا جائے۔
جمعیت علماء اسلام نے اصغر ترین نے پشین میں بجلی کے تیز رفتار میٹرز کی تنصیب کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے ایوان میں ایک بل بھی پیش کیا جو1480ء کا تھا جبکہ نئے میٹرکی تنصیب کے بعد 61ہزار روپے تھا انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سے بغیر کیسکو باقی صوبوں کے مسترد شدہ میٹرز بلوچستان میں نصب کررہا ہے انہوں مطالبہ کیا کہ کیسکو چیف کو اسمبلی میں طلب کیاجائے۔