|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2019

کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی ترقی کا زار تعلیم میں ہے اور اگر دیکھا جائے تو تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کے میدان میں صف اول پر دکھائی دیں گی۔ مگر ہمارے ملک میں تو لاکھوں کروڑوں لوگ آج بھی تعلیم سے محروم ہیں یعنی ترقی سے محروم ہیں۔اب اس صورتحال میں ہم کیسے دنیا کا مقابلہ کریں، کیسے ترقی کریں جب ہم بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔

وہ کیسے تعلیم حاصل کریں جب ان کے پاس وسائل ہی نہیں۔وہ روٹی کو روئیں کہ تعلیم حاصل کریں ان کا بھی دل کرتا ہے کہ سکول جائیں مگر فیس کہاں سے آئے گی۔ان آنکھوں میں بھی ہزاروں خواب ٹمٹماتے ہیں جو تکمیل چاہتے ہیں مگر ان کو پورا کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم نہ چھوٹے مگر بابا کے جانے کے بعد اب کتابیں کون لائے گا۔

آج کی جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے ملک میں تعلیم حکمرانوں کی کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہی ہے۔یہی وجہ ہے کے ہمارے ملک میں آج تک تعلیم کیلئے مناسب وسائل مختص نہیں کئے گئے۔پچھلے بیس پچیس سالوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ضرور ہوا ہے اور آج شرح ِخواندگی 57فیصد بتائی جاتی ہے حالانکہ حقیقت میں شرح ِ خواندگی اس سے بھی کم ہے۔

اگر مذکورہ دعوؤں کو سچ بھی مان لیا جائے تو 57 فیصد شرحِ خواندگی بھی مطلوبہ شرح سے انتہائی کم ہے۔دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو صورتحا ل انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں شرحِ خواندگی آج بھی 48فیصد ہے جبکہ شہری علاقوں میں یہ تناسب 72 فیصد تک ہے۔ شہری علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو فروغ ملا ہے اور اب زندگی کے ہرشعبے میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔

اگرچہ یہ تمام اعشاریئے بہتری کا عندیہ دیتے ہیں لیکن آج بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ اس صورتحال میں تبدیلی لانا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں جس کیلئے صرف حکومتی اقدامات کا انتظار کرنے کی بجائے انفرادی سطح پر ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو لاکھ تیس ہزار سے زائد اسکول ہونے کے باوجود اب بھی بائیس ملین سے زائد بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

اس کی وجوہات میں سے اہم وجہ غربت اور نا مناسب نصاب ہے۔جب تک نظام تعلیم اور نصاب میں بہتری نہیں آئے گی، تب تک پورے ملک میں بہتری آنا ممکن نہیں۔پاکستان کے اسکولوں کو پرائمری اور سیکنڈری درجوں میں تقسیم کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بچے اسکولوں میں داخل تو ہو رہے ہیں تاہم ان کے اسکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اور اسکول میں داخلہ نہ لینے کے پیچھے دقیانوسی سوچ سے زیادہ نظام ِتعلیم کی خرابیوں اور مناسب سہولیات کے فقدان کا ہاتھ ہے۔ دوسری جانب تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ وہ غریب لوگ جو اپنا گزر بسر مشکل سے کر سکتے ہوں وہ بچوں کوتعلیم کیسے دلائیں؟

انسان چاہے امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت تعلیم اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور دنیا کی کئی قومیں تعلیم پر توجہ نہ دے کر زوال کا شکار ہوچکی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تنظیم اور تہذیب سیکھنا بھی ہے تاکہ کسی قوم کے افراد کو معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکے۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوارتا ہے۔

دنیا کی ہر چیز بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ تعلیم ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تعلیم کا حصول فرض کیا گیا ہے۔