|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2019

بات مکران کی ہو رہی تھی دورانِ گفتگو ذکر فلسفے کا آیا تو ایک دوست نے کہا کہ تربت یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھایا نہیں جاتا۔ یہ فقرہ ہم سب کو چونکا دینے والی تھی۔ بات ہو رہی ہو مکران کی اور تربت یونیورسٹی فلسفے سے آزاد ہو۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے تربت یونیورسٹی سے وابستہ ایک اور دوست سے جاننا چاہا تو ہنس کر کہہ گئے کہ کون پسند کرتا ہے کہ اداروں کے اندر یا اداروں کے باہر سوال اٹھنے لگیں۔

تربت یعنی کیچ مکران کا وہ علاقہ جو کسی زمانے میں شعوری میدان میں آگے آگے تھا (اب بھی اس کا دعویٰ کیا جاتا ہے خدا جانے مجھے نظر نہیں آتا)۔شعور کی بساط فقط مکران تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ دائرہ کار وسیع ہو کر تمام بلوچ بیلٹ تک پھیلنے لگا۔ تعلیمی اداروں کے اندر طلبا تنظیموں نے جو پروڈکٹ تیار کیا اس میں مکران کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اسٹڈی سرکل ہوں یا مباحثے یا مطالعے کا رجحان مکران کے نوجوان آگے آگے تھے۔

شعور کے اس زینے پر چڑھ کر سوالات کا بھرمار ہوا کرتا تھا۔ انہی پلیٹ فارمز سے نکل کر وہ بعد میں بلوچستان کی سیاسی، سماجی میدان میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ سرداریت اور نوابیت کی جڑیں جھالاوان، سراوان، رخشان میں تو اپنے آپ کو مضبوط کر پائے مگر مکران میں اس سوچ کی آبیاری نہیں ہو سکی۔ وہی غوث بخش بزنجو جوسیاست کی پیچ و تاب سے بخوبی آگاہ تھے مگر مکران کی اس فطرت سے شناسائی نہ رکھ پانے کی وجہ سے وہاں کا انتخابی معرکہ ہار گئے۔

وہی لوگ جو کسی زمانے میں مکران کے سیاسی میدان میں بڑے بڑے برج تصور کیے جاتے تھے حالات نے کروٹ بدلی، وہ اہلِ سیاست جو کسی زمانے میں غوث بخش بزنجو کی سیاست کو مسترد کرچکے تھے بعد میں اسی کے سیاسی جان نشین بن گئے۔ جانشین بننے کے بعد بھی وہ اپنا دامن ماضی سے نہ چھڑا پائے جو ہمہ وقت ان کا پیچھا کرتا رہا۔ وہ مکران جو انیسویں صدی میں بلوچستان کے مزاحمتی عمل سے دور تھا۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اکیسویں صدی مکران میں مزاحمتی جنگ کا گڑھ بن گیا۔ جنگ کی اس فضا میں صرف بندوق و بارود ہی بولتا رہاسوالات خاموشی پا چکے تھے۔ اب بندوق و بارود تھم سے گئے ہیں مگر سوال، وہ بھی اب سر اٹھانے سے قاصر ہیں۔

آج کا مکران دگرگوں صورتحال سے دوچار ہے، آس پاس کیا ہو رہا ہے زمینی حالات میں کیا تبدیلی آرہی ہے اب وہاں ایک خلا موجود ہے سیاسی محاذ خاموش ہے۔ مکران میں سرداری نظام سے پاک ہونے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے۔ مگر اس دعوے میں کتنی فیصد صداقت ہے کیا اس کے اثرات سے مکران اپنے آپ کو محفوظ کر پایا ہے۔ لفظ سرداریت و نوابیت تو کسی کے سر پر تاج یا لقب کا محتاج تو نہیں ایک سوچ کا نام ہے وہ سوچ اپنی حقیقی حالت میں مکران میں نظر آرہا ہے۔

اب ایسے میں سوال کرنا، یا اس پورے عمل کو چیلنج کرنا تو دور کی بات اس سے نکلنا ہی مشکل لگتا ہے۔ آج کا نوجوان کئی راہوں کا مسافر بن چکا ہے۔بے شمار الجھنیں ہیں جنہیں سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے مگر سلجھا نہیں پا رہا ہے۔ سیاسی میدان (جو اب فقط ایک خواب سا لگتا ہے) میں قدم رکھتے ہی پہلا سوال وہ اپنے آپ سے یہ ضرور کرتا ہے کہ کہیں کوئی سایہ تو اس کا پیچھا نہیں کر رہا، وہ سایہ جو نہ جانے کتنوں کو سوالات اٹھانے پر نگل چکا ہے۔

نوجوان آس پاس دیکھتا ہے نگاہیں دوڑاتا ہے تو وہاں پارٹیاں تو نظر آتی ہیں مگر ان کی ڈوری یا مہار نہ جانے کن نادیدہ قوتوں کے ہاتھ میں ہے،نوجوانوں کو ان کے اندر قدم رکھنے سے ڈر لگتا ہے۔ اسے ہر اس حلقے سے ڈر لگنے لگتا ہے جو سطحِ زمین یا زیر زمین دونوں حالات میں اپنی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر یہ دعوے بسا اوقات ان کے کردار کو دیکھ کر سوالات کو سر اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں مگر پھر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔تمام تر صورتحال میں وہ اپنے آپ کو اس تمام معرکہ کا اکیلا سپاہی پاتا ہے۔ وہ اس گتھی کو سلجھا نہیں پاتا جو اس کے اردگرد اپنا دائرہ کار بڑھا چکا ہے۔

آپ میری اس بات سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔ کوئٹہ میں مقیم یا یوں کہیے کہ لائبریریوں میں بیٹھے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق مکران سے ہے۔ مکران کے نوجوان لائبریریوں میں کون کون سی موضوعات پڑھنے آتے ہیں۔ لائبریری سے نکلتے ایسے کئی نوجوانوں سے یہی سوال کرتا ہوں تو جواب آتا ہے کہ پی سی ایس کی تیاری کر رہے ہیں۔ سی ایس ایس، بولان میڈیکل کالج یا پری انجینئرنگ کی ٹیسٹ کی تیاری کر رہے ہیں۔

لائبریری میں موجود کتابیں منہ چڑھا رہی ہوتی ہیں کہ کب کوئی آئے،اپنا کا دیدار کرائے، انہیں ہاتھ لگائے مگر کوئی زحمت نہیں کرتا۔ نوجوان فلسفہ پڑھتا ہے، نہ نفسیات اور نہ ہی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہے ان کے پاس سلیبس کی کتابیں ہوتی ہیں جنہیں گلے لگا کر اقتدار کی اس کرسی کا خواب دیکھتے دیکھتے کئی سال ان کو رٹا لگانے میں گزار دیتے ہیں مگر اقتدار کی اس کرسی تک جو فقط دو ہندسوں پر محیط ہوتا ہے فقط چند ہی پہنچ جاتے ہیں باقیوں کے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں۔

ایک ہڈی ہے جسے پھینک کر اہلِ اقتدار تماشا دیکھتے ہیں اور اس تماشے سے بھرپور لطف اندوز ہویتے ہیں۔ مکران کا وہ حلقہ جو سوال اٹھاتا تھا مختلف موضوعات کا مطالعہ کرتا تھا اب اس کا دائرہ کار ان موضوعات تک محدود ہو چکا ہے جو انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھانے میں معاون ثابت ہوجائیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی پہلا سوال اپنے آپ سے یہی کرتا ہے کہ میں کیوں کر پیدا کیا گیا۔ یعنی مادرِ شکم میں تخلیق پاتے ہی فلسفے کے جراثیم اس کے خون میں شامل کیے جاتے ہیں۔

پیدا ہوتے ہی ناتواں حالت میں نامانوس چہروں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، تو رونے لگتا ہے۔ رونے کے اس عمل میں نہ جانے کتنے سوالات پنہاں ہوتے ہیں مگر وہ چہرے جو نومولود کو دیکھتے ہی خوشی سے نہال ہوتے ہیں ان سوالات کو سمجھ نہیں پاتے جو بچہ اپنے آپ سے کر رہا ہوتا ہے یا اپنے اردگرد سے۔ ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا مصنف کاایک جملہ یاد رہ گیا ”ذی روح مخلوقات خواہ وہ چرند ہوں، پرند ہوں یا درندے زبان کے ذریعے بے معنی الفاظ نکالتے ہیں یا محض چیخ و پکار کر سکتے ہیں۔“

جملہ پڑھ کر مصنف کے ذہنی لیول پر ترس آیا جو بولی انسانوں کو سمجھ میں نہ آئے بھلا وہ کیسے بے معنی ہوسکتا ہے۔ اب اس بچے کی بولی کو شاید اس کی ماں ہی محسوس کرپائے جس نے اسے جنا ہے بھلا کوئی اور کیوں کر سمجھ پائے۔ فلسفہ تمام موضوعات کی ماں کہلاتی ہے مگر تربت یونیورسٹی اپنی دس سالہ کیریر کو کراس کرتے ہوئے آج تک بغیر ماں کے اپنے بچوں کو لوریاں تو سنا رہی ہے مگر جو گتھی ہے اس کو سلجھا نہیں پا رہا۔اپنے قیام سے لے کر اب تک یونیورسٹی 13شعبہ جات کا قیام عمل میں لا چکا ہے۔ سائنس، آرٹس، زبان، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ جات تو موجود ہیں مگر فلسفہ اور نفسیات گمشدہ ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی شعبہ فلاسفی کے استاد ساکم سخن نے جب بطور طالبعلم بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس وقت شعبہ فلاسفی میں وہ واحد طالبعلم تھا اب یہ تعداد بڑھ کر 40سے زائد ہو چکی ہے جن میں زیادہ تعداد مکران سے آئے ہوئے نوجوانوں کی ہے۔بلوچستان یونیورسٹی کے اندر کسی زمانے میں اسٹڈی سرکلز ہوا کرتے تھے۔ طلبا تنظیموں کا فعال کردار ادا تھا۔ نوجوان سوالات اٹھاتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے یونیورسٹی کے اندر داخل ہوتے ہی بیگانگیت سی محسوس ہوتی ہے۔

ایسا تو کبھی نہیں تھا۔ ایسا کیا ہوگیا۔ بہت سے نوجوان ہیں جو ملتے ہیں ذہن میں ہزاروں سوال لیے پھرتے ہیں مگر وہ سوال ان کے ذہن سے نکل کر زبان تک آتے آتے رک جاتے ہیں۔ وہ کونسی شے ہے جو اس فضا میں سوالات کی راہوں کو ہموار کرنے سے روک رہی ہے۔ اس پر اہلِ دانش (خدا جانے ہیں بھی کہ نہیں) کو سوچنا چاہیے۔


آج کا مکران بدل چکا ہے۔ مکران کا سیاسی منظرنامہ اب لڑکھڑا رہا ہے یہ سوال لے کر آن کھڑا ہے کہ وہ مکران جو غوث بخش بزنجو کی سیاست کو مسترد کر چکا تھا وہ کونسا کلائیمکس تھا جس نے مکران کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کرکے اس کا مہار غیر معروف اور غیر سیاسی چہروں کے حوالے کا جو آج ایوانوں میں بیٹھے مکران کی تقدیر کا فیصلہ غیر سیاسی سوچ کے ساتھ کر رہے ہیں۔سوالات کا ایک پلندہ ہے اور سوالات کی یہ تلوار مکران کے باشعور حلقے کے سر پر ہمہ وقت لٹکتی رہے گی۔