کوئٹہ: سینئرصحافیوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی سے بلوچستان شدید متاثر زیرزمین پانی کی سطح پرخطرناک حدتک نیچے گررہی ہے۔حکومت کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کے تدارک شہریوں کوصاف پانی کی فراہمی اوراندرون صوبہ درختوں کی بے دریغ کٹائی کی روک تھام اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔
ان خیالات کااظہارسینئرصحافی ناصرجمال،شہزادہ عرفان،سلیم شاہد،شہزادہ ذوالفقار،اعجازخان ودیگر نے غیرسرکاری تنظیم اسلامک ریلیف کے زیراہتمام کوئٹہ کے نجی ہوٹل میں ”موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق رپورٹنگ“کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرغیرسرکاری تنظیم اسلامک ریلیف کی ہباصدیقی اورسمیہ رشیدنے ادارے کی کارکردگی سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامک ریلیف نے بلوچستان میں پہلی مرتبہ 2002 ء میں اپنی سرگرمیوں کاآغازکیاادارے نے قدرتی آفات کے دوران لوگوں کی ہر ممکن مدد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بلوچستان میں بارشیں کم اوربرف باری نہ ہونے کے برابرہے،صوبے کی معیشت کاانحصارزراعت اورمالداری کے شعبے پرمنحصرہے تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ شعبے بر طرح متاثرہوگئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کومعاشی مشکلات درپیش ہیں اوروہ نقل مکانی کرنے پرمجبورہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کاآٹھواں نمبرہے جبکہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہواہے،انہوں نے کہا کہ تعلیم،صحت اورپینے کاصاف پانی سمیت مختلف شعبوں کی ترقیاتی عمل میں بلوچستان پسماندگی کاشکاررہا ہے۔
طویل خشک سالی کی وجہ سے لوگوں کوذریعہ معاش زراعت بھی متاثرہورہا ہے اورروزبروززیرزمین پانی کی سطح خطرناک حدتک گررہی ہے،اسلامک ریلیف نے بلوچستان کے دوردرازعلاقوں میں کسانوں کوکم پانی استعمال کرکے بہتراورزیادہ منافع بخش فصلوں کی کاشت کاری سے متعلق آگاہی فراہم کی ہے تاکہ وہ کم وسائل استعمال کرکے اپنے مقاصدباسانی حاصل کرسکیں۔اس موقع پر ورکشاپ کے شرکاء سے اظہارخیال کرتے ہوئے سینئرصحافیوں شہزادہ عرفان،ناصرجمال ماحولیاتی تبدیلی ملکی معیشت اورروزمرہ کے امورپراثراندازہوتی ہے۔
اس سے قدرتی آفات رونماہوتے ہیں اس ضمن میں عملی طورپراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں نکھار لانے کیلئے انہیں تربیت فراہم کی جارہی ہے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق بہتراورذمہ دارانہ رپورٹنگ کرکے عوامی میں شعور کو فروغ دیں کر مسئلہ کے حل میں اپنافریضہ بہتر انداز میں سرانجام دے سکیں۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سلیم شائد،شہزادہ ذوالفقار،اعجازخان نے کہا کہ سابق ادوارمیں کوئٹہ شہر میں زلزلوں کے پیش نظربلڈنگ کوڈ قوانین مرتب کئے گئے تھے تاہم ان پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے نام پر شہر کے وسط میں موجودسینکڑوں درختوں کوبے کاٹ دیاگیا جس کے ماحولیات پربرے اثرات مرتب ہوئے ہیں،گزشتہ ادوار میں نکاسی آب کیلئے زیرزمین نالیوں کانظام بنایاگیا جوکہ آج تک کارآمدنہیں ہوسکا،انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے جاری خشک سالی کی وجہ سے بلوچستان کے ضلع چاغی،نوشکی اورقلعہ عبداللہ سمیت دیگر علاقے متاثرہوئے جہاں بڑی تعدادمیں مال مویشیاں مرگئے،اوربڑی تعدادمیں لوگوں نے نقل مکانی کاسلسلہ شروع کیا،قلت آب کی وجہ سے لوگوں نے اپنے باغات بھی کاٹ دیئے جس کی وجہ سے کیڑے مکوڑے۔
چرندپرند سمیت دیگرنایاب جنگلی جانورکی نسل بھی ختم ہوگئی اورآج ماحول بری طرح متاثرہورہا ہے،انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی کی تیزی سے نیچے گرنے سے زمین دھنس رہی ہے اس ضمن میں حکومتی سطح پرمعاملات کوبہتراندازمیں چلانے کیلئے گڈگورننس کافقدان ہے سونامی ٹری سمیت شجرکاری مہم کے نام پرمتعددمرتبہ مہم چلائی گئی مگرزمین کی سطح پرکوئی درخت نظرنہیں آرہے۔ اس موقع پر صحافیوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک سے متعلق اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔