تربت: نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما، سابق میئرتربت قاضی غلام رسول بلوچ نے کہاکہ عوام سے بلندبانگ دعوے کرنے والوں نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، خوشحالی وروزگارکا دورلانے کے دعویداروں کی نااہلی سے عوام اب رات کو اپنے گھروں میں چین کی نیند نہیں سوسکتے، ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہیں، حکومت ڈاکوؤں وقاتلوں کی سرکوبی کیلئے فوری وموثراقدامات نہیں اٹھائے تو عوام کے پاس احتجاج اور سڑکوں پرنکلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا، نیشنل پارٹی عوام کی آوازبن کر راست اقدام اٹھانے پرمجبورہوگی۔
اورجلسہ جلوس، شٹرڈاؤن،پہیہ جام ہڑتال سمیت احتجاج کے تمام قانونی ذرائع استعمال کرے گی، ان خیالات کااظہار انہوں نے نیشنل پارٹی کے ضلعی دفترمیں میڈیا نمائندگان سے خصوصی نشست کے دوران کیا اس موقع پر نیشنل پارٹی کے رہنماملابرکت بلوچ، محمدطاہر بلوچ، فضل کریم بلوچ،رجب یاسین،نثار آدم جوسکی سمیت دیگرمقامی رہنمااورکارکنان موجودتھے، سابق میئرتربت قاضی غلام رسول بلوچ نے اس امرپر افسوس کااظہارکیاکہ بھرتی شدہ نمائندے کچھ بہتر کرنے کے بجائے وہ کچھ جو نیشنل پارٹی نے اپنے دورمیں کیاتھا اسے اجھاڑ رہے ہیں۔
لوگوں کا سکھ چین چھین لیاگیاہے عوام ایک بارپھر شدید ذہنی اضطراب کے شکارہورہے ہیں انہوں نے کہاکہ ملکی سطح پر ایک انارکی اوربے چینی کی سی کیفیت پیداہورہی ہے، دھاندلی زدہ بھرتی شدہ حکمرانوں وسلیکٹڈ نمائندوں کے آنے کے بعد ہرشعبہ دگرگوں ہوتا جارہاہے امن وامان تباہ ہورہاہے ملکی معیشت آئی سی یو میں پہنچ چکاہے، بے روزگاری ومہنگائی عروج پرپہنچ چکے ہیں بلوچستان ایک بارپھر بحران کی جانب گامزن ہے، پہلے مرکزی سرکار نے جن معاملات ومسائل پر چھیڑچھاڑ کی اس وقت نیشنل پارٹی ودیگر قوم پرست پارٹیوں کی کوششوں سے وہ دم توڑچکے۔
مگرآج ایک بارپھر وہی مسائل سراٹھارہے ہیں،18ویں آئینی ترمیم رول بیک کرنے کی سازش کی جارہی ہے مرکزی سرکاری اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کررہی ہے،نیشنل کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کاقیام اس کی تازہ مثال ہے جو صوبائی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے، جوخطہ صوبہ بلوچستان کا دل ہے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بلوچستان سے کاٹنے کی گھناؤنی سازش کی جارہی ہے اسی طرح یہاں پرجو لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے اس سے بھی وہ ناخوش ہیں حالانکہ یہ خودانہی کی پیداوارہیں، انہوں نے کہاکہ مکران کو آج ایک بارپھربدامنی اوربے روزگاری کا شکاربناکر معاشی وسیاسی لحاظ سے پسماندہ رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔
حالانکہ یہ علاقہ جومعاشی لحاظ سے بلوچستان کے دیگرعلاقوں سے بہترتھا علاقہ کے عوام پڑھے لکھے اورباشعورتھے آج نان شبینہ کے محتاج ہونے کے ساتھ ساتھ بے چینی کے شکارہورہے ہیں، انہوں نے کہاکہ نام نہاد بھرتی شدہ نمائندے جنہوں نے الیکشن کے دوران بڑے وعدے کئے تھے کہ ہم کامیاب ہوکر بے روزگاری کاخاتمہ کریں، ترقیاتی کاموں کاجال بچھائیں گے، خوشحالی لائیں گے لیکن 14ماہ گزرنے کے باوجود بھی کیچ وگردونواح میں اب تک ایک پتھرکہیں نہیں رکھاگیا نہ ہی بے روزگاری کے خاتمہ میں کوئی مثبت قدم اٹھایا گیاہے۔
بلکہ اس وقت جو صورتحال ہے اس سے کیچ کے عوام سخت پریشان ہیں،نہ دوکاندار محفوظ ہیں اورنہ ہی دیگرطبقے، روزانہ چوری ڈکیتی،قتل کی وارداتیں عام ہیں، رات کو شریف وعزت دار لوگ ڈاکوؤں کے خوف سے اپنے گھروں میں بھی سو نہیں سکتے، ایک گیلن پٹرول کیلئے غریب قتل ہورہے ہیں لیکن حکومت اور علاقہ کے نمائندے اس سے بالکل بے خبر اور خواب خرگوش میں مگن ہیں،سیٹھ حامد علی اور جمیل موسیٰ کے گھروں پر ڈکیتی کی وارداتوں کو ہفتہ دس دن گزرنے کے باوجود تاحال کسی قسم کی مثبت پیش رفت نہیں، ڈاکو آزادی سے گھوم پھررہے ہیں۔
واسطوبازار اور چاہ سرکراس میں قتل ہونے والے غریب دوکانداروں کے قاتل تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکے، گاڑی وموٹرسائیکل چھینے کی وارداتیں معمول بن چکے ہیں، نیشنل پارٹی نے اس سلسلے میں الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں احتجاج کیاہے کمشنرمکران ودیگر متعلقہ افسران سے ملاقاتوں کے ذریعے حکومت وقت کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیاہے لیکن تاحال کسی قسم کی عملی اقدام نظرنہیں آتا اس لئے اگرحکومتی بے حسی اسی طرح جاری رہی توہم اپنے عوام کو ڈاکوؤں،لٹیروں، راہزنوں اور قاتلوں کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑسکتے اورجمہوری وقانونی احتجاج کے تمام تر ذرائع بروئے کارلاتے ہوئے موثر احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔