|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2019

بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے جماعت چہارم کے سرکاری نصاب میں بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے بلوچ اور براہوئی زبانوں کو الگ الگ قوموں سے منسوب کرنے کی سازش کرتے ہوئے کتاب چھاپی گئی۔ اس کتاب کے ناشر کی ذہنی شرارت نے جلتی پر تیل کاکام کیا جس پر سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات میں اس کے خلاف خبریں شائع کی گئیں حتیٰ کہ طلباء تنظیم کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں اس دیدہ دانستہ شرارت کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ ناشر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی اور کو اس طرح کی شرارت کرنے کی جرات نہ ہو۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اس عمل کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تعصب اور بد دیانتی پر مشتمل اس عمل کو حادثہ یا غلطی قرار دے کر درگزر نہیں کر سکتے کیونکہ جس شاطری سے اس پروپیگنڈے کو سرکاری نصاب کے ذریعے عمل میں لایا گیا اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اس دانستہ عمل کے پیچھے اس اقلیتی گروہ کی سازش شامل ہے جو بلوچستان کا نام نہ صرف لینے سے گریزاں ہے بلکہ حالیہ دنوں میں اس اقلیتی گروہ کے سربراہ نے ایک جلسہ عام میں ”بلوچستان کو گمراہ کن“ نام قرار دیتے ہوئے اپنی ذہنی کم مائیگی کا برملا اظہار کیا۔ مقررین نے کہا کہ اس طرح کی مواد کی اشاعت سے ہماری قومی وحدت کے خلاف سازش رچائی جارہی ہے۔

بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش بہت گہری اور اس کی جڑیں ماضی کی سازشوں سے پیوستہ ہیں کیونکہ ماضی میں بھی زرخرید دانشور اور ادیبوں نے بلوچ قوم کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ سابق حکومت اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور حکومت میں بھی اسی طرح کی سازش محکمہ تعلقات عامہ کے اشتہار میں کی گئی جس میں غالباً سبی میلہ کے موقع پر تمام اخبارات میں ایک اشتہار میں بلوچ اور براہوئی اور پشتون قوم کو الگ الگ قومیں ظاہر کرکے اپنی ذہنی شرارت اور کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ عوام کو مشتعل کیا گیا اس میں بھی اس مذکورہ گروہ کے وزیر کی ذہنی اختراع کا ہاتھ تھا جس کے محکمہ میں یہ شرارت کی گئی لیکن حسب روایت اس بارے میں صرف اور صرف اس وقت کے وزیر میر خالد لانگو نے لب کشائی کی اور اس کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن نتیجہ صفر کا صفر رہا۔

سازشی عناصر نے اشتہار کے نام پر اپنی گندی ذہنیت کا جو مظاہرہ کرنا تھا کیا؛ ہماری جانب سے موثر جواب نہ دینے کا نتیجہ ہے کہ اس اقلیتی گروہ کے ناشر نے ایک مرتبہ پھر اپنی منفی ذہنیت کا مظاہرہ سر عام کرچکا جس کے لیے صرف طلباء تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم خان محمد لہڑی اور سیکرٹری تعلیم طیب لہڑی اور وزیراعلیٰ جام کمال عالیانی اس بارے میں کیا تادیبی کارروائی کے احکامات جاری کرتے ہیں نیز تادیبی کارروائی کے تحت ناشر کو بلیک لسٹ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، ورنہ اس طرح کی ذہنی طورپر پسماندہ اور شرارتی ذہن اپنی”ہاتھ کی صفائی“ دکھانے سے باز نہیں آئیں گے۔

مقررین نے یہ بات بھی حقیقت عیاں کردی کہ بلوچستان سے باہر تعلیمی اداروں میں دانستہ طورپر بلوچ طلباء و طالبات کے سامنے ان کے داخلوں کے موقع پر یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ آپ بلوچ ہیں یا براہوئی۔بقول مقررین کے یہ عمل مخصوص سازش کے تحت خاص کر تعلیمی اداروں میں اس تعصب بھرے عمل کو پھیلانے کی ناپاک سازش ہے لیکن تاریخ سے نابلد لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہزاروں سالوں کی اس قومی اتحاد کو اپنی اس احمقانہ اور بچگانہ حرکتوں سے وہ کمزور نہیں کر سکتے۔

مقررین نے مطالبہ کیا کہ فوری طورپر مواد کو ضبط کرکے متعلقہ افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کرکے انہیں بر طرف کیا جائے ورنہ احتجاج کا یہ سلسلہ بلوچستان بھرمیں پھیلایا جائے گا علاوہ ازیں بی ایس او کے مرکزی رہنماء شمس بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مخصوص لابی نے اپنی ذہنی کم مائیگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصاب تعلیم میں بلوچ قوم کو الگ کرنے کی ناپاک سازش کی۔ مذکورہ کتاب کو دو غیر بلوچ منصفین نے لکھا ہے جس کے بعد دو کمیٹیوں نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس میں پہلے مرحلے میں چھ ارکان پر مشتمل انٹر نل کمیٹی نے اسے پاس کیا،اس کے بعد مزید چھ ارکان پر مشتمل پروفیشنل ریو یو کمیٹی نے بھی اسے درست قرار دے کر اپنی جانبداری اور سازشی سوچ پر مہر ثبت کردی۔شمس بلوچ کے مطابق مذکورہ کتاب میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کو علاقائی زبان قرار دینا بھی حقیقت کے منافی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ”بلوچستان“ بلوچ قوم کی اکثریت کی بناء پر تشکیل دیا گیا ہے جہاں براہوئی اور بلوچ ایک ہیں، ان میں کوئی تفریق نہیں، محض زبان کے فرق سے دونوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب میں ایک اور سازش کرتے ہوئے پشتونوں کو اکثریت بناکر دونوں اقوام کے درمیان تعصب پیدا کرنے کی دیدہ دانستہ کوشش کی گئی۔

اس صورت حال سے بلوچستان کے ہر شہری اور بلوچ قوم کی دل آزاری ہوئی ہے لہذا اس سازش میں براہ راست ملوث مصنفین اور ریو یو کمیٹی کے ذمہ داروں کے خلاف فوری طورپر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ سے ایسے افراد کی چھٹی کرادی جائے تاکہ یہ اقوام کے درمیان دوریاں اور تلخیاں پیدانہ کرسکیں،کیونکہ مستقبل میں اس کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ طلباء تنظیموں نے بال اب صوبائی وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم کے کورٹ میں پھینک دی ہے ساتھ میں وزیر اعلیٰ جام کمال عالیانی صاحب بھی ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ اس دیدہ دانستہ سازش کے پیچھے کار فرما گروہ کے خلاف کیا کارروائی کرکے بلوچ قوم کو مطمئن کرتے ہیں اور بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کو کس طرح ان متعصب افراد سے پاک کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی کو یہ شرارت کرنے کی جرات نہ ہو۔ اس تحریر کا اختتام بلوچ قوم کے عظیم رہنماء نوری نصیر خان (اول)کے ان الفاظ پر کر تا ہوں کہ ”اپنی تلوار نکالو اور ہر اس شخص کا سر تن سے جدا کردو جو کہتا ہے کہ بلوچ اور براہوئی ایک نہیں ہیں“