بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اسکینڈل کے بعد طلبا ء تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم ردعمل جنوری 1953 کی ملک گیر طلبا ء تحریک کے دور کی منظر کشی کر رہاہے فرق یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی تعلیمی ادارے میں ا س طرح کی حرکت کرنے کا کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔
اْ س وقت استحصالی نظام تعلیم اور ریاست کی جانب سے طلباء سیاست پر قدغن کے خلاف سیاسی تحریکوں کا آغازہوا اور اب کے تعلیمی ادارے کی استحصالی تعلیم دشمن پالیسی اپنی جگہ بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں جان و مال کی حفاظت تو ہم کب کے بھول چْکے مگر اب ہماری بچیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ خبر اْس وقت مین اسٹریم میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پرکمپیننگ تیز کر دی گئی۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تو یونیورسٹی انتظامیہ کے دامن کو آگ لگ گئی، پھر تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور دیگر اس مسئلے کو ترجیحی بنیاد وں پر دیکھنے لگے۔
جب ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کیا اور طلباء تنظیموں نے سخت موقف اختیار کیا تو اس بار وائس چانسلر کو سابقہ روایتی طریقے سے غلط بیانی اور معاملے کو دبانے کا موقع نہیں ملا اس لیے اس بار حق و سچائی کی جیت ہوئی۔تمام شواہد اور کالے کرتوت منظر عام پر آچْکے ہیں۔
اس سے قبل بلوچستان کی تمام طلباء تنظیمیں اور بشمول سیاسی رہنماؤں نے یونیورسٹی کے حوالے سے انہی مسائل کی نشاندہی کی تھی بلکہ مسلسل احتجاجی تحریک بھی چلائی، اسمبلی فلور تک کو کئی بار انکے ان (بیڈ اکیڈمک) کرتوتوں سے آگاہ کیا گیا مگر موصوف مسلسل ایکسٹنشن پہ ایکسٹینشن لے کرکیمپس کو تباہی تک پہنچا دیا۔ سمسٹر سسٹم متعارف کرانے کے نام پر تمام فیسوں کو سو فیصد سے زائد بڑھایا گیا اورہاسٹل فیسوں کو بھی بڑھاکر اس کوکھنڈرات میں تبدیل کیا گیا۔ سیکورٹی کے نام پر یونیورسٹی کو معاشی خسارے میں دھکیل دیا گیا۔
اپنی بدعنوانیوں کو چْھپانے کے لیے اپنے اطراف میں اپنے ہم خیال عملہ کو تعینات کیا،تمام انتظامی عہدوں پر ٹیچنگ اسٹاف کو اس لیے تعینات کیا تاکہ اسکے ہر ناجائز عمل میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ کنٹرولر اور دیگر انتظامی عہدوں پر پی ایچ ڈی بیس گریڈ کے پروفیسروں سے کلرکوں والی کام لینا اور دعویٰ یہ کرنا کہ بلوچستان یونیورسٹی ہیومن ریسورس پیدا کر رہی ہے، مضحکہ خیز ہے۔ یونیورسٹی کے اکیڈمک ماحول کوکس حد تک تباہ کیا گیا، وہ آپ کسی بھی اسٹوڈنٹس سے پوچھ سکتے ہیں۔
اگر وی سی اور اسکے ہمنواؤں سے پوچھیں گے تو وہ اتنے ماہر ہیں کہ وہ بلوچستان یونیورسٹی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے معیار سے بھی آگے پیش کر دیں گے مگر اندر کی بات تو اب نکلنا شروع ہوچکی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے گند کو منظر عام پر لانے والے طلبا تنظیموں کے موقف اور احتجاج کو کاؤنٹر کرنے، ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے اور انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کے لیے کچھ طلبا ء کو (یونینز) کے نام پر تیار کیا گیا اور انہیں لیپ ٹاپ اور اسٹڈی ٹورز اور مراعات سے نوازا گیا، لیکن ہمیں یقین ہے چیت سچ کی ہوگی۔
نیزبلوچستان اور بلوچستان سے باہر طلبا رہنماؤں کی شدید ردعمل اور منظم انداز میں طلباء تحریک کاآغاز دیکھ بحیثیت سابق طلبا سیاسی کارکن کے بہت خوشی ہوتی ہے۔ طلبا تنظیمیں متحرک اور منظم انداز میں اپنے احتجاج کو سیاسی و جمہوری انداز میں آگے لے جارہی ہیں جس میں کامیابی یقینی ہے۔