|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2019

مردآہن، امت مسلمہ کی قیادت، خودساختہ مسلمانوں کا محافظ ترک صدر طیب اردگان کیلئے دوغلاپن اور منافقت کوئی نئی بات نہیں. طیب اردگان ملک کا بارھواں صدر جو 2014 سے صدارتی کرسی پر براجمان ہیں۔ 2003 سے 2014 تک متواتر تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے۔ اردگان اپنی بنائی گئی پارٹی “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی” کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ پارٹی ترکی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، جو متواتر 13 سالوں سے ترکی پر حکومت کر رہی ہے۔

اسی سال لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں اردگان کو بڑا دھچکا لگا، دوسرے کئی شہروں کی طرح ترکی کے دارلحکومت انقرہ میں 16 سال بعد حزب اختلاف نے مئیر اور کونسلر کی سیٹیں جیتے۔ برسراقتدار پارٹی اس صدمے کو برداشت نہ کرسکی اور اس نے انقرہ میں غلط ووٹنگ اور بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر ری الیکشن کرایا جس سے جسٹس پارٹی کی ووٹوں میں مزید کمی آئی۔

رجب طیب اردگان ایک قدامت پسند رہنما اور جدید سلطنت عثمانیہ کا خواب دیکھتے ہیں اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں مگر خوابوں کا پورا ہونا دوسری بات ہے۔ جب سے اردگان ملک کے صدر بنے ہیں اس کی پالیسیاں سیکیولر کم مذہبی زیادہ ہیں۔ موصوف ملک میں مذہبی اور عثمانیہ دور کے پرانی روایات کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ ملک میں مذہب کے نام پہ ووٹ بٹورنا اور انٹرنیشنل مسلم ممالک کو مذہب کے نام پر اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کرنا تاکہ عالمی سیاست میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے ان سے ہمدردی حاصل کرسکے۔ چونکہ ترکی ایک سیکیولر ملک ہے، وہاں مکمل مذہبی آزادی ہے جس کی بنیاد کمال اتاترک نے ڈالی تھی۔

اس نے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ایک نئی سوچ کمالسٹ نظریہ کی بنیاد ڈالی، جو یہ تھا کہ ماڈرن ترکش سیکیولر نیشن ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے مغربی طرز معاشرت اختیار کریگی۔ آج ترکی کے لوگوں کا معیار زندگی تمام اسلامی ممالک سے بہتر ہے۔بہرحال ہم اپنے اصل مدعا سے ہٹ رہے ہیں چلو تھوڑا اس رحم دل مردآہن اردگان کے کار ناموں پر نظر دوڑاتے ہیں، اس خود ساختہ مسلمانوں کے محافظ کا اپنے ملک میں آمرانہ پالیسیاں، اپنے کرد مسلمانوں پر ظالمانہ رویہ، میڈیا کی آزادی پر بڑھتی ہوئی قدغن، ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ صحافی ترکی میں قید ہیں چین اور مصر دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا نے ترکی کو صحافیوں کا جیل خانہ قراردیا ہے۔

2016 کے ناکام فوجی بغاوت کے بعد اردگان حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کیا،ترکی میں ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیاگیا، ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا، یونیورسٹیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اس دوران کم ازکم ایک لاکھ افراد کو مختلف طریقوں سے سزائیں دی گئیں جس کی بڑی تعداد ٹیچر، پروفیسر، دانشور اور میڈیا والوں کی تھی۔

دوسروں کے حقوق کا رونا رونے والے اردگان خود کرد مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کو تیار نہیں۔ اردگان حکومت کردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تباہی، ہلاکتیں اور متعدد دیگر انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے۔ 2015 سے لیکر اب تک کرد اور ترک حکومت کی لڑائی میں سات ہزار کردش قوم پرستوں کی موت ہوئی ہے تین ہزار کردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کیمطابق ان جھڑپوں کے دوران دو ہزار عام شہریوں کی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ترکی پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ داعش سے تیل خریدتا ہے اور کرد جنگجوؤں کو مارنے کیلئے ان کو سپورٹ بھی کرتا ہے۔2018 میں باقاعدہ ترک فوج نے شامی سرحدی لائن کوعبورکرتے ہوئے کرد جنگجوؤں کے کیمپوں پر فضائی حملے کرنا شروع کیے اور یہ حملے آج بھی جاری ہیں۔ ترکی نے عراق کی سرحدی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرد کیمپوں پر فضائی حملے کیے اور عراق کے وزیر خارجہ نے خلاف ورزی پر ترکی سے احتجاج کیا۔ مگر ایک غنڈے کی طرح انقرہ کا جواب آیا کہ اس طرح کے حملے ہوتے رہینگے اس وقت تک جب تک دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

شام میں ترک فوج کی فضائی حملے پہلے سے جاری ہیں مگر اب اردگان نے باقاعدہ ایک جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ترک فوج اب زمینی راستے سے شمالی شام میں داخل ہو کر کردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔کرد آبادی پر حملے سے مزید ایک لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک ہفتے سے جاری ترک فوج کی جارحانہ کارروائیوں سے ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ کرد آبادی پر حملے کے نتیجے میں مزید ایک لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

ترک ملٹری نے شامی سرحدی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لیا ہے اور ترک صدر نے ایک ”سیف زون“ کا اعلان بھی کیا ہے جہاں شامی مہاجرین رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں داعش کے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں،کیونکہ سینکڑوں دہشت گرد کردوں کے جیلوں میں قید ہیں۔ اس وقت کرد شام کے اندر تین محاذوں پر لڑنے پر مجبور ہیں۔ شامی فوج، داعش اور ترک فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کرد مشرق وسطیٰ میں واحد جمہوری پسند و آزاد خیال قوم ہے۔

ایک طرف رجب طیب اردگان خود کو مغرب مخالف اور اسلام نواز ایجنڈے کے نمائندے کے طور پیش کرتے ہیں، مگر دوسری طرف وہ یورپی یونین میں شمولیت کے خواہاں ہیں، ایک طرف امریکہ دوست اور امریکہ سے ملٹری سپورٹ لیتا ہے۔دوسری طرف امریکی پالیسیوں کی مخالفت، ایک طرف نیٹو کا ممبر اور دوسری طرف ویسٹ مخالف بیانات۔ ایک طرف اسلاموفوبیا سوچ کو غلط کہتا ہے دوسری طرف کرد مسلمانوں کا جینا محال کر دیاہے۔

برما، بلغاریہ اور چین کے مسلمانوں کیلئے ہمدردی، شامی کردوں کیلئے ہٹلر، حال ہی میں ترک صدر اردگان نے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ کشمیر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے برابری اور انصاف کے بنیاد پہ حل کیا جائے، کیا آپ کے اسی فارمولے کے تحت کردستان ایشو حل نہیں کیا سکتا؟ اردگان نے اسرائیلی جارحیت اور قبضے کی مخالفت کی تھی، کیا کرد بچوں اور عورتوں پر بمبارمنٹ کردستان پر قبضہ جارحیت نہیں ہے۔ اس سے بڑا دوغلاپن اور منافقت کیا ہوسکتی ہے کہ امت مسلمہ کیلئے ہمدردی اپنوں کیلئے فرعونیت۔

اردگان کی پالیسیاں ترکی کو پیچھے دھکیلنے کے برابر ہیں کیوں کہ اردگان نے ایک ریفرینڈم کے ذریعے ترکی کی پارلیمانی حکومت کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا جس سے اردگان غیر معینہ مدت تک اپنے عہدے پر قائم رہ سکیں گے۔ اس ملک میں اردگان نے متعارف کرائے کہ مذہب کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا، جمہوریت کو کمزور، تمام بڑے میڈیا ذرائع اور قانونی نظام کو کنٹرول کرنا۔

جب یورپی یونین میں شمولیت پر جرمنی کے چانسلر انجلا ماریکل نے ترکی کی مخالفت کی جس کی بنیادی وجہ ترکی میں انسانی حقوق کی پامالی ہے، تو اردگان نے متعدد مواقعوں پر انجلا ماریکل کو نازی ذہنیت کہا۔ حالانکہ جرمنی کی %20 آبادی مہاجرین پر مشتمل ہے جو ایک کروڑ بنتی ہے اور لاکھوں لوگ بغیر جرمن شہریت کے جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ جو انسان دوستی کی سب سے بڑی مثال ہے۔

سجاد دشتی کا تعلق ڈسٹرکٹ کیچ سے ہے۔ اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی اتھل سے سیاسیات میں ایم فل کر رہے ہیں۔