|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2019

کوئٹہ:  سیاسی جماعتوں، اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن و سماجی و طلباء تنظیموں کے نمائندوں نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انتظامی افسران کو فوری طور پر برطرف کرکے طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کی شفاف تحقیقات کرائی اور بلوچستان کی روایت کے برعکس واقعات میں ملوث ملزمان کو کڑی سزا دی جائے۔

یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں پر عائد پابندی کا خاتمہ کرکے ادارے میں تعینات فورسز کی بھاری نفری کو واپس کیا جائے تاکہ طلباء بلاخوف و خطر تعلیم حاصل کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کی جلیلہ حیدر، اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ، عبدالباقی جتک، انسانی حقوق کے کارکن نصر اللہ بلوچ، شمائلہ اسماعیل، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سعدیہ بلوچ، حمیدہ علی و دیگر نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے زیر اہتمام جامعہ بلوچستان سکینڈل کیخلاف مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر مظاہرئے کے شرکا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور نعرئے بازی کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعات نے پورے سماج کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اْستاد اور طلبا کا رشتہ بہت اعلیٰ ہوتا ہے مگر یہاں بعض عناصر نے اس رشتے کی پاکیزگی پر داغ لگادیا ہے ایسے لوگ معاشرے پر کلنک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے واقعات کے منظر عام پر آنے کے باوجود گورنر بلوچستان کی جانب سے اب تک وائس چانسلر کو عہدے سے نہ ہٹانا باعث افسوس ہے گورنر بلوچستان فوری طور پر ایسے واقعات کے تدارک کیلئے سنجیدگی سے اقدامات اْٹھاتے ہوئے وائس چانسلر اور دیگر انتظامی افسران کو معطل کریں۔

اْنہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی مادر علمی ہے یہاں بلوچ، پشتون، ہزاہ سمیت صوبے میں آباد تمام اقوام کی باپردہ بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں حال ہی میں منظر عام پر آنے والے واقعات کے باعث اس مادر علمی کا نام دنیا میں غلط طریقے سے لیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ طلباء تنظیموں پر پابندی کے خلاف بل سینٹ میں منظور ہوچکا ہے تاہم حکمران اس پر عملدرآمد کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں طلباء تنظیمیں کسی بھی علمی درسگاہ میں تربیت کا ذریعہ ہوتی ہیں اور یہ لوگ بہتر انداز میں اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہیں اگر جامعہ بلوچستان میں ان پر پابندی عائد نہ ہوتی تو آج اتنے بڑے واقعات رونما نہ ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ہراساں کیے جانے کے واقعات کے متاثرین سے گواہ طلب کئے جارہے ہیں بتایا جائے کہ آیا کیا ہراساں کرنے والوں نے کسی کے سامنے انہیں ہراساں کیا تھا۔ منظر عام پر آنے والے واقعات اور کیمرے خود اس بات کی گواہی دے رہے ہیں اور یہ شواہد ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہچنانے کیلئے کافی ہیں۔

دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بات ہماری عزت کی ہو تو کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انسانی حقوق کے کارکنان پارلیمنٹرینز وائس چانسلر کے استعفے کا مطالبہ کریں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری ایک بیان میں بی این پی کے سربراہ نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی ناگوارہ ہے، یہ جاننا کہ ہماری بیٹیاں یونیورسٹی جانے پر محفوظ نہیں انتہائی اشتعال انگریز ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنے بہنوں اور بیٹیوں کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے وائس چانسلر سے متعلق ہمیں پہلے ہی شکوک و شبہات موجود تھے، انہوں نے تعلیم کی جگہ کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔

بی این پی کے سربراہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں پارلیمنٹیرینز کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا وہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کے حوالے سے بات کریں اور وائس چانسلر کے استعفے کا مطالبہ کریں۔ بلوچستان اس کے لیے مشہور نہیں برائے کرم ہماری بچیوں کی حفاظت کریں۔