|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کومبینہ طور پر ہراساں کئے جانے کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی چیئرمین کے نام پر اتفاق نہ کرسکی،معاملہ پھرسے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں زیر بحث رہا۔ جمعہ کے روز بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کومبینہ طور پر ہراساں کئے جانے کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں کمیٹی کے چیئر مین کے لیے حکومت اور اپوزیشن اراکین کے ناموں پر مشاورت کی گئی حکومت نے چیئر مین کے لئے سید احسان شاہ جبکہ اپوزیشن نے ثناء بلوچ کا نام دیا تاہم دونوں ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے سے اجلاس ملتوی کردیاگیا۔ اجلاس میں 10میں سے 8اراکین اسمبلی نے شرکت کی جبکہ کمیٹی کے اراکین میر اسد اللہ بلوچ اور دنیش کمار اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔

اجلاس میں تین گھنٹے تک چیئرمین کے انتخاب پر اراکین اسمبلی میں بحث جاری رہی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر معاملہ اسمبلی اجلاس میں زیر بحث لاتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کی تحقیقات کے لئے قائم کمیٹی کا اجلاس روزانہ کی بنیاد پر بلایا جائے تاکہ جلدا زجلد تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رکن وزیراعلیٰ کے مشیر ملک نعیم خان بازئی نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسگی واقعات کی تحقیقات کے لئے قائم کمیٹی کا اجلاس آج منعقد ہوا تاہم دو معزز اراکین کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث کمیٹی کے چیئر مین کا انتخاب نہیں ہوسکا کمیٹی کا اجلاس جلد ہی دوبارہ طلب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ والدین کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے بچیوں کو ہر ممکن انصاف فراہم کیا جائے گا بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے ہم اپنی عزت کے معاملات پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ چیئر مین کے انتخاب کے معاملے پر کمیٹی کو متنازعہ نہ کیا جائے ہمیں بچیوں کو انصاف دلانا ہے اور یہ تب ممکن ہے جب معاملے کی صاف اور شفاف تحقیقات ہوں گی آج کے اجلاس میں 8اراکین موجود تھے دو اراکین کی عدم موجودگی کے باعث ہم آگے نہ بڑھ سکے یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش پذیر بچیوں نے ہاسٹلز چھوڑ دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم ایک چیئرمین کا انتخاب نہیں کرسکتے تو پھر یہ کمیٹی ہی ختم کردینی چاہئے۔ بی اے پی کی بشریٰ رند نے کہا کہ کمیٹی میں خواتین ارکان کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ خواتین اراکین بچیوں سے مل کر اصل صورتحال سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ آج کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے چار چار اراکین موجود تھے مشاورت سے کوئی بھی رکن چیئر مین بن سکتا تھا تاہم چیئر مین شپ کے لئے اجلاس کو طول دیا گیا۔

اس معاملے کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے اگر حکومتی کمیٹی نے تحقیقات کرنی ہوتیں تو حکومت کی کمیٹی کو قائم ہوئے ایک مہینہ ہوچکا ہے اب تک رپورٹ کیوں نہیں آئی یہ رپورٹ منظرعام پر آنی چاہئے۔ صوبائی وزیر قانون میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ اتنے بڑے سانحہ پر ہم سب شرمندگی محسوس کررہے ہیں ا سپیکر بلوچستان اسمبلی نے جو کمیٹی معاملے کی تحقیقات کے لئے بنائی ہے اس کے آج ہونے والے اجلاس میں ہمارے دو دوست موجود نہیں تھے کمیٹی میں سب کی نمائندگی ضروری تھی جلد ہی اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ساری زندگی سیاست کرنی ہے یہ ایک اہم معاملہ ہے اس پر سیاست نہ کی جائے تو اچھا ہے اس عمل میں جوبھی لوگ ملوث ہیں انہیں سزا دی جائے گی۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچ اور پشتون قبائلی روایات کے حامل صوبے میں ایسے واقعات کا رونما ہونا باعث شرمندگی ہے پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کام شروع کرنا چاہئے ایف آئی اے پہلے سے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے کمیٹی ان کے ساتھ رابطے میں رہ کر ان کی بنائی گئی رپورٹ کا جائزہ لے۔

انہوں نے کہا کہ 25سے29 تاریخ تک معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے موجودہ سیٹ اپ کو ہٹا دینا چاہئے انہیں عہدوں پر نہیں رہنا چاہئے۔بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ کمیٹی کااجلاس دوبارہ طلب کیا جائے اگر کمیٹی کو صرف سیاہ دھبوں کو سفید کرنے تک محدود رکھا جائے گا تو ہم ایسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے یہ ہماری عزتوں، غیرتوں اور روایات کا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چیزوں سے اچھی طرح واقف ہیں اپوزیشن کو لیڈ کرنے دیا جائے۔صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ کمیٹی سب سے پہلے وائس چانسلر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرے موجودہ وی سی کو ایک منٹ بھی مزید اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہنا چاہئے انہیں فوراً ہٹادینا چاہئے اس ایوان میں بیٹھے لوگ عوام کے نمائندے ہیں انہیں چیئرمین شپ کے لئے لڑنا نہیں چاہئے ایسی تحقیقات ہونی چاہئیں جس سے طالبات کے والدین مطمئن ہوں۔

نصراللہ زیرئے نے کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات کے لئے وائس چانسلر کو ہٹایا جائے اور جس جس کے نام آرہے ہیں ان سب کو ہٹادیا جائے۔