|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2019

جامعہ بلوچستان کے اسکینڈل کیخلاف اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سے لیکر بلوچستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں بیک وقت اس بات پر شدت کیساتھ آواز بلند کر رہی ہیں کہ اس گھناؤنے اسکینڈل کی صاف وشفاف تحقیقات کرانے اور اس میں ملوث مکروہ چہروں کو سامنے لانے کیلئے فوری طورپر وائس چانسلر کو اس کے عہدے سے برطرف کیا جائے تاکہ تحقیقاتی عمل میں کسی قسم کادباؤ یا رکاوٹ نہ ڈالا جاسکے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول طلباء تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں کہ وائس چانسلر کو برطرف کیا جائے لیکن موصوف کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ بد ستور اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔

اس پر طرہ یہ کہ ان کے اور ان کے ترجمان کے بیانات سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ ترجمان کے ذریعے موصوف سیاسی جماعتوں کو نہ صرف ”ٹھینگا“ دکھا رہے ہیں بلکہ اس کی اپنے عہدے پر تاحال موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف کو اتنے بڑے اسیکنڈل کے رونما ہونے پر نہ تو کوئی پریشانی ہے اور نہ ہی وہ کسی کو خاطر میں لارہے ہیں بلکہ موصوف کے ترجمان کے مطابق کچھ عناصر احتجاج کی آڑ میں جامعہ بلوچستان کی تعلیمی سرگرمیوں پر اثرانداز ہونے اور اسے پستی کی جانب دھکیلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں۔

بقول ترجمان یہ سیاسی جماعتیں اس واقعہ کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے پسند ناپسند کی بناء پرمختلف الزامات لگارہی ہیں جس کے باعث یونیورسٹی غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء وطالبات کی تعلیمی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔تو کر لو بات،یہ تو سراسر دیدہ دلیری کی بات ہے اور ترجمان کے بیان سے صاف عیاں ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے اسکینڈل کے باوجود نہ تو کسی بڑے کو کلیدی عہدے سے ہٹایا جارہا ہے گرفتاری تو دور کی بات ہے۔

اب تک جن افراد کے واضح ملوث ہونے کی باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آچکی ہیں جن کے بارے میں غالباً ایف آئی آرتک درج کرنے کی بات بھی سامنے آئی ہے اس بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں لائی جارہی کہ تحقیقات کس بنیاد پر ہو رہی ہیں اور کن ملوث افراد کے بارے میں ہو رہی ہے اور انہیں واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں فوری طور پر اقدامات کر کے ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے تاکہ شفاف تحقیقات کا عمل مکمل ہو سکے۔

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انتظامیہ کواس اسکینڈل سے نہ تو پریشانی کا سامنا ہے اور نہ ہی مستقبل میں انہیں کوئی پریشانی لاحق ہوسکتی ہے بقول طلباء تنظیموں کے کہ وائس چانسلر کو بچانے کیلئے نادیدہ قوتیں سرگرم ہو چکی ہیں اور ہر حال میں وائس چانسلر کو محفوظ راستہ دینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کی طلباء ایجوکیشنل الائنس مذمت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس اسکینڈل کے ذمہ دار ہی وائس چانسلر ہیں اور یونیورسٹی میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران جو بھی بے قاعدگیاں، میرٹ کی خلاف ورزی، اقرباء پروری، غیر قانونی تعیناتیاں اور کرپشن ہوئی ہے اور یونین کے نام پر جس طرح بلیک میلنگ اور جنسی ہراسگی کا ماحول بنایا گیا ہے اس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے۔

کیونکہ بلوچستان کے طول وعرض میں اس کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکال کر عوام نے جس طرح اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور ان کامطالبہ ہے کہ وائس چانسلر کو برطرف کیا جائے لیکن موصوف کی ہٹ دھرمی انتہا کو پہنچ ہوئی ہے انہوں نے گورنر بلوچستان کے روئیے پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وائس چانسلر کو برطرف کرنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں کوتلقین کر رہے ہیں کہ وہ بیانات دینے سے گریز کریں جو کہ اس صوبے کے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بارپھر طلباء تنظیموں پر دباؤ ڈالتے ہوئے یونیورسٹی کے داخلی دروازوں پرانہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ طلباء وطالبات کے جائز اور قانونی احتجاج کو ختم کیا جاسکے بقول طلباء تنظیموں کے اب تو ایف آئی اے پر دباؤ بھی بڑھا دیا گیا ہے کہ وہ تحقیقات میں تیزی نہ لائے۔

سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہے لیکن وائس چانسلر کو بچانے کی اب بھی کوششیں جاری ہیں مقررین نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیر کے روز 10بجے بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیاجائیگا اور احتجاج کو منظم کر کے جمہوری انداز میں آگے بڑھایا جائیگا۔ان حالات کو دیکھ کر صاف نظر آرہا ہے کہ وائس چانسلر نہ تو طلباء تنظیموں کے احتجاج سے اور نہ ہی بلوچستان صوبائی اسمبلی کے معزز اراکین اسمبلی کی جانب سے حالیہ اجلاس کے دوران اس پر آواز بلند کرنے سے پریشان ہیں انہیں جن قوتوں نے مسلسل چھ سال سے اس کرسی پر براجمان رکھا ہے وہ انہیں مستقبل میں بھی براجمان رکھناچاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سروس رولز کے مطابق وہ اپنی تعیناتی مدت کب کے مکمل کر چکے ہیں لیکن انہیں رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل اس عہدے کے لیے لازم سمجھاجارہا ہے یہی اس کے ”طاقتور“ ہونے کی بڑی دلیل ہے۔

انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کو ایک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے کم اور ایک بیرک کے طور پر زیادہ پہچان دی ہے۔ انہوں نے طلباء تنظیموں کے احتجاج کو اس سے قبل بھی اپنی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے ناکام کیا ہے اور اب بھی طلباء تنظیموں کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں کے شوروغونما کو خاطر میں نہیں لارہے اور کوئی آثاربھی نظر نہیں آرہے کہ اسے کوئی گزند پہنچے گا یاپہنچنے دیا جائیگا۔