کوئٹہ : ایرانی پیٹرول کے کاروبار پر پابندی کے بعد بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہزاروں با روزگار افراد بے روزگار بن گئے،اور ان کی بے روزگار بننے سے ہزاروں خاندانوں کے گھر کے چولہے بج گئے،با عزت روزگار کے موقع بند ہونے کے بعد ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں بیک مانگے یا پھر چوریاں شروع کریں بے روزگار ہونے والے نوجوانوں کا اظہار۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں قلات کے قریب ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں کمشنر مکران ڈویڑن طارق زہری سمیت چار افراد شہید ہو گئے تھے اس کے بعد چیف سیکرٹری بلوچستان نے ایرانی پیٹرول کی نکل و عمل پر مکمل پابندی لگا دی جس پر تمام اضلاع میں عمل درآمدشروع ہوا دوسری جانب بلوچستان کے مختلف اضلاع نوشکی،خضدار،قلات،لسبیلہ،آواران،خاران،واشک،چاغی،مستونگ،تربت،پنجگور سمیت سبی، نصیر آباد،اور دیگر اضلاع سے ہزاروں نوجوان کا روزگار ایرانی تیل پر منحصر ہیں۔
ایک ہی حکم نامہ نے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار سے بے روزگار کر دیا جبکہ معاشی طور پر بد حال بلوچستان کے عوام کو بھی سستی پیٹرول میسر ہونے کے دورازے بند ہو گئے بلوچستان میں صنعتیں اور پرائیوٹ سیکٹر میں ملازمت کے زرائع محدود ہیں اور گورنمنٹ کے سطح پر ملازمتوں کا حصول محال اس صورتحال میں ہزاروں نوجوانوں کے بے روزگار ہونے سے ہزاروں گھروں کے چولہے بج گئے ہیں۔
اس حوالے سے ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے منسلک ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ اس کاروبار سے ہزاروں ایسے نوجوان بھی منسلک ہے جن کے پاس ایم اے،ایم ایس سی لیول کے ڈگریاں بھی ہیں مگر گورنمنٹ ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے یہ سب ایرانی پیٹرول کی کاروبار سے منسلک ہیں اور یہ روزگار ان کی مجبوری ہیں پیشہ نہیں جب حکومت ملازمت دینے میں نا کام ہیں،پرائیوٹ سیکٹر میں ملازمت کی اسامیاں خالی نہیں تو ہم کیا کریں۔
بے روزگار ہونے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں بھیک مانگنا شروع کریں یا پھر چوری چکاری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں حادثات قدرت کی جانب سے ہوتے ہیں کون چاہتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر حادثات کا شکار ہو کر کباب بن جائیں جہاں ہمارے ہر دالعزیز کمشنر طارق زہری کی جانب کی اہمیت ہے وہی اس ڈرائیور کی بھی جانب کی اہمیت ہے جو خود بھی کباب ہوا۔
اگر حکومت پیٹرول کا کاروبار بند کرنا چاہتی ہے بلے کریں مگر ان ہزاروں نوجوانوں کے پہلے ملازمت فراہم کریں تھا کہ ان کا چولہا جلے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہزاروں نوجوانوں کو بے روزگار کرنے کے بجائے کوئی اور طریقہ اپنائیں جس سے ان غریب ڈرائیوروں کا چولہا بھی جلے اور حادثات کی روک تھا م میں بھی مدد حاصل ہو واضح رہے اس وقت بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کا روزگار پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے منسلک ہے۔
پیٹرول کی نکل و عمل پر پابندی سے اس کے برے اثرات معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور اس کے ردعمل میں جو نقصان ہو گا وہ بیانک ہو سکتا ہے علاوہ ازیں گزشتہ روز سے لگنے والی پابندی کے بعد لیویز کے چیک پوسٹوں پر تمام گاڑیاں روک لی گئی ہیں اور لیویز والوں کی چاندی لگ گئی مختلف طریقوں سے ڈرائیوروں سے مک مکا کرنے کی کوشش کر کے لاکھوں روپے بٹورنا شروع کر دیا ہے۔