صوبو ں کو با اختیار بنانے سے پہلے اور صوبوں کو با اختیار بنانے کے بعد دونوں صورتوں میں کچھ محکمے وفاق کے پاس ہیں،ان محکموں کے فنڈز اور دیگر تمام اختیارات کا مالک وفاق ہے اور وفاق کی حیثیت ایک ماں کی سی ہوتی ہے مگر افسوس ماں کا رویہ بعض معاملات میں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا ہے،این ایچ اے ہو یا کہ سوئی سدرن گیس یہ دونوں محکمے وفاق کے کنٹرول میں ہیں اور بد قسمتی کہہں یا خوش قسمتی کہ سوئی گیس بلوچستان سے نکلتی ہے اور ابتدائی طو رپر ملک کے گیس کی ضروریات اسی گیس سے پوری کی جا رہی تھیں،
جب سی این جی گیس کی قیمتیں کم تھیں،پورے ملک میں سی این جی پمپس تھے جبکہ بلوچستان کے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سی این جی سے گاڑیاں بھی چلتی ہیں؟وقت گزرتا گیا سوئی سے نکلنے والی گیس کے خزانے خالی ہوتے جا رہے تھے بڑی مشکلوں سے کوئٹہ تک بعد میں زیارت اور قلات تک یہ گیس پہنچ گئی جبکہ دوسری جانب ملک کے دیگر صوبوں میں گھریلو استعما ل تواپنی جگہ فیکٹریاں بھی اسی گیس سے چل رہی ہیں۔
ضلع خضدار آبادی کے اعتبار سے بلوچستان کا تیسرا اور اہمیت کے اعتبار سے دوسرا بڑا ضلع،خضدارکی ایک جانب مکران،دوسری جانب بیلہ،تیسری جانب کوئٹہ جبکہ چوتھی جانب اندرون سندھ کے راستے خضدار سے آکر ملتے ہیں،اس کے علاقہ دو فوجی چھاؤنیاں جن میں جناح کینٹ اور خضدار کینٹ شامل ہیں،سی پیک کا بھی ایک راستہ گوادر سے بیسمہ،خضدار،رتو دیرو،سکھر موٹروے سے جا ملتی ہے اتنی اہمیت کے عامل شہر کے باسی آج بھی گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔
ایک نہیں متعدد وزیر اعظم صاحبان نے خضدار شہر کے لئے سوئی گیس اور ایک دونے ایل پی جی پلانٹ فراہم کرنے کے اعلانات کئے مگر ان کے یہ اعلانات صرف اعلانات تک محدود رہے اور خضدار کے لوگ آج بھی گیس کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اپنے قیمتی جنگلات کو کاٹ کاٹ کر اپنے چولہے جلانے والے خضدار کے لوگ آج بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں گیس کی سہولت دی جائے، ان کا یہ مطالبہ صوبے سے نہیں بلکہ اس وفاق سے ہے جس کی حیثیت ایک ماں کی سی ہے چیخ چیخ کر اہل خضدار کے گلے خشک ہو گئے، لکڑیاں جلا جلا کر خضدار کے جنگلات ختم کر دئیے گئے،مگر گیس کی سہولت خضدار کے لوگوں کو نصیب نہیں ہوئی۔
چیخ و پکار کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے جبکہ وفاق مکمل طور پر سرد مہری دکھا رہی ہے۔ ایسی محرومیاں ذہنوں میں سوالات جنم دیتی ہیں جو دوریاں پیدا کرتی ہیں وفاق کو سوچنا چائیے کہ چاروں صوبے ایک گلدستے کی مانند ہیں ان گل دستوں میں ایک گلدستہ بلوچستان ہے اس گلدستہ کو نظر انداز نہ کریں۔
قومی شاہراؤں اور موٹرویز کا مشاہد ہ اگر کسی کو کرنا ہے تو وہ پنجاب،سندھ اور خبرپختوانخواء کے موٹرویز،کراچی ٹو حیدر آباد،سکھر ٹو ملتان،،ملتا ن ٹو لاہور،فیصل آباد،اسلام آباد،پشاور سوات تک کا مشاہدہ کریں بلوچستان میں ایک شاہراہ کو موٹروے کا نام دیا گیا ہے ایم 8 رتودیرو ٹو گوادر یہ دنیا کا شاید آٹھواں عجوبہ ہے،نام موٹروے کا اور روڈ سنگل؟اس موٹروے پر اتنے بڑے گھڑے بن گئے ہیں کہ اب چھوٹی گاڑیوں کا یہاں سے گزرنا مشکل ہو رہا ہے۔
سی پیک کے پیسوں سے تو 392 کلو میٹر موٹروے ملتان سے سکھر تو بنا یا جاسکتا ہے مگر کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ڈبل کرنے کے لئے وفاق کے پاس پیسے نہیں،کیوں؟بلوچستان اپنی معدنیات سے ملکی خزانے کو بھر رہا ہے،بلوچستان اپنی ساحل سے ملک کی معاشی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے اور کرنا بھی چائیے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان جتنا پنجاب،سندھ،خیر پختوانخواء کے لوگوں کا ہے اتنا بلوچستان کے لوگوں کا بھی ہے مگر وفاق کی جانب سے چاروں صوبوں کو ایک نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔
کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کا نام اب N25 سے تبدیل کر کے خونی شاہراہ رکھا جائے کیونکہ اس قومی شاہراہ پر روزانہ حادثات ہو رہے ہیں اور روزانہ لوگ مر رہے ہیں مگر وفاقی حکومت اور این ایچ اے والے ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور اب تو کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری صاحب کی زندگی بھی اس سنگل روڈ کی نظر ہو گئی اور ردعمل میں ایرانی پیٹرو ل کی نقل و عمل پر پابندی لگا دی گئی۔ ارے بھائی درد کی ہمیشہ کوئی وجہ ہوتی ہے درد کو ختم کرنے کے لئے صرف پین کلر ادویات پر گزارا کرنا خود کشی کے مترادف ہے پیٹرول سمگلنگ کرنے والی گاڑیوں پر ہزار پار پابندی لگائیں مگر اصل وجہ ٹریفک کا دباؤ اور سنگل روڈ ہی ہے جس سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔
جس طرح خضدار کے لیے گیس فراہمی کے متعدد اعلانا ت کئے گئے مگر سالوں گزر گئے کوئی عمل نہیں ہوا اسی طرح کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ڈبل کرنے کا چرچا بھی رہا، اسمبلی میں بھی اعلانات ہوئے مگر عملی طور پر اب بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چائیے کہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ڈبل کرنے کے لئے عملی کام کا آغاز کریں خضدار ٹو رتو ڈیرو موٹروے (ایم 8) کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیں، ٹھیکیدار،این ایچ اے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور معائینہ کے لئے آنے والے این ایچ اے کے گورننگ باڈی کے متعلقہ ممبر سے باز پرس کی جائے کہ ان کے سامنے کیسے قوم کے اربوں روپے ناقص تعمیر کی نظر ہو گئے،جب تک ایسے پراجیکٹس میں کرپشن کرنیو الوں کے خلافa سخت کاروائی نہیں کی جائے گی یہ عناصر اسی طرح قومی سرمایہ کا نقصان کرتے رہیں گے۔