|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2019

کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پالیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا ہے کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کے معاملات میں مداخلت ہورہی ہے، کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کافیصلہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔

ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے کیلئے صوبوں اور تمام قوموں کے اختیار کو تسلیم کیا جائے، آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے، ملک کے مسائل کا حل قومی اداروں کی خود مختاری،پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام میں ہے، موجودہ کیفیت میں سمجھ نہیں آتی کہ ملک میں مارشل لاء ہے یا جمہوری حکومت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پارٹی کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کے اعلان کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مابت کاکا، مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل صاحب خان کاکڑ، مرکزی نائب صدر ملک عثمان خان اچکزئی، مرکزی جوائنٹ سیکرٹری رشید خان ناصر، عبدالرشکور کاکڑ، عبدالمالک پانیزئی، عبدالباری آغا، ہدایت اللہ، جمال الدین رشتیا اور پشتون ایس ایف کے صوبائی آرگنائزر عالمگیر خان مندوخیل سمیت اے این پی، نیشنل یوتھ، پشتون ایس ایف اور پشتون لائرز فورم کے عہدیدار بھی موجود تھے۔

اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور چالیس سالہ پرانی روش کی وجہ سے ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے، داخلی و خارجی حوالے سے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے ایک دوسرے پر اعتماد کے فقدان کرپشن، دہشت، گردی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے، ملک میں اس وقت ایک عجیب کیفیت ہے سمجھ نہیں آتا کہ ملک میں مارشل لاء ہے یا جمہوری حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا، صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای جیسے دوستوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں صرف ایران نے کسی حد تک بات کی مگر ہم سعودی عرب کی وجہ سے اس سے بھی دور ہیں، عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں، ڈالر کی اڑان اونچی ہے روپے کی قدر گر رہی ہے، خدشہ ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کے معاملات میں مداخلت ہورہی ہے، بلوچستان کے معاملات کے بارے میں ہم سے پوچھا تک نہیں جاتا، کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کافیصلہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صوبوں اور تمام قوموں کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک صحیح ڈگر پر نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شفاف جمہوریت تمام اداروں کی اپنے معاملات میں آزاد پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنائے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مختلف آپریشن کئے گئے مگر صورتحال اب بھی تسلی بخش نہیں جس صورتحال سے چند سال قبل صوبہ پختونخوا گزرا آج کم و بیش بلوچستان میں ہے مسلسل دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں سانحہ اے پی سی کے بعد سیاسی قیادت اور تمام اسٹیک ہولڈرز نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوئے تھے مگر اس پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے سے سوالات جنم لے رہے ہیں، دہشت گردی سے آج ملک کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو افغانستان سے نہ جوڑا جائے، بڑے صوبے کے بعض ذمہ داروں کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو افغانستان سے جوڑنا سمجھ سے بالاتر ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے ایک بھی سرحد پر عمل ہو تو اس کا فائدہ ملک کو ہے، افغانستان کی تباہی میں خطے سمیت پوری دنیا کے ملکوں کا کردار رہا ہے افغانستان میں امن کیلئے بھی سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نوے فیصد علاقے میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری لیویز کے پاس ہے اور ان علاقوں میں جرائم پولیس ایریا سے انتہائی کم ہیں، جس دن لیویز ایریا کو پولیس میں تبدیل کیا گیا اس روز ہماری پارٹی کے مرکزی انتخابات کی وجہ سے ہمارے دونوں وزراء صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شریک نہ ہوسکے تاہم کوئٹہ واپسی پر ہم نے حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود لیویز کو ختم کرنے کے حوالے سے عدالت میں پٹیشن لگا دی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ لیویز کو ختم کرنے کی بجائے اسے جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں پبلک سروس کمیشن کے بل کے حوالے سے بھی غورکیا گیا ہمارا موقف ہے کہ اس سے قبل کوئٹہ اور پشین کو دو، دو ڈویڑنز میں تقسیم اور نئے اضلاع کا قیام عمل میں لایا جائے خود وزیر اعلیٰ بھی اعلان کرچکے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ دنوں کمشنر مکران ڈویڑن کے حادثاتی انتقال پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پورے بلوچ علاقوں میں تیل کا کاروبار اور پاک افغان سرحد پر جاری کاروبار کے سوا روزگار کے ذرائع نہیں تیل کے کاروبار کو ختم کرنے کی بجائے سڑکوں کو دو رویہ کیا جائے، سی پیک کے معاہدوں کے تحت بلوچستان میں عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے صوبے کی تمام قومی شاہراہوں کو موٹر وے کی طرز پر تعمیر کیا جائے۔

انہوں نے دکی میں اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے پرامن تاجروں پر فائرنگ اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے ان کے فوری تبادلے اور تمام ذمہ داروں کو معطل کرکے واقعے کی تحقیقات کی جائے۔ انہوں نے گزشتہ روز قلعہ عبداللہ میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے گھروں کی تلاشی لینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات سے عدم اعتماد کی فضاء پھیل سکتی ہے سیکورٹی فورسز کہیں پر بھی امن وامان کے قیام کیلئے طریقہ کار کے مطابق کام کریں۔

انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ اس پر ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی بات چیت ہوئی وائس چانسلر کا اپنے عہدے سے دستبردار ہونا مسئلے کا حل نہیں اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور اس میں یونیورسٹی کے اندر اور باہر جو بھی ذمہ دار ہیں ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے ہم نے ماضی میں بھی بلوچستان یونیورسٹی کی صورتحال پر آواز اٹھائی تھی یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ کا مکمل سیٹ اپ سابق دور حکومت کا ہے ہم حقیقی تعلیمی ماحول کے حامی ہیں مگر طلباء یونین پر پابندیاں اور ان کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھ کر ان کو محدود کرنا درست اقدام نہیں، یونیورسٹی کے معاملات میں جو بھی ملوث ہیں ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔

انہوں نے کہا اے این پی صوبائی قیادت آج گیارہ بجے بلوچستان یونیورسٹی جاکر طلباء و طالبات سے ملاقات کرے گی ہم طلباء وطالبات اور ان کے والدین کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ حوصلہ رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 نومبر کو چمن میں جیلانی خان شہید کی نویں برسی پر چمن میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے جس میں پارٹی کے مرکزی رہنماء ایمل ولی خان خصوصی طور پر شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کی ہماری جماعت نے مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے 25 اکتوبر کو تھنک ٹینک کے اجلاس میں اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔