|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2019

کوئٹہ :  پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے چیئر مین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کسی ایک جماعت نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا مارچ ہے،پاکستا ن واحد ملک ہے جہاں لیڈر ایجادکر نے کے تجربے ہورہے ہیں، موجودہ حکومت کی وجہ سے پاکستان دن بدن مشکل میں پھنس رہا ہے عمران خان میرے دوست رہے ہیں اگر وہ استعفیٰ دے دیں تو اس میں کونسی بری بات ہے، اگر آئین کی بالادستی،ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے،نئے انتخابات کی گارنٹی دے دی جائے میں مولانا فضل الرحمن کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں مولانا کو بیٹھانا اور ٹائر کو پنجر کرنا میری ذمہ داری ہے۔

سینیٹ انتخابات اور چیئر مین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران جو کچھ ہوا وہ ملک کے لئے باعث شرمندگی ہے، جا معہ بلوچستان سمیت صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں ہراسگی کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا جائے اور یہ اداروں کے ذریعے ہونی چاہیے،نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے سپریم کورٹ اس پر ازخود نوٹس لے اگر انہیں بیرون ملک بھی بھیجنا پڑے تو جا نے دیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق صوبائی وزراعبدالرحیم زیاتوال، ڈاکٹر حامد اچکزئی،سابق میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ خان، سابق رکن قومی اسمبلی عبدالقہارودان اور نصراللہ زیرئے سمیت دیگر بھی موجود تھے۔محمود خا ن اچکزئی نے کہا کہ آزادی مارچ صرف جمعیت علماء اسلام نہیں سب پارٹیوں کا ہے ہم حکومت کے مخالف نہیں لیکن جس انداز میں ہماری حکومت گرائی گئی جو کچھ ہوا اس پر دکھ ہے ہم آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کررہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے ہمت کی یہ آواز پنجاب سے اٹھنی چاہیے تھی موجودہ حکومت کو جانا چاہیے عمران خان شریف آدمی ہیں میرے دوست رہے ہیں اس میں کونسی بری بات ہے کہ اگر وہ استعفیٰ دے دیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ نہ ہو کہ استعفیٰ دو اور پھر ٹھپہ بازی ہو اگر غیر جانب دار الیکشن ہوں تو لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ ہار بھی جائیں تو ہم تسلیم کرلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ضمانت دی جائے کہ آئین کی بالادستی، ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے اور نئے انتخابات آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدار ہوں گے تو میں مولانا فضل الرحمن کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں لیکن جو بھی غیر آئینی عمل ہوگا ہم اسکے سامنے کھڑے ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ پارٹی کو کہہ دیا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ میں حصہ لینا ہے میں اس میں خود شامل ہون گا تمام اضلاع کو ہدایت کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ایک بھگدڑ مچی ہوئی ہے ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر باتیں کر نے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ یہ سلسلہ روک دیں اور جو نہیں رکے گا وہ پارٹی میں بھی نہیں رہے گا پھر کسی کا کوئی گلہ نہیں ہوگا انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کے کارکن اپنے جمہوری حقوق کے لئے تیار رہیں ہم نے اپنے اصولوں پر کبھی سودا کیا اورآئین کی بالادستی پر کیا ہے۔

ا نہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جس انداز میں بنائی گئی اور جس طرح بلوچستان میں مخلوط حکومت کو گرایا گیا پیسے بانٹے گئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں منڈی لگائی گئی ہمیں یہ کسی صورت قبول نہیں اس کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں ہم نہ لڑیں گے نہ گالی دیں گے۔سینیٹ کے انتخابات اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں جو کچھ ہوا وہ ملک کے لئے شرمندگی کا باعث ہے، ایک طرف نیب کو لوگوں کے پیچھے لگایا جارہا ہے اور پھر ایک ایک آدمی کا ووٹ خریدا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ریاست اور ایک حکومت ہوتی ہے ریاست مقدم ہے ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ ریاست اور اسکے اداروں کا دفاع کرے جبکہ حکومت کچھ اور ہوتی ہے جس پر تنقید کرنا ہر شہری کا حق ہے مگر اس وقت ملک میں حکومت اور ریاست کوآپس میں ملادیا گیا احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست چلانے کی ذمہ داری ریاستی اداروں کی ہوتی ہے ہر ادارے کو اسکی ضرورت کے مطابق اختیارات ہیں اورریاست چلانے کے لئے آئین ہوتا ہے جو محض ایک کاغذ کاٹکرا نہیں ہوتاہے اس میں ہر ادارے کے لئے فریم ورک بنایاگیا ہے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ ا س بات پر نظر رکھے کہ کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز تونہیں کر رہا اگر ایسا ہو انہیں روکنا ریاست بچانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بالادست ہوتا ہے اگر جو کو مزید بہتر سہولیات کی فراہمی کے لئے آئین میں ترمیم کرتاہے لیکن بدقسمتی سے لوگ ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے، عدلیہ، فوج پارلیمنٹ سب کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے جو بھی ادارہ اپنے دائرے سے نکلے گا اسے روکنے کے لئے عوام کو نکلنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخواء ملی عوامی پارٹی ا ن اکابرین کی جماعت ہے جنہوں نے اپنے حقوق اور جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں۔

جیلیں کاٹیں لیکن کبھی کسی سے کوئی گلہ نہین کیا اور نہ ہی کسی پر کوئی احسان جتلایا پشتونخواء ملی عوامی پارٹی نے ہمیشہ نتائج کی پراہ کئے بغیر حقوق اور آئین کی بالادستی،جمہوریت کی آواز بلند کی ہے قیام پاکستان کے وقت بھی ہمارے اکابرین نے محمد علی جناح، لیاقت علی خان و دیگر کو خطوط لکھے کہ ملک میں حقوق دیئے،مذہبی روادری کا راستہ اپنائیں ہم نے کبھی پاکستان مردہ باد نہیں کہا نہ ہم نے صبر کا دامن چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں بچوں کو کرپٹ کیا جاتا ہے پیسے دیکر وفاداریاں خریدی جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو انگریز سے لیکر عمران خان ہر حکومت میں اقتدار میں رہے ملک کو چلانے کے لئے عوام پر بھروسہ کرنا ہوگا ملک انتہائی خطر ناک حالات میں ہے عدلیہ صورتحال کا ازخود نوٹس لیاورگول میز کانفرنس بلائی جائے جس میں فوج، عدلیہ، ٹیکنو کریٹ، صحافی،سیاسی کارکن، این جی او، دانش وروں سمیت تمام اداروں کے لوگ شامل ہوں کانفرنس میں اس بات پر غور کیا جائے ہم کہاں جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ آئینی حدود میں رہتے ہیں ان کو سراہتے ہیں اور جو آئین کے دائرے سے نکلتے ہیں ان سے ہماری ناراضگی ہے اداروں سے گزارش ہے کہ پاکستان کے ان بچوں، سیاسی رہنماؤں، ججوں، صحافیوں کا احترام کریں جو آپکو نہ کرتے ہیں یہ لوگ قابل قدر ہیں ہاں کرنے والوں کے بجائے اپنے بچوں کے جذبہ حریت کو پالا جائے ہاں کرنے والے ملک نہیں چلا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستا ن مین ہم سے زیادہ غربت ہے یہاں سے زیادہ قومیں ہیں اور اب وہاں مذہبی انتہا پسندی بڑھ گئی ہے لیکن وہ ایک راستے پر چل پڑے ہیں لیکن ہم پیچھے جارہے ہیں ہمیں اپنے عوام پر بھروسہ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں لیڈر ایجاد کرنے کے لئے تجربے ہورہے ہیں اب تجربات ختم ہونے چاہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں لوگ سزائیں بھی بھگت رہے ہیں لیکن میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، اس وقت پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر میاں نواز شریف اور انکی بیٹی نہ جانے کس گناہ میں جیل میں ہیں۔

سپریم کورٹ میاں نواز شریف کی خراب صحت کا از خود نوٹس لے اور ضرورت پڑے تو انہیں بیرون ملک بھی بھیجا جائے نواز شریف اگر بھاگنے والے ہوتے تو وہ سزا کے بعد اپنی بیمار بیوی کو چھوڑ بیٹی کے ساتھ یہاں نہیں آتے، ہمیں پنجاب کے عوام سے گلہ ہے وہ کب نکلیں گے، کیا نیب، شوگر مل وغیر محض باتیں ہیں اصل محرکا ت کچھ اور ہیں ایسے پاکستان نہیں چل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے کھلے عام کہا ہے کہ نواز شریف اگر اپنے ایک ساتھی کی بات مان لیتے تو آج وہ چوتھی بار وزیراعظم بنتے کیا یہ سارا ڈرامہ اور نواز شریف کو جیل میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ ماتحت پوزیشن پر ہوں اور انہیں کسی فیصلے کا اختیار نہ ہو، اگر کوئی بھی اس بات کو تسلیم کریگا پشتونخوامیپ اسکا ساتھ نہیں دیگی،ہمارا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، آئین بالادست ہو۔

انہوں نے یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا س پر ہاتھ اس لئے ہاتھ ہلکا رکھا کہ یہ تاثر نہ جائے کہ پشتونخوامیپ آزادی مارچ کو سبو تاڑ کرنا چاہتی ہے میں چاہتا تھا کہ اس معاملے میں مثبت انداز میں ردعمل کا اظہار کروں یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں ہراسگی ناقابل معافی ہے میں اس معاملے میں کم از کم دو تنظیموں پی ایس اور اور بی ایس او سے خفا ء ہوں جن کے ہزاروں کارکن انقلابی نعرے تو لگاتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہاں بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ یہ تماشا ہورہا ہے اور وہ بیٹھے رہے اب بھی مجے یہ خوف اور خدشہ ہے کہ اس معاملے دفن کیا جارہا لیکن ہم اسے دفن نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ لسبیلہ سے چمن، چمن سے موسیٰ خیل تک ہر جگہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے جس میں اچھی شہرت کے حامل مرد اور خواتین شامل ہوں تاکہ کمیشن کے سامنے بچے، بچیاں بات کرسکیں ایف آئی اے میں بھی عورتیں اور مرد بھی ہیں ہر ایک سے انکوائری ہونی چاہیے، وومن یونیورسٹی، گرلز کالج سمیت تمام اداروں میں آزادنہ تحقیقات ہونی چاہیے ایسے شواہد ہیں کہ ایمبولنس آئی لیکن وہ اسپتال کے بجائے کہیں اور گئی پاکستان کی ایجنسیاں قابل ہیں۔

وہ اس معاملے کی تحقیقات کرسکتی ہیں معاملے کی تحقیقات کرائی جائے غلطی قابل معافی ہوتی ہے لیکن مستقبل بداخلاق بدکردار افراد کو کسی ادارے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ایک سوال انہوں نے کہا کہ 126دن کے دھرنے کے جمہوری عمل سے اختلاف نہیں کیا تھا لیکن ایسا کرنے والوں کوکسی نے اکسایا تھا مختلف اداروں کے40ہزار مسلح لوگ دھرنے کے اردگر کھڑے رہتے تھے ڈی ایس پی رینک کے افسر تک کو مارا پیٹا گیاپارلیمنٹ کی دیواریں گرا کر خیمے لگائے گئے۔

پی ٹی وی پر حملہ ہوا، کرین سے رکاوٹیں ہٹا کر وزیراعظم ہاوس جانے کی کوشش کی گئی کوئی کسی کو رو ک نہیں رہا تھا بلکہ کہاگیا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے اس تما م عمل سے پاکستان کی جنگ ہنسائی ہوئی چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا جاویدہاشمیجو اس وقت موجودہ حکمران جماعت میں تھے انہوں نے جو کہا وہ سب کو معلو م ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کے پیچھے ایسے جو بھی لوگ ہیں ان سے کہہ رہے ہیں کہ آئین کی بالادستی کی جنگ لڑو ایسے لوگوں کے منہ میں گھی شکر اگر وہ لوگ کہتے ہیں کہ ملک تنہائی کی طرف جارہا ہے اسے تنہائی سے نکالنا ہے تو ہم انہیں بھی خوش آمدید کہیں گے۔