تربت: نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ اگر محض اقتدار ہمارا مطمع نظر ہوتا تو نہ 2002ء میں اسٹیبلشمنٹ کے آفرز کو ٹھکراتے، نہ 2008ء میں بائیکاٹ پر جاتے اور نہ 2018ء میں مسلم لیگ (ن)کے صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے خلاف جاتے، انہوں نے کہا کہ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر پیغام بھیجا گیا۔
کہ اگر آپ لوگ عدم اعتماد کے تحریک کی حمایت نہیں کرسکتے تو غیر جانبدار رہ کر ووٹنگ والے دن اسمبلی سے غیر حاضر رہیں توہم سمجھیں گے کہ آپ لوگوں نے ہماری حمایت کی ہے جس کے بدلے میں عام انتخابات میں آپ کی جماعت کو فائدہ دیاجائے گا، مگر 2002ء اور 2008ء کی طرح 2018 ء میں بھی ہماری قیادت اقتدار حاصل کرنے کی قیمت پر اپنے سیاسی اصولوں کی قربانی دینے پر راضی نہ ہوئی، جو لوگ آج بڑے طرم خان اور چمپئین بنے بیٹھے ہیں۔
دراصل یہ 2018ء میں ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کے عوض ملنے والی فوائد انجوائے کررہے ہیں، آج یہ لوگ نیشنل ازم کے بڑے چمپئین بنے ہیں مگر یہ اپنے سیاسی فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں، فیصلہ سازی کے وقت یہ لوگ ڈکٹیشن کے منتظر رہتے ہیں، نیشنل کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام جو بلوچستان کے قومی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے کے سازش کی ایک اہم کڑی ہے۔
وفاقی پی ایس ڈی پی سے بلوچستان کے اربوں روپے کے ترقیاتی اسکیمات نکال باہر کئے گئے، بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے فنڈز کی کٹوتی کی گئی مگر چمپیئن صاحب نے اپنی آنکھیں، کانیں اور زبان بند کیئے رکھے ہیں، مگر کل آنے والے مستقبل میں تاریخ نہ بہرا ہوگا، نہ گونگا ہوگا اور نہ اندھا ہوگا اور ان کے آج کے منفی کردار کی اچھی طرح پوسٹ مارٹم کرے گا کیونکہ تاریخ کسی کے خواہشات کی محتاج نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری قیادت کا اصولی فیصلہ ہے کہ اپنے عوام اور اپنی سرزمین کے مفادات کے نگہبانی کی خاطر تشکیل کیئے گئے اس جماعت کو کسی طالع آزما کی جھولی میں ڈال کر قومی جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے،چاہے اس کے لیئے ہمیں کوئی بھی سیاسی قیمت چکانی پڑے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نیشنل پارٹی گھنہ یونٹ اور نیشنل پارٹی ڈاکی بازار یونٹ کے دو الگ الگ اجلاسوں میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیئے، انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی عوام کی طاقت پر یقین کامل رکھتی ہے، منظم عوامی قوت کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
انہوں نے نچلی سطح پر منظم تنظیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کارکنان پر زور دیا کہ وہ تنظیم کاری پر توجہ مرکوز رکھیں، اپنے عوام سے قربت اختیار کرکے انہیں منظم کرنے کی کوشش کریں، سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جس دن نیشنل پارٹی اقتدار سے علیحدہ ہوئی ہے اس دن سے تنزلی شروع ہوئی ہے، آج نہ صرف ترقیاتی عمل ساکت ہوچکی ہے بلکہ امن و امان کے سنگین مسئلہ نے سر اٹھا لی ہے۔
ملازمین کو برطرف کرکے انہیں نان شبینہ کا محتاج بنا دیا گیا ہے، تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدان کے لیئے مختص اراضی پرقبضہ کیا جارہا ہے، ہسپتال ایک مرتبہ پھر تباہی کے دہانے پہنچ چکی ہے ادویات اپنی جگہ پر بلکہ ایک سرنج اور روئی تک دستیاب نہیں ہے اور ڈائیلیسز مشین کو ڈاکٹرز حضرات اپنے چندے سے چلارہے ہیں، حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی نے ڈھائی سال کے قلیل عرصہ کے اندر یہاں پر ڈیولپمنٹ اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے جو اہم و بنیادی کام کیئے ہیں یہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں کیونکہ رائج الوقت ملکی نظام میں یہاں پر چار کمروں پر مشتمل پرائمری اسکول کی بلڈنگ پانچ پانچ سال تک تیار نہیں ہوپاتی مگرہم نے ڈھائی سال کے مختصر ترین عرصہ کے اندر یونیورسٹی، میڈیکل کالج، ڈیٹ فیکٹری، تربت سٹی پراجیکٹ، تربت گوادر پنجگور شاہراہ اور دیگر اہم پراجیکٹس مکمکل کرائے۔
جن کی کوالٹی بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق اعلیٰ پایہ کا ہے اس موقع پر جماعت کے ساتھی چیئرمین حلیم بلوچ، محمد طاہر اور ڈاکٹر محمدنور نے بھی خطاب کیا جبکہ واجہ ابوالحسن بلوچ، محمد جان دشتی، فضل کریم، فیصل درجان، ظریف عمر، مسعود بلوچ، یعقوب بلوچ، چاکر علی، بلخ شیر قاضی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔