بلوچستان میں ویسے تو کوئٹہ تا کراچی یک رویہ شاہراہ پر جان لیوا ٹریفک حادثات تقریباً معمول بن چکے ہیں لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران دوسری مرتبہ اندوہناک حادثے کی جزوی وجہ ایرانی اسمگل شدہ تیل بنی جس کے بعد صوبائی حکومت نے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
پہلے 2014 میں ضلع لسبیلہ کے علاقے گڈانی موڑ کے قریب اسمگل شدہ ڈیزل سے لدی دو بسیں ٹرک سے ٹکرا کر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئیں جس کے سبب 35 سے زائد لوگ جل کر راکھ بن گئے تھے، جبکہ دوسرا حادثہ حال ہی میں ضلع قلات کے قریب ایرانی پٹرول سے لدی کار گاڑی کی کمشنر مکران کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری کے گاڑی سے تصادم کے نتیجے میں پیش آیا۔اس حادثے میں بھی کمشنر سمیت چار افراد جل کر بھسم ہوگئے۔ان کے علاوہ بھی متعدد ایسے حادثات پیش آئے جن کے باعث کئی لوگ پٹرول کی دہکتی آگ میں جھلس کر زندگیوں کی بازی ہار گئے۔
ان حادثات کے بعد بلوچستان کے ایرانی سرحد کے قریبی اضلاع سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اندرون ملک اسمگلنگ کا موضوع زیر بحث آتا ہے جس پر ہر کوئی اپنی دانست کے مطابق رائے دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ کیسے، کیوں اور کن حالات میں ہوتا ہے؟ اس کے متعلق بہت ہی کم لوگ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔بلوچستان کے پانچ اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، تربت اور گوادر ایرانی سرحد سے متصل ہیں۔ صرف چاغی کا رقبہ سینتالیس ہزار اسکوائر کلومیٹر سے زائد پر مشتمل ہے جو پورے خیبر پختونخوا صوبے کی رقبے سے کچھ ہی کم بنتا ہے۔
سوا دو لاکھ کی منتشر آبادی پر مشتمل یہ علاقہ پہاڑوں، صحراؤں، بیابان اور چٹیل میدانوں پر مشتمل ہے جہاں اکا دکا شہروں کے سوا باقی تمام علاقوں میں زندگی کی دیگر ضروریات تو درکنار سب سے بنیادی ضرورت پانی بھی بمشکل ملتی ہے۔ اسی طرح گوادر کے علاوہ دیگر اضلاع بھی چاغی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جہاں اکثر سرحدی علاقوں میں ضروریات زندگی کی بیشتر اشیا ء ایران سے آتی ہیں۔
ان علاقوں میں جس بڑے پیمانے پر یہ کام ہوتا ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس سے پچاس فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش ہی اسمگلنگ ہے جس کی ایک بڑی وجہ ریاست کا دہائیوں سے بلوچستان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ہے جہاں آج بھی اکثر دور دراز علاقوں میں اسکولز اور صحت کے بنیادی مراکز یا تو بند ملیں گے یا سرے سے ناپید۔چند مخصوص شہروں کے سوا باقی پورے بلوچستان میں ریاست کے وجود کی واحد نشانی زمین پر سیدھی لکیر کی مانند دوڑتی خستہ حال سڑک اور اس پر جابجا قائم سیکیورٹی چیک پوسٹ ہیں۔
باقی ملک سے بالکل الگ تھلگ ان علاقوں میں ذریعہ معاش کا زیادہ تر انحصار ایران اور افغانستان کی سرحدیں ہیں جہاں تیل، کھاد، اشیائے خوردونوش سمیت انسانی اسمگلنگ سے کچھ لوگوں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ایک زمانے میں افغانستان سے پاکستان کے راستے منشیات کی ایران اور پھر یورپی ممالک اسمگلنگ کا کام زوروں پر ہوتا تھا لیکن نائن الیون اور اس کے بعد افغان سرحد پر باڑ لگانے سے یہ دھندہ قدرے محدود ہوگیا۔
چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے مالامال سیندک پراجیکٹ بھی اہم ذریعہ معاش ہے جس میں چاغی، نوشکی، خاران، واشک اور مستونگ و گرد و نواح کے لگ بھگ چھ سو مقامی نوجوان ملازمت کرتے ہیں۔ تاہم اس سے نکلنے والے سونے اور تانبے کا منافع کہاں خرچ ہوتا ہے اس کے متعلق یہاں کے لوگ کچھ نہیں جانتے۔
ریاست کی نظروں سے اوجھل یہ علاقے قدرت کی ستم ظریفی کا بھی شکار ہیں جہاں کم بارشیں ہونے سے قحط سالی ہر دس پندرہ برس بعد لوٹ کر آتی ہے۔سنہ 2000 کی شدید قحط سالی کے بعد 2012 میں خشک سالی کی مصیبت دوبارہ عودکرآئی جس نے ماضی کی طرح 2018 تک ان علاقوں میں پانی کے کئی ذخائر خشک کرکے لاکھوں ایکڑ زرعی زمینوں کو بنجر اور لاکھوں جانوروں کو لقمہ اجل بنا دیاتھا، جبکہ ہزاروں بچے اور خواتین شدید غذائی قلت کا شکار بن گئے۔
اس کے علاوہ قحط سالی نے سینکڑوں گھرانوں کو اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا زیادہ تر پانی ضائع ہوتا ہے جبکہ حفاظتی انتظامات نہ ہونے سے سیلابی ریلے کئی کئی آبادیوں کو بہاکر لے جاتے ہیں۔ طویل وعریض علاقے میں ذرائع مواصلات ناپید ہونے کی وجہ سے برے موسمی حالات کے سبب یا راستہ بھٹکنے پر سردی، گرمی، بھوک اور پیاس سے مرنے والے انسانوں کی لاشیں بھی چھ ماہ اور کبھی ایک سال بعد ملتی ہیں۔
بلوچستان میں کوئٹہ، حب اور چند ایک دیگر علاقوں کے سوا کسی بھی علاقے میں کوئی فیکٹری یا مل نہیں لگ سکیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی اور مہنگائی، صوبے میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی شورش اور خطے کے بدلتے حالات نے بے روزگار نوجوانوں کی ایسی بڑی کھیپ تیار کی جن میں کچھ تلاش معاش میں خلیجی ممالک چلے گئے اور ایک بڑی اکثریت نے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کو اپنا پیشہ بنا لیا۔
بلوچستان میں ایرانی تیل چاغی، واشک، پنجگور اور تربت کے سرحدی قصبوں سے لایا جاتا ہے۔ہزاروں پک اپ گاڑیوں سمیت آئل ٹینکرز، بسوں اور دیگر گاڑیوں میں کچے اور دشوار گزار راستوں پر سینکڑوں کلومیٹر دن رات سفر کرنے والے مقامی ڈرائیور اپنی جانوں کو درپیش خطرات کے سائے تلے ایرانی پٹرول اور ڈیزل لاد کر مختلف علاقوں میں پہنچاتے ہیں۔ ان میں ڈاکوؤں کا خوف اور ناگہانی حادثے کے اندیشے قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ خطرے کا ایک اور مرحلہ بھی درپیش آتا ہے، وہ تیل کی ایرانی سرحد سے پاکستانی علاقوں میں منتقلی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس دوران کچھ لوگ ایرانی سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر دیار غیر کی مٹی میں بے گور و کفن مدفون ہوجاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام حالات و واقعات کی منظر کشی قومی میڈیا پر نہیں ہوتی اس لیے ملک کی باقی آبادی اس سے لاعلم رہتی ہے۔بلوچستان کو قدرت نے بے شمار معدنی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن صوبے کے اکثر باسی آج بھی ان کے ثمرات سے محروم ہیں۔
سونے کی چڑیا کہلانے کے باوجود چاغی کے اکثر باسیوں کی معیشت غیر ملکی اشیا کی اسمگلنگ سے چلتی ہے، حالانکہ اس علاقے سے سونا، تانبا، آئرن، ماربل، َزنک سمیت بے شمار قیمتی دھاتیں تکلتی ہیں مگر انھیں پروسیس کرنے کے لیے یہاں کوئی فیکٹری یا اسٹیل مل نہیں لگائی گئی۔ریاست نے سیکیورٹی خطرات کو بھانپتے ہوئے افغان اور ایرانی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ تو کرلیا لیکن فیصلہ ساز ابھی تک لوگوں کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان سرحدوں سے وابستہ لاکھوں لوگوں کی معیشت اور کاروبار زندگی کا کیا بنے گا؟
ہر معاملے کی طرح اس میں بھی زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے غیرقانونی اسمگلنگ کی اصطلاح استعمال کرنے کے بعد سب کچھ یکدم بند کردیا جاتا ہے،مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ کیا کبھی ریاست نے اپنے ان شہریوں کو وہ سب کچھ دیا جو ان کا آئینی حق بنتا ہے؟ان علاقوں میں جب بھی کوئی حادثہ، زچگی کا کیس اور ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسپتالوں میں علاج معالجے کی مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باعث متاثرہ لوگوں کو سینکڑوں کلومیٹر دور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ یا کراچی منتقل کرنا پڑتا ہے۔
اس دوران بعض لوگ راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی اور وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کی بجائے لوگوں کے اصل حالات زندگی کا بغور جائزہ لے کر درست فیصلہ سازی سے معاش کے دیگر ذرائع پیدا کیے جائیں وگرنہ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جانوں پر کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔