لیاری ادبی میلے کے انعقاد سے مجھے دلی مسرت ہوئی ہے۔میلے کے منتظمین بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے دن دگنی اور رات چوگنی محنت کر کے ایک بڑے میلے کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیاری کے بارے میں دانستہ طور پر مفاد پرست حلقوں کی جانب سے ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ یہ ذہنی طور پر پسماندہ، جاہل اور جرائم پیشہ لوگوں کی بستی ہے اس تاثر کو پھیلانے میں حکمران افسر شاہی اور ان سے منسلک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اور تو اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان خود ریکارڈ پر ہیں کہ گدھا گاڑی چلانے والوں سے کو ئی کیا تو قع رکھ سکتا ہے۔ دراصل اس گھناؤنے پروپیگنڈے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو کراچی بدر کرنا تھا۔
جنرل ایوب خان کے دور میں حکمرانوں کے ناپاک جرائم کھل کر سامنے آگئے۔ ملک کے صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کی للچائی ہوئی نظریں ہمیشہ لیاری کی زمینوں پر جمی رہیں اور آج بھی ہیں۔ یہ زمین ملک کی واحد بندرگاہ سے جڑی ہوئی ہے اس مذموم سازش میں انہیں حکمرانوں کی مکمل پیشت پناہی حاصل تھی۔ ان کا بنیادی مقصد لیاری کے باشندگان کو یہاں سے نکال کر ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور بڑی بڑی صنعتیں اور تجارتی مراکز قائم کرنا تھا۔ جنرل ایوب نے بذات خود اس کارِ ناخیر میں گہری دلچسپی لی تھی اور لوگوں کی بے دخلی کا باقاعدہ منصوبہ بھی بنا لیا تھا۔ اتنی بڑی اسکیم کے لیے حکمرانوں کو بہر حال کو ئی نہ کو ئی جواز تو پیش کرنا ہی تھا۔ چناچہ انہوں نے پوری کی پوری آبادی کو جرائم پیشہ قرار دے دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کی دوسری بستیوں میں جرائم کے اعداد و شمار لیاری سے کچھ کم نہ تھے اور نا ہی لیاری سے برگاہ وناگاہ بوری بند لاشیں ملتی رہی ہیں جرم بہر حال جرم ہے کوئی ذی ہوش اسکا دفاع نہیں کرسکتا۔ لیاری میں بھی جرائم پیشہ عناصر موجود ہیں لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سالوں میں ان کا قلع قمع کیوں نہیں کیا گیا۔ لیاری کے لوگوں نے اس ظالمانہ منصوبے کی بڑی شدت سے مخالفت کی تھی اور ہر طرح کی مزاحمت کے لیے بالکل آمادہ تھے۔اس سلسلے میں لیاری ایکشن کمیٹی نے نمایاں کر دار ادا کیا۔ بالاخر ایوبی انتظامیہ نے لیاری کے باشندوں کا تیور بھانپ لیا اور انہیں اس منصوبے کو بادل ناخواستہ ترک بلکہ ملتوں کر نا پڑا لیکن اس کی باز گشتیں افسر شاہی کے ایوانوں میں اب بھی گو نجتی رہتی ہیں۔ حکمرانوں نے لیاری کی ترقی و ترجے کے لئے نہ صرف کچھ بھی نہیں کیا بلکہ اسے دانستہ طور پر اندھیروں میں دھیکلتے رہے لیکن آفرین ان سیاسی وسماجی کارکنوں کو جو لیاری کی تیرہ وتار گلیوں میں درس وتدریس اور علم وادب کی شمعیں جلاتے رہے۔
1930 کی دہائی میں مولوی عبدالصمد سربازی اور غلام محمد نوردین کی قیادت میں “انجمن اصلاح القوم” کی بنیاد پڑی جس کی شاخیں قریب قریب ہر محلے میں قائم کی گئیں۔ جہاں انجمن کے جوان کارکن نائٹ اسکولوں کے یعنی شبینہ مدرسوں کے ذریعے لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے۔ یہ پرجوش کارکن سب کے سب بشمول مولوی سربازی اور غلام محمد نوردین کے بلوچستان میں یوسف علی خان مگسی کی تحریک آزادی سے ازحد متاثر تھے۔ سیاسی اعتبار سے تقسیم سے قبل لیاری کے لوگ دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک انڈین نیشنل کانگریس کا حامی تھا جس کی قیادت اللہ بخش گبول کیا کر رہے تھے۔
دوسرا دھڑا اسلامی نعرے کی وجہ سے مسلم لیگ کے ساتھ تھا جس کی قیادت عبداللہ ہارون کے ہاتھ میں تھی۔ دھڑے بندی سے قطع نظر لیاری کے عام لوگوں کو بلوچستان کی تحریک آزادی سے سو فیصد ہمدردی تھی۔ چونکہ بلوچستان میں ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی تھی بلوچ لیڈیروں نے لیاری کو اپنا مرکز بنالیا۔ اس طرح لیاری بلوچ سیاست کا اہم ترین محور بن گیا۔ اسی بنا پہ بلوچستان کی سیاست کو آپ لیاری سے قطعا علیحدہ نہیں کر سکتے انگریز حکام اسی وجہ سے لیاری کے باشندوں سے از خد ناخوش تھے۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ تقسیم کے بعد ھمارے نئے حکمرانوں نے بھی عین وہی روش اپنایا جو مختلف شکلوں میں آج بھی جاری وساری ہے۔
1930 ہی کی دہائی میں لیاری میں صحافتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا چونکہ بلوچستان میں اظہار رائے پر سخت پابندی تھی یوسف علی خان نے فیصلہ کیا کہ لیاری سے اردو میں ایک ہفتہ وارشائع کیا جائے جو بلوچستان میں رونما ہونے والے حالات واقعات اور وہاں کی جد وجہد اور سرگرمیوں کو اجاگر کر سکے۔ چنانچہ ان کی مالی امداد سے 1932 میں “البلوچ” کا آغاز ہوا۔ جس کے پہلے ایڈ یٹر مولوی سربازی تھے بعد میں مولوی محمد عثمان نے اس کی ادارت سنبھالی۔ یہ دونوں حضرات مولوی ضرور تھے مگر اس زمانے کے معیار کے مطابق لبرل خیالات حامی تھے۔ دونوں نے “ندو العماء” سے تخرج کیا تھا اور مولانا عطااللہ شاہ بخاری کی احرار پارٹی سے ھمدردی رکھتے تھے۔
1930 کی دہائی کے آخری برسوں میں جب انگریز حکام نے محمد حسین عنقا کی زیر ادارت شائع ہونے والے اخباروں “بلوچستان” اور پھر “بولان” پر یکے بعد دیگر پابندی لگائی اور عنقا پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو وہ مستقل طور پر لیاری منتقل ہوگئے اور اپنی سیاسی، ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کو وہیں سے جاری رکھا۔ کچھ عرصہ کے بعد تحریک آزادی کے ایک اور سپورت محمد نسیم تلوی بھی لیاری میں آکر آباد ہوگئے۔ عنقا اور تلوی نے مل کر عنقا کے کالعدم اخبار بلوچستان کو دوبارہ جاری کیا مگر ان میں جلد اختلافات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں نسیم تلوی اس کی ادارت سے علیحدہ ہو گئے اور “بلوچستان جدید” کے نام سے ایک کامیاب روزنامے کا آغاز کیا جو 1940 کے اوائل سے لیکر 1950 کی دہائی کے آخر تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔
دلچسپ بات یہ ھے کہ بلوچستان اور بلوچستان جدید کی پالیسیوں میں کوئی بھی فرق نہیں تھا دونوں بلوچستان کی تحریک آزادی کے زیردست پر چار اور انگریز سامزاج کے سخت خلاف تھے۔ ایک مختصر عرصے کے بعد بلوچستان بند ہوگیا۔ یہاں یہ بات بھول رہا ہوں کہ دونوں اخبارات کی ہمدردیاں کانگریس پارٹی کے ساتھ تھیں۔ تقسیمِ ھند سے پہلے اور تقسیم کے بعد بھی نسیم تلوی مسلم لیگ اور اس کے لیڈروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے جس کی وجہ سے مسلم لیگی ان سے بے حد نفرت کیا کرتے تھے قیام پاکستان کے وقت بلوچستان جدید کراچی کا سب سے کثیر لاشاعت روزنامہ تھا جس کی وجہ سے حکمرانوں اور افسر شاہی نے نسیم تلوی کو تنگ کر نا شروع کردیا۔
انہیں ایک دو بار نہ صرف جیل کی ہوا کھانی پڑی بلکہ عام قیدیوں کی طرں چکیا ں بھی پھیسنا پڑیں۔ بہر حال ان کو اس قدر تنگ کیا گیا کہ انہیں بلوچستان جدید کی اشاعت بند کرنی پڑی۔ میر خلیل الرحمن اور روزنامہ جنگ کو خوب خوب نوازا تاکہ بلوچستان جدید کو ناکام بنا سکیں۔ اپنی ان گھناؤنی حرکتوں میں وہ بلاشبہ کامیاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ تقسیم کے بعد میر خلیل الرحمن جب ہجرت کر کے پاکستان آئے تو انہوں نے دو چار مہینے بلوچستان جدید میں بطور نائب ایڈیٹر کام کیا مگر نسیم تلوی کی مسلم لیگ کے خلاف تابڑ توڑ تنقیدوں سے وہ سخت نالاں تھے۔
بالاخر انہوں نے بلوچستان جدید کی ملازمت سے علیحدگی اختیار کی افسر شاہی کی آ شیرواد سے انہوں نے جلد روزنامہ جنگ کے اجراء کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا سب سے بڑا اخبار بن گیا۔ میر صاحب ملک کے امیر ترین صحافی بن گئے جبکہ نسیم تلوی نہایت کسمپرسی کے عالم میں اس دنیا سے سدھار گئے۔ حکمرانوں کے پروپیگنڈے کے بر عکس لیاری نے نہ صرف بلوچی بلکہ اردو صحافت میں بھی کئی معتبر و کامیاب صحافی پیدا کیے جن میں پیر بخش شہدادزئی جو صحافی کے علاوہ فارسی کے نغر گو شاعر بھی تھے۔ غلام محمد نوردین، مولوی سربازی، مولوی عبداللہ دیر مانی (عبدالصمد امیری کے والد محترم) اور علی محمد مکرانی جو صحافی ہونے کے علاوہ کانگریس کے ایک سر گرم کارکن بھی تھے تقسیم ہند سے پہلے وہ کانگریس کی سرگرمیوں میں پیش ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بیسیوں بار جیل بھی گئے۔ جیل ہو یا جیل سے باہر علی محمد مکرانی نے بہت کھٹن وقت گزارا۔ تقسیم کے بعد انہوں نے ہفتہ وار “قومی آواز” کا اجراء کیا جو بلوچستان جدید کی طرح مسلم لیگ کے سخت خلاف تھی۔
لہٰذا مسلم لیگی حکمران ان کے ذاتی دشمن بن گئے مگر علی محمد مکرانی نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی آخری دم تک مسلم لیگی حکمرانوں کے خلاف لکھتے رہے اور بلوچ تحریک اور لیاری کے حقوق کی حمایت کرتے رھے۔ انہوں نے عمر کے آخری ایام نہایت تنگ دستی میں گزارے اس وجہ سے انہیں قومی آواز کی اشاعت بند کر نا پڑی۔ جس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ بالآخر تنگ آگئے اور نواب بائی خان کی ملازمت شروع کی مگر مسلم لیگ سے سمجھو تہ نہیں کیا۔ قومی آواز کے بند ہونے کے دو تین بر س بعد علی محمد مکرانی انتقال کر گئے اس طرح لیاری ایک نڈر سیاسی کارکن اور کامیاب صحافی سے محروم ہو گئی۔
اگر میں یہاں دو اور صحا فیوں کا ذکر نہ کروں تو مضمون کا یہ حصہ بالکل نامکمل رہ جائے گا۔ صالح محمد جمالی جو ہفتہ روز “جرس” کے ایڈ یٹر تھے اور اسرار عارفی جن کا شمار نہ صرف روزنامہ “حریت” بلکہ کراچی سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ علم و ادب کے میدان میں بھی لیاری کا اپنا ایک خاص نام ہے۔ لیاری کے ادیبوں اور شاعروں میں محمد حسین عنقاء (جو بیک وقت بلوچی، اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے)، سید ظہور شاہ ہاشمی (جو بلوچی کے بلند پایہ شاعر تھے انہوں نے اردو شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے)، پیربخش شہدادزئی (جو فارسی نغزگو شاعر تھے) ڈاکٹر گل محمد بلوچ (جو فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے) مراد ساحر (جن کا شمار بلوچی کے صفِ اول شعرا میں ہوتا ہے)خاتون بلوچی شاعرہ مرحومہ بانل دشتیاری، ظفر علی ظفر (جنہیں بلوچی زبان کا بادشاہ غزل کہا جاتا ہے) زاہدہ رئیسی راجی (جو بیک وقت بلوچی اور اردو شاعری کر تی ہیں۔) اور چند ساچ۔ان کے علاوہ درجنوں ایسے شاعر و ادیب بھی ہیں جو بلوچی یا اردو میں لکھتے ہیں۔
لیاری کے ادیبوں میں پروفیسر ڈاکٹر رمضان بامری، رمضان بلوچ، شرف شاد اور فقیر شاد سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ لیاری میں جس طرح سے علم وادب کی پرورش ہو رہی ہے اسے جرائم پیشہ لوگوں کی بستی ہرگز نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہاں روشنی پھیلانے والے بھی رہتے ہیں اس کے علاوہ آج لیاری کے ہر محلے میں آپ کو کم از کم ایک ڈاکٹر یا انجینئر، وکیل، صحافی یا یونیورسٹی پروفیسر ملے گا۔یہاں کی واحد یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کا تعلق بھی لیاری ہی سے ہے۔ لہٰذا یہ بات خود ثابت کر تا ہے کہ علم و دانش کے میدان میں لیاری کسی اور علاقے سے پیچھے نہیں ہے۔