17 سالہ خدیجہ لڑکوں کا روپ دھارے خود موٹر سائیکل چلا کر اپنے کالج پہنچتی ہیں جہاں پھر وہ لڑکوں کا لباس بدل کر کالج کا یونیفارم پہن لیتی ہیں کوئٹہ کے مضافات میں رہنے والی خدیجہ کو یہ بہروپ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بھرنا پڑتا ہے کیونکہ اُنکے گھرکے پاس کوئی کالج نہیں ہے اُنہیں اس عمل سے کالج میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ کالج کے اساتذہ اُنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مستقبل میں چارٹیڈاکاؤنٹینگ (سی اے)کرنے کا ارادہ رکھنے والی خدیجہ کے مطابق اُنکا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے اور اُنکے والد ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں جو وقت پر اپنی ملازمت پر پہنچنے کے باعث اُنہیں کالج سے لا لیجا نہیں سکتے جبکہ گھر کے قریب سے کوئی لوکل ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلتی اور ویگن کا بھاری بھر کم کرایہ کا بوجھ اُنکے والدین برداشت نہیں کر سکتے اسی لیے اُنہوں نے خود موٹر سائیکل چلنا سیکھی ہے تاکہ اُن کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے اُنکے موٹر سائیکل چلانے کو اُنکے کئی رشتہ دار بُرا سمجھتے ہیں لیکن گھر سے والدین کی سرپرستی حاصل ہونیکی وجہ سے وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خدیجہ بتاتی ہیں کہ اُنہیں گذشتہ ماہ ٹریفک پولیس اہلکارنے ون وے پر جاتے ہوئے روکا اور لائسنس طلب کیا تھا جسکی وجہ سے اُنہیں اپنی شناخت ظاہر کرنا پڑی تھی جس پر اُنہوں نے اہلکار کو بتایا کہ وہ لوگوں کے طنز و مزاح اور حراساں ہونے سے بچنے کیلئے لڑکوں کا لباس پہنتی ہیں جس پر ٹریفک اہلکار نے اُنہیں آئندہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنے کی شرط پر چلان نہیں کیا خدیجہ پُر اُمید ہے کہ وہ مستقبل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے والدین کا فخر بنے گی لیکن خدیجہ کی طرح صوبے میں کئی لڑکیوں کو گھر کے قریب تعلیمی ادارے نہ ہونے اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے فقدان کے باعث مشکلات اُٹھانا پڑ رہی ہیں جبکہ کئی طالبات اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ چکی ہیں۔
گل نساء لاشاری گزشتہ کئی سالوں سے محکمہ تعلیم میں بطور اُستانی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اب وہ کوئٹہ کے علاقے جناح ٹاؤن میں 1992ء میں قائم ہونیوالے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول جناح ٹاؤن کی ہیڈ مسٹریس ہیں جن کے اسکول میں 2600 سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ اپنی ملازمت کے دوران کئی لڑکیوں کو میٹرک سے قبل ہی تعلیم ترک کرتے دیکھتی آرہی ہیں گل نساء کے مطابق رواں سال اب تک اُن کے اسکول کی مختلف جماعتوں سے25 لڑکیاں اسکول چھوڑ چکی ہیں جن میں نہم دہم جماعت کی 8 طالبات شامل ہیں تاہم شہری علاقوں میں لڑکیوں کے میٹرک سے قبل اسکول چھوڑنے کی شرح نواحی علاقوں کی نسبت بہت کم ہے وہ کہتی ہیں کہ میٹرک سے قبل ہی تعلیم چھوڑنے کی وجہ کم عمری میں شادی یا پھر گھر سے اسکول تک آنے میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ قبائلی معاشرے میں لڑکیوں کے سڑک پر اکیلے آنے جانے کیلئے مشکلات ہوتی ہیں۔
گل نساء کے مطابق والدین اپنی بچیوں کو مالی مشکلات کے باعث اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ نہیں کرتے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تو کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں جبکہ کئی مستحق طالبات کو یونیفارم، جیومیٹری، اور جوتے تک فراہم کیے جاتے ہیں لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی بڑی وجہ کم عمری کی شادیاں یا پھر اسکولوں کا گھر سے دور ہونا ہے جب لڑکیاں بڑی ہوجاتی ہیں تو والدین بچیوں کو گھر سے دور اسکول بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔
کوئٹہ کے نواحی علاقے میں رہنے والی صدیقہ نے حال ہی میں اپنی دو بچیوں کو بلوغلت کی عمر تک پہنچے پر اسکول جانے سے روک دیا ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کے بڑوں کو اچھا نہیں لگتا کہ وہ بڑی بچیوں کو گھر سے باہر بھیجیں انکے مطابق انہیں ان کے دور کے رشتے داروں نے سمجھایا ہے کہ معاشرہ اتنا اچھا نہیں ہے۔
اس دور میں لڑکیاں تعلیم حاصل کر کے خدانخواستہ ہمارے خاندان و قبیلے کی بدنامی کا سبب بن جائیں اور ویسے بھی اسکول کی زیادہ تعلیم حاصل کرنا مناسب نہیں کیونکہ پھرلوگ رشتہ نہیں مانگتے، صدیقہ کی بیٹی نادیہ نے بتایا کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں ہمارے رشتے دار ہم بہنوں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں انکا کہنا ہے کہ میں بھی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر یا اُستانی بن کر خدمت کرنا اور نام کمانا چاہتی ہوں مگر کیا کروں کہ میں معاشرے کے مسلط کردہ رسوم کے زد میں آکر اب آگے نہیں پڑھ سکوں گی لیکن شکر ہے کہ گھر پہ ٹی وی ہے جہاں میں اردو کے ڈرامے دیکھ کراور بھائی کے لائے گئے رسالے پڑھوں گی جس سے تعلیم کو چھوڑنے کے درد کا کچھ مداوہ ہوگا کیونکہ آپ اکیلے نہیں ہیں لوگ آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔
میرے والد بھائی بھی ہمیں اسکول چھوڑنے کا کہتے تھے لیکن ہم بہنیں پھر بھی اسکول جاتی تھیں مگر وہ سلسلہ تب روکا جب دور کے رشتہ دار نے اماں سے شکایت کی کے انہیں اسکول نہ بھیجو۔ بلوچستان رئیل ٹائم ایجوکیشن کے2018-19 کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے 14855 اسکول ہیں جن میں سے 10971اسکولوں کا سروے کیا گیا جن میں 2998 اسکول بند تھے جن میں 25.6 فیصد بند اسکول لڑکیوں کے ہیں جبکہ 2017ء کے تعلیمی سروے کے مطابق بلوچستان میں 3974 گرلز اسکول موجود ہیں۔
خواتین کی فلاح بہبود کیلئے متحرک رہنے والی بلوچستان کی سماجی کارکن ثناء درانی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم میں روکاوٹ کی بڑی وجہ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے21ویں صدی میں بھی بلوچستان کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کے ہائی تو کیا مڈل اسکولز بھی نہیں ہیں جبکہ کئی اسکولوں میں پینے کا صاف پانی اور بیت الخلاء جو بالغ لڑکیوں کیلئے ایک اہم ضرورت بھی ہے وہ تک میسر نہیں ہیں یہ تمام مسائل صوبے کے تمام سرکاری اسکولوں میں سرفہرست ہیں ہمارے معاشرے کی اکثریت لڑکیوں کے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نظر نہیں آتی کیونکہ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ لڑکی نے کونسا پڑھ کر کوئی نوکری کرنی ہے اور اگر عمر نکل گئی تو رشتے آنا بند ہوجائیں گے پھر اس سے شادی کون کرے گا اور اسی سوچ کی بنیاد پر ہمارے ہاں لڑکیوں کے جذبات کا استحصال کر کے اُنہیں تعلیم سے دور کردیا جاتا ہے اور وہ اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ ہو جاتیں ہیں۔
ثناء درانی کہتی ہیں کہ صوبے کے اسکولوں کی کیا بات کریں اگر صرف بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ ہی کے اطراف میں واقعہ گرلز اسکولوں کا سروے کیاجائے تو صورتحال سامنے آجائے گی کہ حکومت لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔محکمہ تعلیم کے ذرائع سے موصول ہونیوالی دستاویزات کے مطابق 2018 ء میں بلوچستان میں 99پرائمری اسکولوں کو مڈل اور 93 مڈل اسکولوں کو ہائی جبکہ 45 ہائی اسکولوں کو سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا ہے۔
اپ گریڈ کئے گئے اسکولوں کے اساتذہ اور اسٹاف کی 7673 نئی آسامیاں تخلیق کی گئیں ہیں جن پر بھرتی کا عمل رواں سال جاری ہے اپ گریڈ ہونیوالے اسکولوں میں لڑکیوں کے پرائمری 67 مڈل 65 اور ہائی 21 اسکول شامل ہیں۔سماجی کارکن و رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوار کہتی ہیں کہ بلوچستان میں 30فیصد خواتین بھی پڑھی لکھی نہیں ہیں جسکی بڑی وجہ اسکولوں سے ڈراپ آؤٹ ہونا ہے لڑکیوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اسکولوں تک پہنچانا ہے کیونکہ کئی اضلاع میں اسکول دور درازواقع ہیں اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا۔
کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کا کوئی مناسب روزگار نہیں ہے غربت کے باعث والدین اپنے بچوں کیلئے نجی ٹراسپورٹ کے کرائے برداشت نہیں کر سکتے جبکہ اپنی لڑکیوں کو گھروں سے دور اسکول جانے نہیں دیتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کے مڈل اور ہائی اسکولوں کو سرکاری ٹرانسپورٹ فراہم کریں تاکہ بچیوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے میں کمی آسکے اور لڑکیوں کیلئے اسکول میں حاضری کی بنیاد پر وظیفہ یا معاوضہ دیا جائے تو بلوچستان میں خواتین کی تعلیم کی شرح میں پانچ سال میں ہی بہت حد تک اضافہ ہوجائیگا۔
لڑکیوں کی تعلیم کیلئے حکومتی اقدامات سے متعلق جاننے پرصوبائی سیکرٹری تعلیم طیب لہڑی نے بتایا کہ اس وقت صوبے میں 1800کے قریب اسکول بند ہیں اُنہوں نے اعتراف کیا کہ صرف ضلع آوران میں 138 اسکول بند ہیں جنہیں فعال کرنے کیلئے کوشش کررہے ہیں اُنکے مطابق بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پرائمری اسکولوں کو جینڈر فری کردیا گیا ہے جسکا نوٹیفیکشن بھی ہوگیا ہے اب پانچویں جماعت تک لڑکے لڑکیاں ایک اسکول میں پڑھیں گے۔
اسکے علاوہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے جس میں اسکولوں میں صاف پینے کا پانی یقینی بنایا جائے گا ایک منصوبہ ڈھائی ارب روپے کی لاگت کا ہے جس میں ہائی اسکولوں کو بنیادی سہولیات دی جائیں گی اس منصوبے میں زیادہ توجہ لڑکیوں کے اسکولوں کو دی جارہی ہے جبکہ صوبے کے اکثر ہائی اسکولز کو ہائیر اسکول بنانے جارہے ہیں۔
کیونکہ کالجز کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے اس عمل سے لڑکیوں کیلئے خاص کر آسانی ہوگی کے اُنکے اسکول میں گیارہویں اور بارہویں کی بھی کلاسز ہوں گی جس سے ڈراپ آؤٹ میں کمی آئے گی جبکہ محکمہ تعلیم میں 15ہزار سے زائد آسامیاں بھی تخلیق کی گئی ہیں جن میں 2 ہزار کے قریب ایس ایس ٹیز اور 9 ہزار کے قریب جے وی ٹیچرز بھرتی کئے جائیں گے اُنہوں نے بتایا کہ نجی اسکولوں کی رجسٹریشن کا ایک ایکٹ پاس ہوا ہے جسے اسمبلی سے منظور ہونا ہے اگر یہ ایکٹ منظور ہوگیا تو 3ہزار کے قریب نجی اسکولوں میں بھی مناسب فیس میں کئی بچے پڑھیں گے اور اسی طرح اگر دینی مدارس بھی رجسٹریشن کے عمل میں آجاتے ہیں تو اس سے بلوچستان میں تعلیمی شرح بہت بہتر ی کی طرف آجائے گی۔