|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2019

السلام علیکم!


ہر ذی شعور انسان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے مگر جس خطے میں تعلیم کا نظام بیٹھ گیا ہو،وہاں تبدیلی کے بجائے معاشرتی بحران جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے اور ہم سب بچپن سے اس بحران کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں ایک پالیسی کے تحت آواران کو تعلیمی حوالے سے پسماندہ رکھا گیا اور حال میں جان بوجھ کرتعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بنائی گئی پالیسیوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ جس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیمی پر پڑ رہا ہے۔

میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ زندگی انسان کو دو مواقع دیتی ہے اچھائی کرے یا برے راہوں کا تعین کرے۔ تیسرا آپشن تماش بین کا ہے۔ اب ایک ایسے خطے میں جہاں تینوں آپشنز موجود ہوں وہاں ہر ایک فرد نے ایک آپشن چننا ہے۔ آواران کو اس وقت جس تعلیمی بحران کا سامنا ہے اس سے متعلق ہم نے ایک آپشن کا انتخاب کیا ہے۔ سوسائٹی کی نظر میں ہمارا آپشن ”اچھائی“ کا ہے جب کہ ضلعی ایجوکیشن آفیسرکی نظر میں ”پروپیگنڈہ“ ہے۔بجائے یہ کہ موصوف اپنی توانائیاں بند سکولوں کو کھولنے کے لیے خرچ کرتے اور بجٹ کہاں خرچ ہوا ہے اس کا خاکہ پیش کرتے مگر گھیرا تنگ دیکھ کر مختلف ذرائع سے دھونس دھمکیوں پر اتر آیاجو ریکارڈ کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہیں۔

مہم کو لے کر ہمیں آپ کی جانب سے حوصلہ افزا اقدامات کی امید تھی مگر دورانِ پریس کانفرنس مہم سے متعلق چلنے والی خبروں کوغیر مصدقہ قرار دے کر حقائق کو تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ حالانکہ بعد میں 137 بند سکولوں کا اعتراف آپ نے دورانِ پریس کانفرنس خود کرکے ہمارے موقف کی تائید کی جسے ضلعی ذمہ داران 16بند سکول قرار دے کر ہماری اطلاعات کو مسترد کر چکا ہے۔

ہمیں آپ کی خلوص اور نیت پر کوئی شک نہیں مگر ضلعی سطح پر جو نظام رائج ہے اس سے صوبائی ذمہ داران کو اب تک لاعلم رکھا گیا ہے۔ ہم نے نیک نیتی کی بنیاد پر اپنا سلسلہ آگے بڑھایا اور مہم کے تحت اب تک جتنا بھی کام ہوا ہے نیک نیتی کی بنیاد پر ہوا، اس کا پورا خاکہ دستاویز سمیت آپ کے سامنے لا رہے ہیں تاکہ مہم سے متعلق کوئی ابہام نہ رہے۔

۱۔ ہم نے اب تک 176 بند سکولوں کی نشاندہی کی ہے۔
۲۔ مہم کا آغاز تین سال سے بند ایک سکول سے کیا تھا۔ مہم رنگ لے آئی، سکول کھل چکا ہے۔
۳۔ پی ٹی ایس ایم سی، لوکل ایجوکیشن کونسل اور آر ٹی ایس ایم سی کیا ہے اس سے متعلق کمیونٹی کو آگاہی دی۔ اور ضلع بھر میں یہ سیکشنز کیوں غیر فعال ہیں۔ اس کے بنیادی وجوہات بھی سامنے لائے۔ جو ضلعی تعلیمی آفیسرکو ناگوار گزرے۔
۴۔ 63 ایسے سکولوں کی نشاندہی کی ہے جو عرصہ دراز سے بند ہیں مگر ان کی مد میں ہر سال بجٹ جاری کیا جاتا رہا ہے۔ بجٹ کی بندر بانٹ سے متعلق ڈپٹی کمشنر آواران کے ریمارکس بھی سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
۵۔ مہم کو آغاز فراہم کرنے میں محکمہ تعلیم کی ضلعی ذمہ داران کا ہی ہاتھ تھا۔ ضلعی ذمہ داران کو ہم تین سال سے بند بوائز پرائمری سکول عبدالستار گوٹھ سکول کو کھلوانے کے لیے گزارش کر چکے تھے مگر ہماری گزارش پر عملدرآمد نہیں ہوا تو معاملہ ہم صوبائی لیول پر لے آئے۔ مشیر تعلیم سے ملاقات کی۔ آپ سے ملاقات کے لیے ہم نے 19دن انتظار میں خرچ کیے، طویل انتظار کے بعد جب آپ تک رسائی نہیں ہو پائی تو غیرمنصفانہ نظام نے ہمیں مہم چلانے پر مجبور کیا۔ مہم کو چلاتے ہوئے اب تک نہ صرف ہماری ٹیم کواپنی پوری توانائی خرچ کرنا پڑی ہے بلکہ جہاں حق کے لیے آواز بلند کی جائے تو وہاں پہلا وار معاش پر کیا جاتا ہے۔

یہ وار ادارہ تعلیم کے ضلعی ذمہ داران کی جانب سے کیا گیا اور مجھے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ معاملہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ مہم کو لے کر مختلف اداروں سے وابستہ ذمہ داران کا کندھا بھی استعمال کیا گیا اور سائبر کرائم کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ جس مقصد کے لیے ہم کام کر رہے ہیں اور یہ کام کرتے ہوئے ضمیر کو جواب دہ ہیں جو اس وقت حالتِ اطمینان میں ہے۔ یہ تمام حربے نہ ہی ہمیں اس نیک مقصد سے پیچھے ہٹا سکے اور نہ ہی آئندہ ہٹا سکیں گے بلکہ ہمارا عزم مزید پختہ ہوگیاہے۔

جناب
ہم چاہتے ہیں کہ شعبہ تعلیم کے اندر اصلاحات لائے جائیں اور ان پر عملدرآمد ہو۔ نظامِ تعلیم بہتر ہو ایجوکیشن کا نظام ذمہ داران نے ہی ٹھیک کرنا ہے ہم بطور سماجی حیوان اس خلا کی نشاندہی کر رہے ہیں جو بچوں کو تعلیمی نظام سے دور رکھنے کا باعث بن رہے ہیں۔ آپ جہاں جہاں اقدامات اٹھائیں گے وہاں وہاں ہمیں اپنے شانہ بشانہ پائیں گے۔ 18 دستاویزات پر مشتمل کتاب اس امید کے ساتھ آپ کو بھیج رہے ہیں کہ زمینی حقائق اور دی گئی معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات کی انکوائری کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور معاملات کی تحقیقات تھرڈ پارٹی سے کرائی جائیں گی۔

والسلام
شبیر رخشانی
مہم آرگنائزر
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم