کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس نے ضلع زیارت میں جونیپر کے قیمتی جنگلات کے تحفظ اور گیس پریشر میں اضافے سے متعلق قرار داد کی منظوردیتے ہوئے حکومتی واپوزیشن اراکین نے گیس پریشر میں کمی پر اپنے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سمیت دیگر اضلاع میں گیس پریشر میں کمی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں بلوچستان میں بمشکل دس فیصد علاقوں میں گیس ہے گیس کمپنی اپنے نقصانات پوراکرنے کے لئے جان بوجھ کر گیس پریشر کو کم کر دیتی ہے جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مسئلہ کے حل کیلئے دیر پا منصوبہ بندی کی جائے۔
تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکرسردار بابر موسیٰ خیل کی زیرصدارت منگل کے رو زہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر حاجی نور محمد دمڑ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلع زیارت جو ایک لاکھ60ہزار 4سو22آبادی پر مشتمل علاقہ ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع زیارت کے جونیپر کے قیمتی جنگلات جو 2لاکھ47ہزار ایکڑ پر محیط ہیں ایک عالمی ورثہ ہے۔ چونکہ ضلع زیارت میں موسم سرما میں صوبہ کے دیگر اضلاع کی نسبت سخت سردی پڑتی ہے اور اکثر برفباری کی وجہ سے علاقے میں د رجہ حرارت منفی11سے منفی 15تک چلاجاتا ہے۔
گیس پریشر نہ ہونے کی بناء علاقے کے رہائشی سردی سے بچاؤ کے لئے جونیپر کے قیمتی جنگلات کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں ملک کے دیگر صوبوں سے سیاح بھی موسم سرما میں تفریح کی غرض سے زیارت آتے ہیں لیکن گیس پریشر نہ ہونے کی بناء پر انہیں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ضلع زیارت کے قیمتی جنگلات کے بچاؤ اور ضلع کے عوام کی پریشانی کو مد نظر رکھ کر ضلع زیارت کے گیس پریشر کو فوری طو رپر بڑھانے کے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ جونیپر کے قیمتی جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نورمحمد دمڑ نے کہا کہ زیارت میں قیمتی جنگلات کی کٹائی عرصہ دراز سے جاری ہے ضلع میں گیس پہنچنے کے باوجود پریشر میں کمی کے باعث چولہا تک نہیں جلتا ضلع شدید سردی کی لپیٹ میں ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر چکا ہے محکمہ جنگلات اپنے طور پر جنگلات کی کٹائی روکنے کے لئے اقدامات اٹھارہا ہے لوگوں کو جرمانے بھی کئے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گیس پریشر کی بحالی صارفین کی نہیں متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ گیس کی طلب کو پورا کریں۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں 1950ء کی دہائی میں سوئی گیس دریافت ہوئی اور ملک کے کونے کونے تک یہ گیس پہنچی لیکن کوئٹہ کو بھی1980ء کی دہائی میں جا کر گیس فراہم کی گئی۔
آج بھی صرف پانچ اضلاع میں گیس کی سہولت دستیاب ہے زیارت میں جونیپر کے دنیا کے دوسرے بڑے جنگلات کابڑی حد تک صفایا کردیا گیا ہے کیونکہ وہاں پہلے گیس نہ تھی اور اب گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے سابق دور حکومت میں وفاقی حکومت نے زیارت کی ڈویلپمنٹ کے لئے ایک ارب جبکہ ضلع کے تمام علاقوں کو گیس فراہمی کے لئے پچاس کروڑروپے جاری کئے تھے مگر اب تک یہ علاقے گیس سے محروم ہیں فوری طو رپر انہیں گیس فراہم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں گزشتہ کئی روز سے شدید سردی میں مختلف علاقوں میں گیس پریشر میں کمی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں کل اسمبلی کے سامنے بھی احتجاج ہوسکتا ہے گیس کمپنی اپنے نقصانات پوراکرنے کے لئے جان بوجھ کر گیس پریشر کو کم رکھتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ قرار داد میں کوئٹہ سمیت صوبے کے ان تمام اضلاع کے نام شامل کئے جائیں جہاں گیس کی سہولت موجود ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گیس کمپنی کے اعلیٰ حکام کو اسمبلی بلایا جائے۔
صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ یہاں پر صوبے کے ان علاقوں کی بات کی جارہی ہے جہاں گیس موجود ہے مگر پریشر نہیں ہمیں ان علاقوں کو بھی دیکھنا ہوگا جہاں گیس ہی نہیں یہ ہر ملک اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو تمام سہولیات کی فراہمی کے لئے پلاننگ کریں بلوچستان میں بمشکل دس فیصد علاقوں میں گیس ہے ہمیں گیس بجلی سمیت اپنے عوام کو تمام سہولیات کی فراہمی کے لئے یک زبان ہونا ہوگا بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔
قبل ازیں اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن بشریٰ رند نے کوئٹہ میں گیس پریشر کی کمی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ گیس پریشر میں کمی سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا جی ایم سوئی سدرن گیس کو طلب کیا جائے۔
بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی ن کہا کہ گزشتہ دنوں ڈگری کالج سے شیخ زید ہسپتال تک مختلف مقامات پر شہریوں نے گیس پریشر میں کمی کے خلاف احتجاجی دھرنے دیئے اور صبح دس بجے سے شام چار بجے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جس میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے اور اس دوران وقفے وقفے سے بارش بھی ہوتی رہی اس کے باوجود شہری سڑک پر بیٹھے رہے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کے باوجود کسی حکومتی رکن اور ذمہ دار نے مظاہرین سے ملاقات کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے دیگر علاقوں میں بھی گیس پریشر کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے صوبے کے 32اضلاع میں سے صرف چار اضلاع کوسوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گیس فراہم کی جارہی ہے لیکن وہاں بھی سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز میں نے احتجاجی مظاہرین کے ہمراہ جی ایم سوئی سدرن گیس سے ملاقات کی جس کے بعد گیس پریشر میں کسی حد تک اضافہ ہوچکا ہے ملاقات میں جی ایم نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ جتنی گیس استعمال ہورہی ہے اتنا ہی ریونیو جمع کیا جائے انہوں نے کہا کہ اس وقت شہریوں کو29سے90ہزار تک کے ماہانہ بل بھیجے جارہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ شدید سردی میں گیس نہ ہونے کے باعث ٹھٹھر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں اور 14تاریخ کو وفاقی وزیر پانی و بجلی عمر ایوب کوئٹہ آرہے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ ان سے اس مسئلے پر بات کرے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں 3سو یونٹ سے زائد گیس استعمال کرنے پر قیمت میں تین گنا اضافہ ہوجاتا ہے اس سلسلے میں بلوچستان کو خصوصی رعایت ملنی چاہئے انہوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سے متصل علاقے ہنہ اوڑک میں چوبیس گھنٹوں کے دوران صرف چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی کے باعث زیارت میں جنگلات کاٹے جارہے ہیں۔