|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2019

کبھی کبھی آپ کا سامنا ایسے کرداروں سے ہوجاتاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا اور وہ کردار آپ کی آنکھوں کے سامنے ایسے کرامات کا مظاہرہ کرتاہے کہ آپ واقعی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وسیلہ پیدا کرنے میں نہ صرف قدرت رکھتاہے بلکہ جس انسان یا مخلوق کو وہ پیدا کرتاہے اسے زندہ رہنے یا زندگی گزارنے کے لیے عقل اور طریقہ بھی ودیعت کرتاہے جسے سمجھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔

ایک ایسی ہی کہانی سے میرا واسطہ پڑا تو یقین مانیں، ابھی تک میرے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہے کجا کہ میں اسے آپ کو سمجھاسکوں۔ چودہ سالہ بچی منیزہ اپنے علاقے مند (ایران سے متصل سرحدی علاقہ) سے ان سینکڑوں لڑکیوں میں سے ایک تھی جس نے آٹھویں جماعت تک تعلیم تو حاصل کرلی لیکن مزید مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اسے تعلیم کو خیرباد کہہ کر گھر بیٹھنا پڑ گیا۔جب بلوچستان حکومت محکمہ تعلیم نے گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ کے تعاون سے گورنمنٹ مڈل سکول کوہ پشت مند کو ہائی کا درجہ دیا تو اس وقت منیزہ کو اسکول کو خیر باد کہے ہوئے دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ لیکن اس باہمت بچی نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس نویں کلاس میں داخلہ لیا اور دوبارہ سے اپنی تعلیم کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ نویں جماعت کے امتحان میں 75فیصد نمبر حاصل کرکے اپنی قابلیت کی دھاک بھی بٹھا دی۔

یہ پوری کہانی پڑھنے کے بعد یقینا آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کہانی تو ہر اس بچی کی ہوسکتی ہے جسے تعلیم کے مواقع میسر کیے جائیں اور پھر بلوچستان جیسے صوبے میں تو ویسے بھی تعلیم کے لیے محدود مواقع ہیں ایسے میں ہزاروں لڑکیوں کی یکساں کہانی کو یہاں بیان کرنے کا کیا مقصد ہے؟

یقین مانیں یہ کہانی ایک نارمل لڑکی کی نہیں ہے۔۔۔۔یہ کہانی منیزہ کی ہے جو نہ سن سکتی ہے اور نہ ہی اسے بولنے کی نعمت حاصل ہے۔جی ہاں وہ نہ تو اپنے استاد کے لیکچرز کو سن سکتی ہے اور نہ ہی اپنی بات اپنے کلاس فیلوز تک پہنچا سکتی ہے۔ اب کہانی کو دوبارہ پڑھیں تو آپ واقعی میں دنگ رہ جائیں گے کہ ایک ایسی بچی جو نہ تو کچھ سن سکتی ہے اور نہ بول سکتی ہے تو پھر وہ دسویں جماعت تک کیسے تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ وہ امتحان میں کس طرح امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرسکتی ہے؟

بدقسمتی سے ہمارے بلوچستان میں ابھی تک خصوصی بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کرنے کے لیے نہ تو سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی ایسے اساتذہ تعینات کیے جاتے ہیں جو خصوصی بچوں کو تعلیم دینے کے لیے تربیت یافتہ ہوں۔ ایسے میں خصوصی بچوں کے لیے عام بچوں کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا کس قدر مشکل اور اذیت کا باعث بنتاہے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے لیکن ایسے میں کچھ بچے واقعی میں ایسے خاص ہوتے ہیں کہ جو عام سوچ اور توقع سے بڑھ کر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے خاص لوگوں کی کہانیاں دوسرے انسانوں کے لیے سبق آموز واقعات چھوڑ جاتے ہیں۔

منیزہ جیسے بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں مبتلا دیکھ کر اس حقیقت کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر انسان سچی لگن اور جذبے سے کسی مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو کرے تو قدرت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے اور ہر مشکل کو آسان بناتی ہے۔