|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2019

کو ئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس جناب جسٹس عبداللہ بلوچ پرمشتمل بینچ نے جامعہ بلوچستان ہراسگی اسکینڈل میں حتمی رپورٹ سے متعلق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو دو ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ اسکینڈل سے پہلے سب سوئے ہوئے تھے،عدالت نے معاملہ اٹھایا تو سب کی حب الوطنی جاگ گئی،یونیورسٹی کو اتنا بدنام کیاگیاکہ والدین بچوں کو وہاں بھیجنے سے گھبرارہے ہیں۔

گزشتہ روز ڈویژنل بینچ کے روبرو جامعہ بلوچستان ہراسگی سے متعلق آئینی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ارباب طاہر ایڈووکیٹ،رجسٹرار جامعہ بلوچستان،درخواست گزاروں کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس جمال مندوخیل نے یونیورسٹی انتظامیہ سے استفسار کیاکہ عدالت عالیہ کے گزشتہ احکامات پرکس قدر عملدرآمد کیا گیا ہے جس پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ غیر ضروری سی سی ٹی وی کیمرے یونیورسٹی سے ہٹا دیئے گئے ہیں جس پر بینچ کے ججز نے استفسار کیا کہ جو لوگ اسکینڈل میں ملوث ہیں ان کے خلاف محکمانہ انکوائری کرکے کارروائی کیوں نہیں کی گئی ہے جس پر جامعہ بلوچستان کے رجسٹرار نے بتایاکہ انہیں ایف آئی اے کی حتمی رپورٹ کا انتظار ہیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جب سے یہ واقعہ ہوا ہے ہر شخص 50 بندوں کے ساتھ یونیورسٹی آتا ہے اور لیڈر بن جاتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کانے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھیجے گئے مراسلے پر اظہار برہمی کیا اور ریمارکس دئیے کہ پارلیمانی کمیٹی کس حیثیت سے یونیورسٹی وائس چانسلر کو مراسلہ لکھ سکتی ہے، اسکینڈل سے پہلے سب سوئے ہوئے تھے ہم نے معاملہ اٹھایا تو سب کی حب الوطنی جاگ گئی، یونیورسٹی کو اتنا بدنام کردیا گیا کہ والدین بچیوں کو بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں۔

سماعت کے دوران ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائمز ارسلان نے عدالت سے استدعا کی کہ تحقیقاتی رپورٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے دو ہفتے کی مزید مہلت دی جائے، عدالت کے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ تفتیش میں سامنے آیا کہ ان کے ہاں کوئی ایس او پی موجود نہیں تھی، ہارڈسک فرانزک کیلئے بھجوائے گئے ہیں، دو ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلیں گے۔

اس موقع پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جامعہ بلوچسان میں واش رومز میں کیمرے لگانے سے متعلق باتیں بے بنیاد ہیں تاہم یونیورسٹی میں چند کیمرے بغیر اجازت کے نصب کئے گئے، یونیورسٹی ہاسٹلز میں بائیو میٹرک لگائیں تاکہ معلوم ہو کون آرہا کون جارہا، صرف بی ایس ہی نہیں تمام شعبہ جات میں یونیفارم متعارف کروائیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ کسی قسم کی مداخلت برداشت نہ کریں اور ڈیپارٹمینٹل انکوائری بٹھا کر ملوث عناصر تک پہنچیں اور ان کے خلاف کاروائی کریں، بعدازاں کیس کی آئندہ سماعت 2 دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔