دور ِ حاضر میں مہنگائی کسی اژدہا کی طرح اپنا پھن پلائے غریب عوام کی نصیبوں میں کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے، جہاں وہ سانسیں بھی گن گن کر لیتا ہے کہ کہیں اِن کا بھی حساب نہ دینا پڑے، وہ قدم بھی پھونک پھونک کر اُٹھاتا ہے کہ کوئی موچ نہ آجائے اور اِس فاقے کے زمانے میں جہاں گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے، اسپتال وغیرہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اورمہینے کا بجٹ ڈسٹرب نہ ہو، لیکن اِیسے میں بھی غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھا رہے اور نوجوان پارٹ ٹائم نوکریاں کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کررہے ہیں، اِس اُمید پر کہ ایک نہ ایک دن ان کو سرکاری نوکری ملے گی اور باقی کے دن خوشحال گزرینگے۔
جب وہ کسی نوکری کی اشتہار اخبار میں دیکھتا ہے تو اُس کے لیے اپلائی کرتا ہے اور میرٹ پر آنے کے لئے رات دن پڑھائی کرتا ہے، لیکن اُس کے مقابلے میں شرفاء زادے بڑے مزے میں ہوتے ہیں کیونکہ اُن کو یقین ہوتا ہے نوکری تو اُنھی کی جھولی میں گرے گی۔ اُن کے لیے یہ نوکری محض جیب خرچ پوراکرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن غریبوں کے لیے یہ اُن کی زندگی ہوتی ہے، اُن کی قربانیوں کا پھل ہوتاہے، لیکن شرفاء زادے یہ بات کیسے سمجھ سکتے ہیں جن کو ہر چیز پکی پکائی مل جاتی ہے، جنھوں نے نہ لائن میں لگ کر فارم بھرے ہوتے ہیں اور نہ دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنا رول نمبر تلاش کیا ہوتا ہے۔
کچھ تو ٹیسٹ اور انٹریو دینے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور پھر بھی وہ مقدرکا سکندر بن جاتے ہیں اور غریب، غرباء کے بچے لوزرز بن جاتے ہیں۔جب ہم اپنے حق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو ہمیں میرٹ کا گھسا پٹا نعرہ سننے کو ملتا ہے، اگر کسی سرپرے نے جاکر شکایت کربھی دی تو اُس کو چپ کرانے کے لیے ایک چند رکنی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں بھی اُنہی کے لوگ ہونگے، سال بعد وہ کمیٹی اپنا رپورٹ پیش کرے گی تو اِس طرح یہ سارا معاملہ لاش کی طرح ٹھنڈا اور بے جان بن چکا ہوتا ہے۔
میرے پاس 15مئی 2019کا وہ چھپنے والا اشتہار ہے جس میں صوبہ بھر سے بھرتیوں کا اعلان تھا اور کیچ کے حصے میں بھی اچھی خاصی پوسٹیں آئیں، سیٹوں کے اناؤنس ہونے پر ایک طرح کی کھلبلی مچ گئی کیونکہ ہرکوئی آخری تاریخ سے پہلے اپنے کاغذات متعلقہ ادارے میں جمع کرانا چاہتا تھا، تقریباً ہزاروں لوگوں نے قسمت آزمائی کی، ٹیسٹ اور انٹریو دئیے لیکن نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔
میرٹ کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالا گیا،اور پوسٹوں کا پوسٹ مارٹم ہوگیا تھا، جس کے حصے میں جتنے بھی آئیں اُنھوں نے بٹورلیے، کھل کر اور بڑی دیدہ دلیری سے بندر بھانٹ کی گئی، سرعام عوام کے ساتھ دھوکہ کیاگیا، بے روزگار نوجوانوں کی محنت کو پامال کیاگیالیکن نہ کسی کا ضمیرجاگا اور نہ کسی میں انسانیت نے جھرجھری لی۔ ماشااللہ سے ایک صاحب نے تو 12پوسٹیں اپنے ہی خاندان والوں کی جھولی میں ڈال دیں، ایک بیٹا جونیئر کلرک،ایک بیٹا مالی، بھائی نائب قاصد، بہو لیب اسسٹنٹ، بھانجی سوئیپر، مامو زاد بہن سوئیپر، ایک اور مامو زاد بہن لیب اسسٹنٹ، کزن جونیئر کلرک، ایک اور کزن چوکیدار، خالہ کا نواسہ نائب قاصد۔
اِس کے علاوہ ایک اور نیک دل صاحب نے تو اپنے ڈرائیور کے گھر والو ں کو 4پوسٹوں کا تحفہ دیا، اِس کے علاوہ ایک اور صاحبہ نے اپنے بھائی کو جونیئر کلرک کی پوسٹ پر تعینات کرکے اچھی بہن ہونے کا فرض ادا کیا، اور میرے جیسے غریب صرف منہ تکتے رہ گئے اور وہ فتح کا جشن مناتے رہے،اور ہم اپنے نصیبوں کو دوش دیتے رہے۔جب میرے گھر اس ڈرائیور کی بیوی کی بھرتی کی مٹھائی آئی تو مجھے وہ میٹرک پاس خاتون بڑی شے لگی، جو لیب اسسٹنٹ لگ گئی تھی اور اُس کو یہ تک نہیں پتا تھا کہ لیب اسسٹنٹ کے معنی کیا ہیں لیکن وہ ہم سب سے دوہاتھ آگے تھی جس کے شوہرکے سرپر ایک بڑے صاحب کا آشیرواد تھا۔
اِس دفعہ تو کھلے عام اور بڑے دھڑّلے سے دھاندلی کی گئی ایک شخص جو ٹیسٹ اور انٹرویو کے وقت ملک میں موجود ہی نہیں تھا وہ دوبئی میں محنت مزدوری کررہا تھا وہ بھی جونیئر کلرک کی پوسٹ پر بھرتی ہواجو ہمارے تعفن زدہ سسٹم کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ اور تو اور معذور افراد کو بھی نہیں بخشا گیااور اُن کے حق پہ ڈاکہ ڈالا گیا اوراپنے لوگوں کو معذوروں کے کوٹے پہ بھرتی کرنے سے بھی باز نہ آئے۔
اور ہم لاوارثو ں کی طرح صرف سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکالتے رہے، کم از کم اتنا سمجھ لو کہ کیچ لاوارث نہیں جو اپنے اوپر ہوئے ظلم کے بارے میں سوال نہ کرسکے، تو آگے بڑو اور احتجاج کرو، سوال کرو، یہ سب قسمت کا لکھا نہیں، اختیار داروں کا کیا دھراہے، اُس قلم کی سیائی کا حق ادا کرو، اُس باپ کے جھکے ہوئے کاندھوں کے بارے میں اُن اختیارداروں سے سوال کرو جو تمہاری ناکامی کا سبب بنے ہیں، اپنے لئے انصاف مانگو، خود کو یقین دلاؤ کہ غریب ہونے کا مطلب لاوارث نہیں ہے۔