|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بچوں کوبنیادی سہولیات کی فراہمی کے قوانین پرعملدرآمدسے متعلق مشترکہ قرارداد منظورکرلی گئی،اجلاس میں بلوچستان ہیلتھ کیئرکمیشن کا مسودہ قانون مصدرہ 2019 اور کوئٹہ میں گیس بحران سے متعلق تحریک التواء بھی بحث کیلئے منظور کرلی گئی۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ترقی و ترویج کے لئے ویمن پارلیمانی کاکس کے رولز آف پروسیجر مرتب کرنے کی منظوری دینے سے متعلق تحریک منظور کرلی گئی اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کی جانب سے پی بی31کے بی ایچ یوز کی خالی آسامیوں پر تعیناتی کے حوالے سے پوچھا گیا توجہ دلاو نوٹس وزیر صحت کی یقین دھانی پر نمٹا دیا گیا۔

پیر کے روزڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت ایک گھنٹہ 25منٹ کی تاخیر سے شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلا س میں پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند، نصراللہ زیرئے،ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی، شاہینہ کاکڑ، بانو خلیل، اور زینت شاہوانی کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 1989ء میں اقوام متحدہ کی تیسویں سالگر کے موقع پر بچے قو م کا مستقبل ہونے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کے تناظر میں بیان کردہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کئے گئے عہد اور اس پر عملدرآمد جس کی توثیق پاکستان نے 1990ء میں کی یہ ایوان اس ضمن میں اپنے عزم کااظہار کرتا ہے۔

چونکہ آئین کا آرٹیکل35ء بطور ریاستی پالیسی بچوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ پاکستان میں لاکھوں بچے غذائیت، اچھی معیاری تعلیم کا فقدان، چائلڈ لیبر، بدتمیزی، تشدد، جنسی زیادتی، معاشرتی تفاوت اور بچوں کے حوالے سے موجود قوانین کے اطلاق کے ضمن میں ریاستی اداروں کی عدم توجہی کا سامنا ہے اور پاکستان کی جانب سے17ایس ڈی جیز ٹارگٹس کا 2030تک حصول کے ضمن میں پاکستان کے عزم کا اظہار جس میں بچوں کی فلاح و بہبود اور ان عناصر کا خاتمہ شامل ہے جو ان کی ترقی ونشوونما کی راہ میں رکاوٹ ہیں ایس ڈی جیز پر ابتدائی ٹاسک فورس کے قیام کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات قابل تعریف ہیں جن کا تعلق بچوں کے حقوق کی خصوصی کمیٹی سے ہے۔

اس لئے یہ ایوان صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام بچوں بشمول معذور بچوں کو ضروری بنیادی ضروریات جن میں صحت مند غذا، صحت کی دیکھ بھال، حفاظتی ٹیکہ،ابتدائی بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم، بلامعاوضہ لازمی بنیادی تعلیم، ہر قسم کے تشدد سے تحفظ، جنسی زیادتی سے بچاؤ اور چائلڈ لیبر کی صورت میں بچوں کے معاشی استحصال کو رکونے اور بچوں سے متعلق ان قوانین پر جو وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے پہلے سے تشکیل دیئے جاچکے ہیں پر فوری عملدرآمد اورمزید ایسے قوانین وضع کئے جائیں جن کا تعلق بچوں کے معاملات سے ہو جو پہلے وضع کردہ قوانین میں موجود نہ ہوں۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پاکستان نے بچوں کے قوانین سے متعلق جنیوا کنونشن پر دستخط کئے ہیں ملک میں بچوں سے متعلق کئی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا گزشتہ دور حکومت میں چائلڈ لیبر اور بچو ں کے حقوق سے متعلق 17کے قریب قوانین بنائے گئے قوانین بنائے تو جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد سے متعلق ضابطہ کار تک نہیں رول اینڈ بزنس نہیں بن سکے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 72فیصد بچے سکول سے باہر ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غذائی قلت کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اب تک پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ قرار داد پر بات کرتے ہوئے صوبائی سماجی بہبود اسد بلوچ نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں بچے ہوٹلوں، گیراجز اور دیگرجگہوں پر مشقت کاکام کرتے ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ اور بچوں کی کفالت کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے افراتفری اور انارکی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ان بچوں کو اٹھا کر برین واش کرکے انہیں استعمال کیا جاتا ہے حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے حقوق کے لئے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بناکر ان کی تعلیم اور نشوونما کے لئے اقدامات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ان بچوں کے لئے قائم سینٹرمیں انہیں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور ان بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس ضمن میں سوشل ویلفیئر کی تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ قرار داد پر بی اے پی کی بشریٰ رند نے بھی اظہار خیال کیا جس کے بعد قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی گئی۔

اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن و پارلیمانی سیکرٹری ماہ جبین شیران نے وزیراعلیٰ بلوچستان و صوبائی وزراء کے (مشاہرات، مواجبات و استحقاقات) کا ترمیمی مسودہ قانون مصدرہ2019ء (مسودہ قانون نمبر20) ایوان میں پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیاگیا۔ وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے بلوچستان ہیلتھ کیئر کمیشن کا مسودہ قانون کو مجلس کی سفارشات کے موجب منظور کرنے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری نے دی۔

ایوان نے ماہ جبین شیران کی جانب سے وزیر قانون وپارلیمانی امور کی غیرموجودگی میں ضابطہ دیوانی (بلوچستان کا ترمیمی) مسودہ قانون متعلقہ مجلس کی سفارشات کے بموجب منظور کرنے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری دیتے ہوئے ایوان نے ضابطہ دیوانی (بلوچستان کاترمیمی) مسودہ قانون کمیٹی کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا۔

اجلاس میں بی اے پی کی رکن و پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ترقی و ترویج کے لئے 5نومبر2018ء کو ایک قرار داد کے ذریعے بلوچستان اسمبلی کی خواتین اراکین اسمبلی کے درمیان ان کی پارٹی وابستگی سے قطع نظر مشترکہ تعاون اور باہمی امداد کی روایت کو پروان چڑھانے کی خاطر بلوچستان اسمبلی نے خواتین اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک ویمن پارلیمانی کاکس کے قیام کی منظوری دی تھی لیکن ویمن پارلیمنٹری کاکس کے روزہ مرہ امور کی انجام دہی کے لئے اب تک باقاعدہ رولز آف پروسیجر مرتب نہیں کئے گئے۔

ویمن پارلیمنٹری کارکس کو اپنے روزہ مرہ امور کی انجام دہی اور خواتین کو بااختیار بنانے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ترقی و ترویج کے لئے رولز آف پروسیجر مرتب کرنے کی منظوری دی جائے تاکہ ویمن کاکس اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکے۔ایوان نے متفقہ طو رپرتحریک کی منظوری دے دی۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے اپنی توجہ دلاؤنوٹس سے متعلق سوالات دریافت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیایہ درست ہے کہ پی بی31کے بی ایچ یوز کی خالی آسامیوں پر تعیناتی عمل میں لائی گئی ہیں اگر تعیناتیاں کرلی گئی ہیں تو بتایا جائے کہ اشتہارکن اخبارات میں مشتہر کئے گئے اور کن لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے ان کے نام اور ولدیت سمیت دیگر کوائف سے آگاہ کیا جائے۔

جس پر وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ محکمے نے تعیناتیاں نہیں کیں اگر رکن کے پاس اس بارے میں معلومات اور شواہد ہیں تو ہمیں آگاہ کریں ہم تعیناتیوں کو منسوخ کردیں گے۔

اجلاس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادرعلی نائل نے گیس پریشر سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردی شروع ہوتے ہی کوئٹہ شہر و گردونواح بالخصوص حلقہ پی بی 26میں شامل ہزارہ ٹاؤن، پشتون باغ، بروری روڈ، کرانی اور اسی طرح حلقہ پی بی27میں شامل علمدار روڈ، پشتون آباد، ناصر آباد، مومن آباد، سیٹلائٹ ٹاؤن، لیاقت بازار اور کواری روڈ وغیرہ کے علاقوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید سردی میں مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔

اس لئے ایوان کی کارروائی روک کراس اہم اور عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایا جائے تحریک التواء کو اراکین کی مشاورت سے بحث کے لئے منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے اس پر اگلے اجلاس میں عام بحث کی رولنگ دی۔