|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ چمن شاہراہ پر حادثات کی روک تھام کیلئے اقدامات،خاران میں ہائی کورٹ کے سرکٹ بینچ، نصیر آباد اور خاران میں میڈیکل کالجزکے قیام اور کوئٹہ کی کلی سبیل سمنگلی میں قبائل کی زمین غیر متعلقہ افراد کو الاٹ کرنے کے خلاف قرار دادیں منظور کر لیں گئیں،ایوان نے وزیر اعلی بلوچستان اور صوبائی وزرا کے مشاہرا ت اور استحقاقات کا ترمیمی مسووہ قانون بھی منظور کر لیا،سوئی گیس کے پریشر میں کمی کے مسلے پر ڈپٹی اسپیکر نے جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی کوپیر کو چیمبر میں طلب کرلیا۔

اجلاس میں وقفہ سوالات اورریکوڈک سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں نوک جھونک تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا، اجلاس ڈپٹی اسپیکر نے کوئٹہ میں حکومتی پالیسی کے برخلاف محکمہ تعلیم میں ہونے والے اٹیچمنٹس کو منسوخ کرنے کی رولنگ دیتے غوث اللہ قتل کیس میں سی پی او کوئٹہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ داخلہ بلوچستان سے واقعے کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی پوائنٹ آف آرڈر پر نصیر شاہوانی نے زمینداروں کی وزیراعلیٰ سے ملاقات نہ کروانے مشیر مٹھاخان کاکڑ نے ژوب میں پی آئی اے کی پروازوں کی بندش کا معاملہ ایوان اٹھایا۔

جمعرات کے روز بلوچستان اسمبلی کااجلاس ڈپٹی اسپیکر سرداربابرموسی خیل کی زیرصدارت ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں جے یوآئی کے حاجی محمد نواز نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ چمن شاہراہ کا شمار صوبے کی اہم قومی شاہراہوں میں ہوتا ہے لیکن اوور لوڈنگ اوور سپیڈ، قانون پر عملدرآمد کا نہ ہونا اور شاہراہ کی ناقص جیو میٹری کے باعث آئے روز حادثات رونما ہوتے رہے ہیں جن کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع اورہزاروں افراد زخمی ہوچکے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اوور اسپیڈ اور اوور لوڈنگ کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔

صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ کوئٹہ تا چمن قومی شاہراہ پر رونما ہونے والے حادثات کی روک تھام کے لئے ہائی وے پولیس کو قانون پر عملدرآمد کرنے کا پابند بنائے نیز ہر تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایمرجنسی ہیلتھ یونٹس کا قیام، کیٹ آئیز، اور روڈ لائننگ کاکام شروع کرنے کے ساتھ مذکورہ قومی شاہراہ کو دورویہ کرنے کو بھی یقینی بنائے تاکہ حادثات کی روک تھام کا مستقل حل ممکن ہو۔

انہوں نے کہا کوئٹہ چمن شاہراہ بین الاقوامی شاہراہ ہے جہاں آئے روز حادثات پیش آتے ہیں اور حادثات میں زخمی ہونے والے افراد بروقت ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے راستے میں جتنے ہسپتال اور طبی مراکز ہیں وہاں سہولیات کا فقدان ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے ایوان میں قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبہ میں انصاف کی فوری اور ممکنہ فراہمی کو سہل بنانے کے حوالے سے مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود صوبے کے وسیع و عریض ڈویژن رخشان جس میں خاران، واشک، چاغی اور نوشکی کے اضلاع شامل ہیں تاحال ہائی کورٹ کے سرکٹ بینچ کا قیام عمل میں نہیں لایاگیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے عوام کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں احساس محرومی اور بے چینی پائی جاتی ہے اس لئے صوبائی حکومت سے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ رخشان ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر خاران میں سرکٹ بینچ کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ وہاں کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی اور مایوسی کا ازالہ ممکن ہو۔

ثناء بلوچ اور اختر حسین لانگو کی ایک اور مشترکہ قرار داد رخشان اور نصیرآباد ڈویژن سے متعلق تھی جس کے متن میں کہا گیا کہ تاحال دونوں ڈویژنز میں میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے وہاں کے طلباء اور عوام میں مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے صوبائی حکومت رخشان ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر خاران اور نصیر آباد میں میڈیکل کالجز کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ نہ صرف وہاں کے طلباء اور عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور احساس کمتری کا خاتمہ ممکن ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے ڈاکٹروں اور ماہرین کی تعداد میں اضافہ اور ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کیا جاسکے ایوان نے دونوں قرار دادیں متفقہ طورپر منظورکرلیں۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بلاپیمودہ زمینوں سے متعلق قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کلی سبیل سمنگلی کے زمینداروں کی جدی پشتی3000ایکڑ بلا پیمودہ اراضیات پر ایئر فورس کی جانب سے دیوار تعمیر کی گئی ہے اب وہاں پولیس چوکی تعمیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ملک کے قیام سے قبل بھی یہ اراضی کاسی قبیلے کی ملکیت تھی اور اس پر کاسی قبیلہ قابض تھا جب رائل ایئر فورس یہاں مشقوں کا انعقاد کرتی تو کاسی قبیلہ اور نوحصار کے زمینداروں کو سالانہ وار کے حساب سے کرایہ بھی ادا کرتی جسے بعد میں بڑھایا بھی گیا سال1977ء میں ایئر فورس نے کلی سمنگلی کی زرعی اراضیات کو ایکوائر کیا تو مذکورہ اراضی جو آبادی میں واقع تھی کے بدلے میں بغیر کسی انتقال کے زبانی کلامی حکومت کو دی گئی جو2019ء تک وہاں کے زمینداروں کے قبضے میں تھی او روہاں ایک عیدگاہ بھی تعمیر کی گئی۔

جو اب غیر متعلقہ افراد کے الاٹ کی گئی ہے صوبائی حکومت کلی سبیل سمنگلی میں کاسی قبیلہ کی اراضی جو غیر متعلقہ افراد کے نام الاٹ کی گئی ہے کو کینسل اور اس پر تعمیر کردہ غیر قانونی پولیس چوکی کے ختم کرنے کو یقینی بنائے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے محرک نصراللہ خان زیرئے نے کہا کہ کوئٹہ کے مقامی قبائل کی بلا پیمودہ اراضی پر قبضے ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ جب یہاں انگریز کی حکومت تھی تب بھی قبائل سے معاہدے کے تحت اراضی حاصل کرکے ان کو اس کی قیمت ادا کی جاتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہورہا بلکہ بغیر کسی معاہدے کے قبائل کی ہزاروں ایکڑ اراضی لی گئی ہے۔

کوئٹہ کے مقامی قبائل نے اپنی اراضی کے تحفظ کے لئے اپنی تنظیم بھی بنائی ہے جبکہ اس سے پہلے دو سال قبل سینٹ کی ایک کمیٹی نے بھی کوئٹہ کا دورہ کرکے اپنی سفارشات میں اراضی کو قبائل کی ملکیت قرار دیا تھا انہوں نے زور دیا کہ قبائل کی اراضی لینے سے گریز کیا جائے اس سے امن وامان کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف کوئٹہ تک نہیں بلکہ چمن کی کئی ایسی کلیاں ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھیں وہاں کے مکینوں کو گھر خالی کرنے کے نوٹس دیئے جارہے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ بغیر متبادل اراضی کی فراہمی یا قیمت کی ادائیگی کے بغیر مکینوں کو بے دخل نہ کیا جائے انہوں نے تجویز دی کہ قرار داد میں کوئٹہ اور چمن سمیت جہاں جہاں اس حوالے سے مسائل ہیں ان علاقوں کے نام بھی قرار داد کے متن میں شامل کئے جائیں۔ بی این پی پارلیمانی لیڈ رملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ بلا پیمودہ اراضی کے حوالے سے کوئٹہ میں کسی ایک مخصوص نہیں بلکہ بڑے علاقے میں مسائل درپیش ہیں کوئٹہ کے مقامی قبائل نے اپنی تنظیم بھی بنائی ہے اور بلا پیمودہ اراضی کی سیٹلمنٹ کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اب تو اس احتجاج میں نصیر آباد کے زمیندار بھی شامل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں کہیں بھی بلا پیمودہ اراضی حکومت کی نہیں بلکہ زمینداروں کی ہے ہمارے ہاں ملک کے قیام کے بعد کوئی سیٹلمنٹ نہیں ہوئی جبکہ دوسرے صوبوں میں یہ عمل ہوتا رہا ہے بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ کی سیٹلمنٹ کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خضدار دادوشاہراہ کی تعمیر کے موقع پر بھی مالکان کو اراضی کی قیمت ادا کی گئی تھی انہوں نے بھی قرار داد میں کوئٹہ سمیت صوبے کے دوسرے علاقوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی۔ اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ1992ء میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بلا پیمودہ زمینوں کا تعین کا سلسلہ شروع کیا جن زمینوں کا سرکاری ریکارڈ موجود نہیں وہ قبائل کی ملکیت ہیں اور ان پر قبائل آپس میں حدود طے کرتے ہیں جو زمینیں سرکار کے نام پر نہیں ہیں وہ قبائل کی ملکیت تھیں اور رہیں گی اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے پی ا ے ایف بیس کی توسیع کے لئے بھی قبائل کی زمین استعمال کی گئی اس قرار داد کی حمایت ہونی چاہئے۔

اقلیتی رکن ٹائٹس جانسن نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں مسیحی برادری کے قبرستانوں اور ان کے لئے وقف زمینوں پر سرکاری ادارے قبضہ کررہے ہیں اس کا نوٹس لیا جانا چاہئے جس پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی کہ وہ اگلے اجلاس میں اس پر سوال لے کر آئیں تاکہ محکمہ ریونیو سے اس حوالے سے تفصیلات طلب کی جائیں اقلیتوں کی زمینوں پر قبضہ نہیں ہونا چاہئے۔

مکھی شام لال لاسی نے کہا کہ قبائل اور اقلیتوں کی زمینوں پر قبضے کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے ساتھ ناانصافیوں کا نوٹس لیا جانا چاہئے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں قبائل صدیوں سے آباد ہیں صوبے میں ریونیو قوانین کے تحت اگر کسی زمین کا تنازعہ ہو تو اس کا ایک مکمل طریق کار موجود ہے عدالتوں میں حکومتوں کے خلاف بھی فیصلے آئے ہیں قبائل قانون پر عمل کریں سیکورٹی اداروں کی ملک کے لئے بہت سی قربانیاں ہیں ان پر الزامات لگانا درست نہیں الزامات لگانے کی بجائے قبائل قانونی راستہ اختیار کریں۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں قرار داد کی منظوری سے منفی پیغام جائے گا پہلے ایک کمیٹی بنا کر حقائق معلوم کئے جائیں اس کے بعد قرار داد منظور کی جائے ابھی قرار داد کی منظوری قبل از وقت ہوگی اس لئے اپوزیشن رکن قرار داد واپس لیں اور قبائل قانونی راستہ اختیار کریں ان کے ساتھ ناانصافی اگر ہوئی ہے تو اس کا ازالہ ہوگا جس پر قرار داد کے محرک نصراللہ زیرئے نے کہا کہ قبائلی کمیٹی کے فیصلے اور قوانین پر عمل نہیں ہورہا لہٰذا قرار داد پر رائے شماری کی جائے بعدازاں ایوان نے رائے شماری کے بعد قرار داد منظور کرلی۔

اجلاس میں حکومتی رکن دنیش کمار نے وزیراعلیٰ بلوچستان وصوبائی وزراء کے (مشاہرات، مواجبات و استحقاقات) کے (ترمیمی)مسودہ قانون مصدرہ 2019(مسودہ قانون نمبر20مصدرہ2019) مجلس قائمہ برائے محکمہ ملازمتہائے عمومی نظم و نسق، بین الصوبائی رابطہ، قانون و پارلیمانی، پراسیکیوشن و انسانی حقوق کی سفارشات کے بموجب ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔

اجلاس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے گزشتہ اجلاس میں اپنی باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی پی بی 26اور پی بی27سمیت کوئٹہ کے وسیع علاقے میں ایک مرتبہ پھر گیس غائب ہوگئی ہے جس پر آئے روز عوام احتجاج کرتے ہیں کوئٹہ میں لاکھوں گیس صارفین کا کوئی پرسان حال نہیں سوئی گیس حکام غیرقانونی گیس استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بجائے قانونی طریقے سے گیس استعمال کرنے والے صارفین کو اس کی سزا دیتے ہیں گیس کمپنی اپنے لاسز کم کرنے کے لئے گیس پریشر کو جان بوجھ کر کم کردیتی ہے۔

ہر بار احتجاج کے بعد ایک دو دن گیس پریشر ٹھیک ہونے کے بعد ایک بار پھر صورتحال خراب ہوجاتی ہے دوسری جانب گیس کمپنی کا عملہ میٹروں کو چیک کرنے کی بجائے دفتر میں بیٹھ کر صارفین کو ہزاروں روپے کے بل بھیج دیتا ہے صارفین کے گیس دفتر جانے پر انہیں بتایاجاتا ہے کہ ان کے میٹر خراب ہیں جنہیں تبدیل کرنا ہوگا۔

تبدیل شدہ میٹروں میں کئی یونٹ گیس بل شامل کرکے ہزاروں روپے کے بل لوگوں کو بھیج دیئے جاتے ہیں جبکہ تیز رفتار گیس میٹر لگا کر عوام کو اذیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے اسی طرح کوئٹہ کے لئے سلیب بنائے گئے ہیں جن کا دوسرے صوبوں میں کوئی تصور نہیں مخصوص یونٹ تک استعمال کرنے کے بعد سلیب تبدیل ہونے سے فی یونٹ قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے دوسری جانب گزشتہ پانچ چھ سال سے کوئٹہ شہر میں گیس کی نئی پائپ لائنیں بچھانے سمیت کسی منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ گیس کمپنی کے حکام کو ایوان میں بلایا جائے کہ وہ اس سلسلے میں ارکان کو بریفنگ دیں او راس ضمن میں اوگرا کو خط لکھ کر کوئٹہ سمیت بلوچستان میں جہاں جہاں گیس کی سہولت موجود ہے وہاں پریشر کو درست اور دیگر مسائل حل کئے جائیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کوئٹہ، پشین، مستونگ، زیارت میں گیس نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے سوئی گیس حکام کے کہنے پر فکسڈ بلنگ کی قرار داد بھی منظور کی تھی لیکن وفاق نے اسے بھی مسترد کردیا ہے گیس پریشر موجود ہے لیکن اسے چھوڑا نہیں جاتا سردی بڑھ رہی ہے لوگ جان بچانے کے لئے گیس استعمال کرتے ہیں اس معاملے پر وفاق سے رجوع کیا جائے۔

بی این پی کے احمدنواز بلوچ نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ پورے صوبے کے مختلف علاقوں میں موجود ہے عوام گیس کے لئے سراپا احتجاج ہیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ جے یوآئی کے اصغر علی ترین نے کہا کہ سوئی گیس حکام مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور ہمیں مسلسل نظر انداز کررہے ہیں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے شہری علاقوں میں صرف دو گھنٹے گیس چھوڑی جاتی ہے جی ایم سوئی گیس کو بلا کر ان سے وضاحت طلب کی جائے۔

صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وفد کے سامنے بھی اس مسئلے کو اٹھایاگیا جی ایم سوئی گیس کا موقف ہے کہ لاسز بہت زیادہ ہیں جس پر وفاقی وزیر نے کوئٹہ میں گیس پائپ لائن کی تبدیلی کے لئے فوری طو رپر پی سی ون بناکر ارسال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ جی ایم سوئی سدرن گیس کمپنی مسئلہ حل نہیں کرسکتے لہٰذا ایم ڈی کو طلب کرکے ان سے وضاحت طلب کی جائے اور مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت میرے پاس چھ سو کے قریب بل پڑے ہوئے ہیں جو 21ہزار سے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے تک ہیں اراکین کے اظہار خیال کے بعد ڈپٹی سپیکر نے تحریک التواء نمٹاتے ہوئے ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی کو پیر کے روزاسمبلی میں طلب کرنے کی رولنگ دی۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے کوئٹہ کے مختلف سکولوں میں تعینات اساتذہ کے کوائف سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2013ء سے اب تک صوبے کے دیگر اضلاع سے بذریعہ تبادلہ یا اٹیچمنٹ بنیادوں پر کوئٹہ کے سکولوں میں تعینات اساتذہ کے حوالے سے سوال پوچھا تھا مگر وزیر موصوف نے جو جواب دیا ہے میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ وزراء اپنے حلقوں سے لوگوں کا تبادلہ کراکر وہاں خالی ہونے والی آسامیوں پر اپنے منظور نظر افراد کو تعینات کردیتے ہیں جہاں تک کوئٹہ میں تعینات 428لوگوں کا تعلق بلوچستان کے دیگر اضلاع سے ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں جا کر اپنے لوگوں کی خدمت کریں جس پر مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے کہا کہ کوئٹہ میں اٹیچمنٹ پرتعینات775ملازمین کو واپس ان کے اضلاع میں بھیج دیاگیا ہے دیگر اٹیچ ملازمین کو بھی واپس بھیجاجائے گا حکومت کی پالیسی ہے کہ اگر کہیں میاں بیوی دونوں ملازمت کررہے ہیں تو انہیں ایک ہی شہر میں تعینات کیا جاتا ہے۔

جس پر بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ کوئٹہ میں سکونت پذیر ہو جہاں تک وزیر موصوف نے حکومتی پالیسی کا ذکر کیا ہے تو اگر یہ428تعینات افراد میاں بیوی ہیں تو پھر ہمیں کوئی اعتراض نہیں انہوں نے کہا کہ دیگر اضلاع کے ملازمین کو کوئٹہ میں تعینات کرکے کوئٹہ کے ملازمین کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے تعیناتیوں کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے۔

نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کوئٹہ میں اٹیچمنٹ پر تعینات ملازمین کو ان کے اضلاع میں تعینات کیا جائے۔ ایچ ڈی پی کے قادر علی نائل نے بھی اٹیچمنٹ پر تعینات ملازمین کی تعیناتیاں منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹیچمنٹ کی منسوخی سے کم سے کم یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کا سلسلہ تو بند ہوجائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے معاملے پر پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کمیٹی قائم کی جائے کوئٹہ صوبے کا دارالخلافہ ہے یہاں دیگر اضلاع کے لوگوں کا بھی اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا یہاں کے شہریوں کا ہے۔

وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ اضلاع سے اٹیچمنٹ پر ملازمین کو دیگر اضلاع میں تعیناتیاں کرکے وہاں آسامیاں خالی کرنے کا عمل درست نہیں ہے گزشتہ حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کو اٹیچمنٹ پر ایک سے دوسرے ضلع میں تعینات کیا گیا انہوں نے کہا کہ ہر معاملے میں میرٹ کو اولیت دینی چاہئے۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ صوبائی حکومت بہتر طریقے سے تمام معاملات کو آگے بڑھارہی ہے تقرریوں، تعیناتیوں اور اٹیچمنٹ سے متعلق تمام پالیسیاں اور قوانین واضع ہیں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے کوئٹہ کا رخ کرے جتنا اس ضلع پر یہاں سے منتخب 9اراکین اسمبلی کا حق ہے اتنا ہی اس ایوان میں موجود بلوچستان کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کا بھی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اٹیچمنٹ پر تعیناتیاں قوانین کے برخلاف ہوئی ہیں توہم اس کا جائزہ لے کر اقدامات اٹھائیں گے۔جے یوآئی کے عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ پشین میں بھی نصیر آباد سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع سے لوگوں کو لا کر تعینات کیا گیا ہے جس پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی پالیسی کے برخلاف ہونے والے اٹیچمنٹس کو منسوخ کیا جائے۔

مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے بی این پی کے ثناء بلوچ کے ضلع آواران میں کنٹریکٹ پر تعینات انٹرنیز کی ملازمتوں کی تجدید نہ ہونے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ضلع آواران میں 35کے قریب سکول ایک ٹیچر پر مشتمل تھے محکمہ تعلیم ضلع میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ آواران میں زلزلے کے بعد اس کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 7کروڑ روپے کے فنڈز دیئے تھے تاکہ نوجوانوں کو تربیت فراہم کی جائے تاکہ یہ نوجوان وہیں اپنے علاقوں میں اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔

اس سلسلے میں آواران اور ڈنڈارمیں کنٹریکٹ پر نوجوانوں کو تعینات کیا گیا اب وہ بجٹ ختم ہوچکا ہے محکمہ تعلیم بڑے پیمانے پر تعیناتی کررہا ہے جس سے اساتذہ کی کمی پوری ہوجائے گی۔ ملک نصیر شاہوانی نے اپنے حلقے میں سکولوں کی خستہ حال عمارتوں کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ زڑخو میں قائم سکولوں میں کھڑکیاں اور دروازے تک موجود نہیں ہیں ان سکولوں کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے جس پر مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے کہا کہ وہ جلد ہی ان سکولوں کا دورہ کریں گے۔

ضلع کوئٹہ میں قائم مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت کی تعداد اور تعینات ملازمین سے متعلق پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کے پوچھے گئے ضمنی سوال کے جواب میں وزیر صحت میر نصیب اللہ اراکین نے بتایا کہ پی بی 31میں بی ایچ یوز اور آر ایچ سینٹرز میں نگران دور حکومت میں تعیناتیاں ہوئیں ان تعیناتیوں کا ہم از سرنو جائزہ لے رہے ہیں اگر تعیناتیاں قواعد وضوابط کے برخلاف ہوئیں تو تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ نگران دور حکومت میں ہونے والی تعیناتیوں کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعلیٰ نے میری سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے اس سلسلے میں اب تک کسی قسم کی شکایت کمیٹی کو موصول نہیں ہوئی ماسوائے عبدالواحد صدیقی کے جنہوں اس حوالے سے اپنی شکایت جمع کرائی ہے۔انہوں نے کہا کہ پیر کے روز دوبارہ سرکلر جاری کیا جائے گا اگر کسی کو شکایات ہیں تو وہ کمیٹی سے رابطہ کرے تاکہ ان کی شکایات پر کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں کی تحقیقات بھی اسی کمیٹی کے سپرد کی جائیں۔ وزیر واسا وپی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ موجودہ دورحکومت میں ڈیلی ویجز کی بنیاد پر محکمے میں کوئی تعیناتی نہیں کی گئی اگر اس سلسلے میں کسی کے پاس کوئی شکایت ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کی جانب سے گیس آمدنی، کرایہ اور رائلٹی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن سے متعلق سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری مبین خلجی نے جواب دیا کہ پی پی ایل سے سوئی گیس کی رائلٹی کی مد میں معاہدے کی توثیق اب تک نہیں کی گئی مذاکرات کا پہلا دور وفاق سے ہوا جس کے بعد اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ثناء بلوچ نے کہا کہ جون2015ء میں بھی سوئی گیس معاہدے کی تجدید کا معاہدہ ہوا اس کی بھی تفصیل فراہم کی جائے کیونکہ میری معلومات کے مطابق یہ معاہدہ خلاف قانون ہوا ہے جس کے جواب میں وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے وفاقی وفد کے سامنے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جو بھی معاہدے ہوں گے۔

اس میں صوبہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق کے ساتھ پچاس فیصد کا حصہ دار ہوگا صوبائی حکومت نے پارکو کو الاٹ کی جانے والی زمین اس لئے منسوخ کردی تھی کیونکہ اس پر معاہدے کے تحت طے شدہ مدت مکمل ہونے کے باوجود بھی کام نہیں ہوا اگر ہم نئی شرائط کے مطابق معاہدے کریں تو ہمیں سالانہ20ارب روپے کی آمدن ہوسکتی ہے انہوں نے کہا کہ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے مابین بلاک28میں نئے ذخائر موجود ہیں جن پر آئین کے آرٹیکل172(3)کے تحت صوبے کی پچاس فیصد حصہ داری پر معاہدہ ہوگا ہم کوئی بھی کام چھپا کر نہیں کررہے اور نہ ہی حکومت کسی سے کوئی خفیہ معاہدہ کرے گی ہم اپوزیشن، عوام اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں گے۔

جس کے جواب میں ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی اس پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی اور ثناء بلوچ کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے رائلٹی کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے کم ہوچکے ہیں حکومت تاریخ بتائے کہ وفاق سے کب معاہدہ ہوگا انہوں نے کہا کہ صوبے میں افسران پر دباؤ ڈالا جارہا ہے حکومت واٹس ایپ پر چلائی جارہی ہے۔

تمام اضلاع میں مداخلت جاری ہے حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی جبکہ افسران کو بھی بلیک میل کیا جاتا ہے جس کے جواب میں میر ظہور بلیدی نے کہا کہ 1973ء یا1997ء میں ہماری حکومت نہیں تھی جس کا ہم جواب دے سکیں ہم صرف اپنے عمل کے جوابدہ ہیں 1997ء میں جن کی حکومت تھی وہ سب کو معلوم ہے اس وقت وزیراعظم سے سوال کرنے کی بجائے گاڑی چلا کر انہیں چاغی لیجایا گیا ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی حکومت نے اب تک ایک ہزار اسکیمات پر ٹینڈرز کئے ہیں اتنا کام گزشتہ تین حکومتوں میں بھی نہیں ہوا اپوزیشن حکومت کے اچھے کاموں کو سراہے۔

اس موقع پر ایک بارپھر رکن اسمبلی ثناء بلوچ اور سردارعبدالرحمان کھیتران کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے ہزار گنجی میں ماشہ خوروں کے کیمپ کے خلاف پولیس کی کارروائی کا نکتہ اٹھایا جس پر وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے جواب دیا کہ ماشہ خوروں کے مسائل حل کرنے کے لئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں گے اس سلسلے میں اجلاس بھی بلائیں گے۔اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں اغواء ہونے والے نوجوان سید غوث اللہ کے قاتلوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو بلا کر ان سے وضاحت طلب کی جائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ غوث اللہ کے والد سمیت ان کے خاندان کے افراد کو چار مرتبہ اغواء کیاجاچکا ہے وہ اسی ملک کے شہری ہیں تاوان دینے کے باوجود بھی غوث اللہ کو قتل کیاگیا لیکن اب تک قاتلون کی نہ تو نشاندہی ہوئی نہ ہی گرفتاری عمل میں آسکی جو حکومت عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی وہ حکومت کرنے کے لائق نہیں اس موقع پر ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ سی پی او کوئٹہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ داخلہ بلوچستان ڈپٹی سپیکر چیمبر میں آکر واقعے کے حوالے سے رپورٹ دیں۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں زمینداروں نے اسمبلی کے باہر احتجاج کیا جس پر ان سے مذاکرات کئے گئے اور کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی کروائی جائے گی لیکن اب تک معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، وزیراعلیٰ کے مشیر مٹھاخان کاکڑ نے ژوب میں پی آئی اے کی پروازوں کی بندش کا معاملہ ایوان میں اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ژوب سے پی آئی اے کا آپریشن دوبارہ بحال کیا جائے۔اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ نے ریکوڈک سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر معدنیات سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت نے ریکوڈک کیس کے بارے میں عالمی سطح پر اقدامات اٹھائے ہیں۔

اگر جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے اگست2019ء کے بعد ریکوڈک کیس کے بارے میں جتنے بھی اقدامات اٹھائے ہیں ان کی مکمل تفصیل ایوان کو فراہم کی جائے جس پر وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے بتایا کہ بین الاقوامی ثالثی فورم نے ریکوڈک سے متعلق چھ ارب ڈالر کا جرمانہ بلوچستان حکومت پر عائد کیا ہے اس سلسلے میں کیس کی پیروی کے لئے وکلاء سے ہماری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے ریکوڈک کے معاملے پروفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ سے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے حکومت بلوچستان اور حکومت پاکستان اس معاملے میں فریق ہے ہمارا مقصد ہے کہ اس معاملے کا کسی طرح سے حل نکالا جاسکے تاکہ جو مصیبت آن پڑی ہے اس سے ہم نکل سکیں ریکوڈک حکومت کی نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے جس پر ہم کوئی بھی کمپرومائز نہیں کریں گے اس سلسلے میں اپوزیشن کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کو تیار ہیں صوبے میں مائنزاینڈ منرلز سے متعلق کمیٹی قائم ہے اپوزیشن چاہے تو وہاں وکلاء کو بلا کر انہیں بریفنگ دے دیں گے۔

ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے 14اکتوبر کو حفیظ شیخ اور اٹارنی جنرل نے اس سلسلے میں کمپنی حکام کے ساتھ ملاقات کی ہے اور22اکتوبر کوعمران خان نے دورہ حب کے موقع پر اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ریکوڈک سے متعلق ٹھیتیان کمپنی کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ معاملے کی تفصیلات کو ایوان میں پیش کیا جائے۔اس دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں نوک جھونک ہوئی اورتندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا بعد ازاں ڈپٹی سپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دی۔

اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی اکبر مینگل نے پی پی ایچ آئی سے متعلق توجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت نے نیب تحقیقات کا سامنا کرنے والی تنظیم پی پی ایچ آئی کوہائی ویزیر ریکسیو سینٹرز قائم کرنے کا 3 ارب اورژوب میں کروڑوں روپے کا تعمیراتی منصوبے کے حوالے کیا گیا ہے اگر جز الف کا جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے جو منصوبے پی پی ایچ آئی کے حوالے کئے ہیں ان کی مکمل تفصیل فراہم کی جائے نیز مذکورہ منصوبے کے حوالہ کرنے کی وجوہات بھی بتلائی جائے، جس پر صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے آئندہ اجلاس میں تفصیلات پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

جس کے جواب میں ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی اس پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی اور ثناء بلوچ کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے رائلٹی کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے کم ہوچکے ہیں حکومت تاریخ بتائے کہ وفاق سے کب معاہدہ ہوگا انہوں نے کہا کہ صوبے میں افسران پر دباؤ ڈالا جارہا ہے حکومت واٹس ایپ پر چلائی جارہی ہے۔

تمام اضلاع میں مداخلت جاری ہے حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی جبکہ افسران کو بھی بلیک میل کیا جاتا ہے جس کے جواب میں میر ظہور بلیدی نے کہا کہ 1973ء یا1997ء میں ہماری حکومت نہیں تھی جس کا ہم جواب دے سکیں ہم صرف اپنے عمل کے جوابدہ ہیں 1997ء میں جن کی حکومت تھی وہ سب کو معلوم ہے اس وقت وزیراعظم سے سوال کرنے کی بجائے گاڑی چلا کر انہیں چاغی لیجایا گیا ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی حکومت نے اب تک ایک ہزار اسکیمات پر ٹینڈرز کئے ہیں اتنا کام گزشتہ تین حکومتوں میں بھی نہیں ہوا اپوزیشن حکومت کے اچھے کاموں کو سراہے۔

اس موقع پر ایک بارپھر رکن اسمبلی ثناء بلوچ اور سردارعبدالرحمان کھیتران کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے ہزار گنجی میں ماشہ خوروں کے کیمپ کے خلاف پولیس کی کارروائی کا نکتہ اٹھایا جس پر وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے جواب دیا کہ ماشہ خوروں کے مسائل حل کرنے کے لئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں گے اس سلسلے میں اجلاس بھی بلائیں گے۔اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں اغواء ہونے والے نوجوان سید غوث اللہ کے قاتلوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو بلا کر ان سے وضاحت طلب کی جائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ غوث اللہ کے والد سمیت ان کے خاندان کے افراد کو چار مرتبہ اغواء کیاجاچکا ہے وہ اسی ملک کے شہری ہیں تاوان دینے کے باوجود بھی غوث اللہ کو قتل کیاگیا لیکن اب تک قاتلون کی نہ تو نشاندہی ہوئی نہ ہی گرفتاری عمل میں آسکی جو حکومت عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی وہ حکومت کرنے کے لائق نہیں اس موقع پر ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ سی پی او کوئٹہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ داخلہ بلوچستان ڈپٹی سپیکر چیمبر میں آکر واقعے کے حوالے سے رپورٹ دیں۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں زمینداروں نے اسمبلی کے باہر احتجاج کیا جس پر ان سے مذاکرات کئے گئے اور کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی کروائی جائے گی لیکن اب تک معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، وزیراعلیٰ کے مشیر مٹھاخان کاکڑ نے ژوب میں پی آئی اے کی پروازوں کی بندش کا معاملہ ایوان میں اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ژوب سے پی آئی اے کا آپریشن دوبارہ بحال کیا جائے۔اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ نے ریکوڈک سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر معدنیات سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت نے ریکوڈک کیس کے بارے میں عالمی سطح پر اقدامات اٹھائے ہیں۔

اگر جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے اگست2019ء کے بعد ریکوڈک کیس کے بارے میں جتنے بھی اقدامات اٹھائے ہیں ان کی مکمل تفصیل ایوان کو فراہم کی جائے جس پر وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے بتایا کہ بین الاقوامی ثالثی فورم نے ریکوڈک سے متعلق چھ ارب ڈالر کا جرمانہ بلوچستان حکومت پر عائد کیا ہے اس سلسلے میں کیس کی پیروی کے لئے وکلاء سے ہماری ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے ریکوڈک کے معاملے پروفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ سے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے حکومت بلوچستان اور حکومت پاکستان اس معاملے میں فریق ہے ہمارا مقصد ہے کہ اس معاملے کا کسی طرح سے حل نکالا جاسکے تاکہ جو مصیبت آن پڑی ہے اس سے ہم نکل سکیں ریکوڈک حکومت کی نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے جس پر ہم کوئی بھی کمپرومائز نہیں کریں گے اس سلسلے میں اپوزیشن کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کو تیار ہیں صوبے میں مائنزاینڈ منرلز سے متعلق کمیٹی قائم ہے اپوزیشن چاہے تو وہاں وکلاء کو بلا کر انہیں بریفنگ دے دیں گے۔

ثناء بلوچ نے کہا کہ حکومت معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے 14اکتوبر کو حفیظ شیخ اور اٹارنی جنرل نے اس سلسلے میں کمپنی حکام کے ساتھ ملاقات کی ہے اور22اکتوبر کوعمران خان نے دورہ حب کے موقع پر اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ریکوڈک سے متعلق ٹھیتیان کمپنی کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ معاملے کی تفصیلات کو ایوان میں پیش کیا جائے۔اس دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں نوک جھونک ہوئی اورتندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا بعد ازاں ڈپٹی سپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دی۔

اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی اکبر مینگل نے پی پی ایچ آئی سے متعلق توجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ حکومت نے نیب تحقیقات کا سامنا کرنے والی تنظیم پی پی ایچ آئی کوہائی ویزیر ریکسیو سینٹرز قائم کرنے کا 3 ارب اورژوب میں کروڑوں روپے کا تعمیراتی منصوبے کے حوالے کیا گیا ہے اگر جز الف کا جواب اثبات میں ہے تو حکومت نے جو منصوبے پی پی ایچ آئی کے حوالے کئے ہیں ان کی مکمل تفصیل فراہم کی جائے نیز مذکورہ منصوبے کے حوالہ کرنے کی وجوہات بھی بتلائی جائے، جس پر صوبائی وزیر صحت نصیب اللہ مری نے آئندہ اجلاس میں تفصیلات پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔