خضدار: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنایزشن پجار کی سابق صوبائی پریس سیکرٹری شکیل بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او بلوچ قوم کے لیے ایک روشن آلہ کی مانند ہے جسکے ذریعے سے بلوچ قوم کو بہتر نماہندگی ملی بی ایس او شروع دن سے انتہائی کٹھن حالت سے گزری ہے یہ تنظیم اس سماج میں تخلیق ہوئی جسکو نوابوں، سرداروں، میر، ٹھکریوں اور نائبوں نے اپنا ملکیت بنایا ہوا تھا۔
معاشرے کے ایسے کرداروں کے خلاف کھڑاہوجانا اور سماج کے ہر برائی کو چیلنج کرنا ایک انقلاب ہی ہوسکتی ہے اور ایسے ماحول میں بی ایس او کی نام سے ایک تحریک شروع ہوجانا اور اسے متحرک کرنا مشکل اور کٹھن حالت سے نمٹنے کے لیے باصلایت قیادت ہی کر سکتی تھی بی ایس او کو بلوچ قوم کی طرف سے باصلایت قیادت میسر ہوئی جن میں ڈاکٹر عبدلحی بلوچ جو بانیِ بی ایس او جس نے بی ایس کو بنایا اور انکا مخلص اور قوم دوست ٹیم اسکے ہمرا تھیں جنوں نے اس تنظیم کی خاطر اپنی جانوں تک کا نظرانا پیش کیے جنکو بلوچ میں پیدا ہونے والا ہر با ضمیر شخص قوم کا خیر خواہ تصور کرتے ہے۔
ضیاء دور میں بلوچستان کی سیاست پر مکمل پا بندی لگا دی گیی تھی مگر اسی دور میں بی ایس کے ہر نوجوان نے نچلا اور متوسط طبقوں کی حقوق دلانے کے لیے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر جدوجہد جاری رکھیں اور سیاست کو بلوچستان کے سر زمین میں زندہ رکھا بی ایس او کو بننے کے پہلے دن سے لیکر آج تک بالادست اور بلوچ دشمن عناصر نے بی ایس او کو تقسیم کرنے میں کامیاب تو ضرور ہوئے مگر جو بھی آج بی ایس او کے نام سے سیاست کر رہا ہے۔
وہ بلوچ قوم کی مظلومیت کو سامنیرکھ کر سیاست کر رہا ہے جب بھی تحریکے کمزور پڑھ جاتے ہے تب ہمارے حقوق اور عزت پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے طلبہ یونینز پر پابندی کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ اور طالبات کو حراسان کر کہ ان سے ناجائز مفاد حاصل کی گیی جو تعلیمی میدان میں ہمیں واپس پیچیدھکا دینے کی عمل کی مترادف ہے طلبہ سیاست پر پابندی کی وجہ سے یہ عمل پیش آہی۔
آج واپس بلوچ قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس متابقت سے بی ایس او پجار مستونگ زون کی جانب سے مرکزی سطح پر بی ایس او کی 52 واں یوم تاسیس منایا جارہا ہیجو ایک پیغام ہے کہ بی ایس او پجار اپنے عظیم لیڈروں کی سوچ سے بلوچ قوم کے ننگ و ناموس اور انکے حقوقوں کی حفاظت کے لیے میدان میں سیاست کر رہا ہے۔