کو ئٹہ : محمد اسحاق ریکی کوئٹہ کے گوردتھ سنگ روڈ پہ قائم تین کمروں پر مشتمل اپنے چھوٹے سے کارخانے میں گزشتہ بیس سال سے قیمتی پتھروں کی تراش خراش کا کام کرتے آرہے ہیں۔
وہ اپنے کارخانے میں کم وسائل کے باعث دیسی ساختہ مشینوں کی مدد سے قیمتی پتھروں کی تراش کر خوبصورت شکل دیکر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں در آمد شدہ مشینوں کی قیمت مارکیٹ میں سات سے آٹھ لاکھ روپے ہونے کے باعث وہ انہیں خرید نہیں سکتے۔محمد اسحاق ریکی کہتے ہیں کہ لوگ پامسٹ کے پاس جاتے ہیں جو انکے نام اور ستاروں کو دیکھ کر نگینے تجویز کرتے ہیں میں انہی پتھروں کو تراش کر انکی انگوٹھی وغیر ہ بنا کردیتا ہوں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان قیمتی پتھروں سے مالا مال صوبہ ہے۔
بلوچستان کے علاقے وڈھ سے تھوڑے فاصلے پر سارونہ میں ڈائمنڈ کواڈز، گرین گارنیٹ اور ڈائمنڈ کواڈز ونڈو کے زخائر موجود ہیں۔جبکہ چاغی میں روٹائلز اور کوارڈذ اور خاران کے علاقے زرد میں روٹائل،بروکائٹ، ایناٹائس اور ایگزنائڈ مسلم باغ اور ژوب میں بھی قیمتی پتھروں کے زخائر موجود ہیں۔ان قیمتی پتھروں کو تراش کر انگھوٹیاں، لاکٹ اور تسبیح بنائے جاتے ہیں۔
محمد اسحاق یہ شکوہ کرتے ہیں کے بلوچستان کے معدنیات ملک سے باہر جاکر ریفائن ہوتے ہیں جس کے بعد ہم انہیں مہنگے داموں خریدتے ہیں۔انکا مذید کہنا تھا کہ اگیڈ کو میں اپنے کارخانے میں ریفائن کرکے اچھے پیسے کما رہا ہوں اگر ان قیمتی پتھروں کے لئے انڈسٹریز لگائی جائے تو نہ صرف بے روزگاری ختم ہوگی بلکہ ملک بھی ترقی کرے گا۔