|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ آواران سے گرفتار خواتین کو فوری طورپررہا کرکے واقعے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے،بھاری مالیت کے ہتھیاررکھ کرجوتصویر بنائی گئی اس میں خواتین کے پیروں میں جوتے تک نہیں ہیں۔اسلامی اورصوبے کی قبائلی روایات کے برعکس اقدام ہمارے قومی تشخص پرحملے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ اورہائی کورٹ آواران میں خواتین کی گرفتاری کے واقعات کاازخودنوٹس لیں،چیف آف آرمی اسٹاف کو خودبھی اس کا نوٹس لیناچاہئے،واقعے کیخلاف7دسمبرکوبلوچستان کے تمام اضلاع کے ہیڈکوارٹرزمیں پریس کلبزکے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر ملک ولی کاکڑ، سابق رکن قومی اسمبلی میر عبدالرؤف مینگل اور رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی،رکن اسمبلی زینت شاہوانی، منظور بلوچ، موسیٰ بلوچ، بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ، اراکین اسمبلی میر محمد اکبر مینگل، احمد نواز بلوچ، ساجد ترین ایڈووکیٹ، میر خورشید جمالدینی، جمال لانگوودیگر بھی موجود تھے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے قائمقام صدر ملک ولی کاکڑ نے کہا کہ 29اور30نومبرکی درمیانی شب آواران کے مختلف علاقوں سے چادروچاردیواری کے تقدس کوپامال کرتے ہوئے حمیدہ بی بی،نازک بی بی،سعیدہ بی بی اورسکینہ بی بی کو چادراورچاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں ان کے گھروں سے اٹھایاگیا ایسے واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

مہذب دنیا عالمی برادری اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوایسے واقعات کانوٹس لیناچاہئے انہوں نے کہا کہ یہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں بلکہ طویل عرصے سے ایس واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں مزکورہ خواتین کو پہلی رات کسی کیمپ میں لے جایا گیا چوبیس گھنٹے بعد پولیس اورلیویز اہلکاروں کو بلا کر خواتین کو ان کے حوالے کیا گیا اورپولیس اہلکاروں نے روایتی اندازمیں خواتین کے سامنے اسلحہ رکھ کر ان کی تصویریں بنائیں پہلے سے رکھے گئے۔

اسلحہ کیساتھ بنائی جانے والی تصاویرجھوٹے مقدمے کاثبو ت ہے ان خواتین کو چوبیس گھنٹے بعد ڈپٹی کمشنر آواران کے گھر لے جایاگیا جہاں ڈی سی نے علاقے کے معتبرین کوخواتین کو جلدچھوڑنے کی یقین دہانی کرائی مگررات ایک بجے ان خواتین کو ایمبولینس کے ذریعے خضدارپہنچایاگیایہ خواتین شدیدبیماربھی ہیں طویل سفرکے بعد جب انہیں خضدارپہنچایاگیا توان کی حالت دیکھ کر جیل حکام نے ان خواتین کوجیل میں رکھنے سے انکارکیاجس پران خواتین کو خضدارہسپتال لے جایاگیا۔

جہاں اس وقت بھی وہ کسمپرسی کی حالت میں موجودہیں اوران سے ملاقاتوں پرپابندی ہے،انہوں نے کہا کہ خواتین کو لاپتہ کرکے بلوچستان کو بحرانی حالت سے دوچارکیاجارہا ہے ہماری پارٹی نے ہمیشہ بلوچ روایات کے برعکس اقدامات اورطاقت کے زورپرمسائل کے حل کی مخالفت کی،بلوچ خواتین کو لاپتہ کرکے ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کرنا باعث شرم ہے ان خواتین پرتمام الزامات واپس لے کر انہیں رہا کیا جائے اورآئندہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے موثراقدامات کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس قسم کی کارروائیوں کا سلسلہ سترسال سے جاری ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اوراس کاسیاسی حل نکالاجائے،انہوں نے کہا کہ اسلامی اورقبائلی روایات کے برخلاف اقدامات کی اجازت نہیں دی جاسکتی معاملے کی فوری تحقیقات کو یقینی بنایاجائے۔

انہوں نے تمام اضلاع کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ہفتہ 7دسمبرکوتمام پریس کلبزکے سامنے احتجاجی مظاہروں میں بھرپورشرکت کریں۔پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق رکن قومی اسمبلی رؤف مینگل نے کہا کہ صوبائی حکومت کی نااہلی کے باعث اس کی ناک کے نیچے خواتین کی بے حرمتی ہورہی ہے سپریم کورٹ اورہائی کورٹ آواران میں خواتین کی گرفتاری کے واقعات کاازخودنوٹس لیں مہذب دنیا سیاسی جماعتیں طلباء تنظیمیں اورصحافی اس سلسلے میں اپنا کرداراداکریں۔

یہ واقعہ کسی صورت بلوچستان یونیورسٹی کے واقعے سے کم نہیں انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو خودبھی اس کا نوٹس لیناچاہئے انہوں نے کہا کہ دوروزبعد شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اس مسئلہ کواٹھائیں گے اوربلوچستان اسمبلی کااجلاس بھی ریکوزیشن پرطلب کریں گے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء اوررکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جب لوگوں کو لاپتہ کئے جانے کاسلسلہ شروع ہواہم نے پہلے دن ہی اس کیخلاف آوازبلندکی بدقسمتی سے جمہوری دورمیں بھی یہ سلسلہ جاری ہے لاپتہ افرادکی بازیابی کے حوالے سے تھوڑی بہت پیشرفت کے بعد اب یہ سلسلہ دوبارہ رک گیا ہے آواران سے خواتین کواٹھانے کاواقعہ ہمارے قومی تشخص پرحملے کے مترادف ہے۔

ایسے اقدامات سے بلوچستان کے عوام احتجاج پر مجبورہوں گے انہوں نے صوبائی حکومت کو کڑی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فوری طورپرتحقیقاتی کمیشن کاقیام عمل میں لاکر ایسے واقعات کاتدارک یقینی بنایاجائے ایک سول پرپارٹی کے قائمقام صدرملک عبدالولی کاکڑنے کہا کہ آواران واقعے سے صوبائی حکومت اپنے آپ کوبری الذمہ قرارنہیں دے سکتی۔

انہوں نے کہاکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن خواتین کے سامنے بھاری مالیت کے ہتھیاررکھ کرجوتصویر بنائی گئی اس میں خواتین کے پیروں میں جوتے تک نہیں انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سیاسی جماعتیں طلباء تنظیمیں وکلاء اورمیڈیا اپنا کرداراداکریں۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کوایک منصوبے کے تحت دیوارسے لگایاجارہا ہے جس میں موجودہ صوبائی حکومت برابرکی شریک ہے پارٹی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ صحافی اپنے قلم سے چادراورچاردیواری کے تقدس کو پامال کئے جانے کے واقعات کو اجاگرکریں۔