محترم جناب جام کمال خان عالیانی صاحب
السلام و علیکم!
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ تعلیمی آگاہی مہم سے متعلق اس سے پہلے ہم سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کو کھلا خط ارسال کر چکے ہیں جس میں آواران کی تباہ حال تعلیمی نظام کی پوری منظر کشی کی ہے چونکہ تعلیمی مہم سے متعلق ہماری آپ سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے اس لیے خط کا سہارا لے رہے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کا ذکر آپ بسا اوقات اپنی گفتگو میں کر چکے ہیں۔23 اکتوبر 2019 کو شروع کی جانے والی “بلوچستان ایجوکیشن سسٹم” مہم جو تاحال جاری ہے سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری پیغامات، معلومات، حقائق کی منظرکشی کر کے اب تک ہم جتنا بھی کام کر چکے ہیں اس میں آپ کو اور آپ کی حکومت میں شامل دیگر اراکین کو باخبر رکھنے کے لیے پوسٹوں میں ٹیگ اور مینشن کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ آواران کا وہ تعلیمی منظرنامہ جو آپ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہے، ان حقائق و تکلیف دہ مناظر کی منظرکشی آواران سے نہ سہی دارالخلافہ میں بیٹھ کر حکومتی اراکین کر سکیں۔
جناب والا!
آواران کی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے آج تک ایسا لیڈر نہیں ملا جو اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے دکھ درد کا پیمانہ معلوم کر پاتا اور ایوانوں کی سیڑھی پر چڑھ کر ان مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھاتا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ گزشتہ چار دہائیوں پر مشتمل آواران کے اقتدار کی کرسی پر صوبائی و ضلعی سطح پر تین خاندانوں کا تسلط رہا۔ میر عبدالکریم بزنجو سے لے کر تاحال کرسی پر براجمان آپ ہی کی پارٹی کے مضبوط رکن اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو، ان کے والد مرحوم عبدالمجید بزنجو، نصیر بزنجو، جمیل بزنجو، گچکی فیملی کے شہید اسلم گچکی اور ان کے فرزند قمبر گچکی اور دو بار ضلعی ناظم رہنے والے خیر جان بلوچ آواران کے بچوں کو ان کے تعلیمی حقوق نہیں دلا سکے۔ مرکزی سطح پر آواران کو ایوان تک رسائی نصیب نہیں ہوا، قومی اسمبلی کی پوزیشن کے لیے آواران کا ناطہ جب تک لسبیلہ سے بندھا رہا تو وہ پوزیشن آپ کے والد جام محمد یوسف، آپ کی بہنوئی پیر عبدالقادر گیلانی اور 2013 میں آپ ہی کے حصے میں آیا مگر آواران قومی اسمبلی کی انہی پوزیشنوں پر اپنی نصیب کا تعلیمی حصہ حاصل نہ کر پایا۔
جناب والا!
اس وقت آواران کا تعلیمی میدان خصوصی توجہ کا منتظر ہے آواران کے تعلیمی شعبے پر ماضی میں جو تجربات کیے گئے اور اس میدان کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال میں لایا جاتا رہا، اس کے بھیانک اثرات تعلیمی میدان پر پڑے اور جو فصل بویا گیا،آنے والے وقتوں میں اسے کاٹنے کے لیے ایک عمر درکار ہوگی۔ آواران کے بچے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر یہ اس وقت ممکن ہوگی جب تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا نظام فعال ہوگا۔ آواران میں اس وقت سکولوں کی کل تعداد 380 ہے جن میں 192 سکول بند ہیں۔ اور جو کھلے ہیں وہ ٹیچرز کی قلت اور بجٹ کے عدم حصول کا سامنا کر رہے ہیں۔ 210 اساتذہ غیرحاضر ہیں مگر ان غیرحاضر اساتذہ کو تنخواہیں ان کے گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ 70 کے آس پاس وہ سکولزبھی بند ہیں جن کی مد میں بجٹ منظور کی جا چکی ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے آواران کے زیادہ تر سکول کلسٹر بجٹ سے محروم ہیں اور بجٹ تعلیمی ذمہ داران سیاسی و ذاتی و مفادات کے حصول کے لیے استعمال میں لاتے رہے ہیں۔ اور تو اور جو سکول موجود ہیں انہیں کھلوانے کے بجائے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے 2018 میں جب وہ وزیراعلیٰ تھے، نئے 92 سکولوں کی منظوری دے کر آواران کے تعلیمی میدان کو مزید تباہ حالی کے لیے تیار کر گیا۔
جناب والا!
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے حوالے سے بتاتے چلیں کہ ہم نے مہم کو لے کر آواران کا تعلیمی خاکہ نہ صرف سوشل میڈیا اور میڈیا کے توسط سے صوبائی اور وفاقی حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کی بلکہ اس کے لیے اداروں اور ذمہ داران تک رسائی حاصل کی۔ آپ ہی کی ٹیم کے ایک اہم رکن صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی سے ملاقات کی،انہیں آواران کا تعلیمی خاکہ پیش کیا۔ مشیر تعلیم محمد خان لہڑی سے دو بار ملاقات کی اور انہیں دستاویز دئیے۔ سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان محمد طیب لہڑی کو نہ صرف کھلا خط لکھا بلکہ ان سے دو بار ملاقات کی اور حقائق کا خاکہ بمعہ ثبوت فراہم کیے۔ 8 نومبر 2019 کو ہم چئیرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم سے ملے، انہیں آواران کا تعلیمی خاکہ پیش کیا۔ چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی اختر حسین لانگو سے ملاقات کی آواران کا تعلیمی خاکہ پیش کیا۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے در تک گئے مگر موصوف سے ملاقات نہیں ہو پائی۔ ڈپٹی کمشنر آواران حسین جان بلوچ سے آواران میں ملاقات کی اور خاکہ پیش کیا، نئے ضلعی آفیسر تعلیم محمد انور جمالی سے ان کے آفس میں ملاقات کی ثبوت اور خاکہ فراہم کیے تاکہ انہیں کام کرنے میں آسانی ہو۔
جناب والا!
آواران کسی زمانے میں مکران سے جڑا ہوا تھا،بعد میں اس کا الحاق قلات کے ساتھ ہوا، کبھی یہ خضدار کا حصہ تھا مگر مکمل وابستگی ضلع لسبیلہ سے رہی ہے یہ وابستگی نہ صرف دونوں علاقوں کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ معاشی ذرائع کے حصول کے لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے دست و بازو کی حیثیت رکھتے ہیں مکران کوسٹل ہائی وے کا راستہ ہموار کرنے کے بعد آواران کا ناطہ مکران اور دیگر اضلاع سے کٹ کر رہ گیا مگر یہ رشتہ لسبیلہ کے ساتھ مزید مضبوط ہوگیا۔آواران جو شورش سے بری طرح متاثر ہوا تو لسبیلہ ہی تھا جس نے آواران سے نقل مکانی کرنے والوں کو پناہ دی۔ اب لسبیلہ ان کے لیے پناہ گاہ نہیں بلکہ مستقل رہائش کا ٹھکانہ بن چکا ہے جن میں ایک بڑی تعداد سرکاری ملازمین کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو حالات کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے یا زلزلہ کے بعد کی صورتحال نے انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا،ان میں اساتذہ کی طویل فہرست موجود ہے۔ اب ان کی لسبیلہ میں مستقل رہائش نے تعلیم کے میدان کو بھی متاثر کیا ہے موجودہ صورتحال میں ان کی واپسی کے لیے انتظامات کیے جائیں تاکہ سکولوں کا نظام بحال کرنے میں آسانی پیدا ہو۔
جناب والا!
ہمارا کام نشاندہی کرکے بچوں کی آواز آپ تک پہنچانا ہے کارروائی کرنا ذمہ داران کا کام ہے۔ اس وقت پورا معاشرہ انصاف اور احتساب کا طلبگار ہے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اْن بچوں کو انصاف دلائیں گے جو محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کی غلط پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ کر تعلیم سے دور ہوئے، ان بچوں کی تعلیمی زندگی بچائیں جو سکولوں کی بندش کی وجہ سے حصولِ علم سے دور ہیں۔امید ہے آپ اس کارخیرسب سے آگے ہوں گے۔
والسلام
شبیر رخشانی
مہم آرگنائزر
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم
Haneef kakar
زبردست شبیرجان