|

وقتِ اشاعت :   December 6 – 2019

کوئٹہ: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام بچوں کی کم ازکم عمر16سال کے تعین اوربلوچستان سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کے معاملے پر بلوچستان کے صوبائی وزراء اراکین اسمبلی عام افراد اور سول سوسائٹی کی تجاویز کوفائنل رپورٹ میں شامل کرکے سینٹ میں پیش کیاجائے گا۔

نئے صوبوں کے قیام کیلئے آئین میں بڑی تبدیلی ضروری ہے بلوچستان کے حوالے سے تینوں بلوں پرتفصیلی بحث ہوئی، صوبے کو کسی صورت نظرانداز نہیں ہونے دیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کوکوئٹہ میں اراکین اسمبلی کے اجلاس اورکھلی کچہری سے خطاب کے دوران کیا اس موقع پر کمیٹی میں شامل سینیٹرز بھی موجود تھے۔

اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل،سینیٹر میر سرفراز بگٹی،سینیٹر انور الحق کاکڑ،رکن صوبائی اسمبلی جان محمد جمالی،اصغر خان اچکزئی،سیدفضل آغا،ملک نصیر شاہوانی،اختر حسین لانگو،قادر نائل،گہرام بگٹی،دنیش کمار،نصر اللہ زیرے،شکیلہ نوید دہوار،ماہ جبین شیران،ٹائٹس جانسن سمیت دیگر بھی شریک تھے۔

اس موقع پر ارکان اسمبلی نے سینیٹ میں بلوچستان کی نشستیں کم ہونے پراپنے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا اس طرح مرکز میں بلوچستان کے منتخب ارکان اور سینیٹرز کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی جودیگرصوبوں کے ارکان کومیسر نہیں ہوتی ہے۔

اس موقع پرڈپٹی اسپیکرصوبائی اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں نشستوں میں اضافہ ایک اہم معاملہ ہے اور اس پر تفصیلی غور وغوص ہونا چاہیے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے بلوچستان کے عوام کی طرز زندگی میں مثبت تبدیلی آئے گی جو ملکی ترقی میں کاریگر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام سیاسی شعور اور بصیر ت رکھتے ہیں اور یہاں سیاسی جمہوری ماحول پروان چڑھ رہا ہے ایسے میں اگر اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوگا تو بلوچستان کے لوگوں کو نہ صرف اپنے مسائل کے حل میں معاونت ملے گی بلکہ مرکز میں بھی بلوچستان کی نمائندگی بہتر انداز میں ہوسکے گی۔

سیدفضل آغا نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ محب وطن اور ملک کی ترقی میں اپناکردار ادا کرتے رہیں گے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو احساس محرومی نے ہمیشہ پیچھے کی طرف دھکیلا تاہم ہم سمجھتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کواہمیت دیتے ہوئے ان کی رائے کو سمجھاجائے مرکزمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں میں اضافہ یہاں کے عوام کے مسائل کے حل میں بڑی پیشرفت ہوگی۔

رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمدجمالی نے کہا کہ بلوچستان وسیع العریض رقبے پر محیط ہے اور یہاں آبادی دور درازعلاقوں تک پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے منتخب نمائندگان کے پاس آتے ہیں تاہم نمائندگان کو ان کی دہلیزتک سہولیات میسرکرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ایک کروڑ 30لاکھ کی آبادی میں منتخب نمائندوں کی تعداد انتہائی کم ہے قومی ا ور صوبائی نشستوں میں اضافہ بلوچستان کی ترقی میں اہم پیشرفت ہوگی۔

رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا کہ بلوچستان چونکہ ملک کا 43فیصد رقبہ ہے اور 43فیصد رقبے کے لحاظ سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی کم ہے ہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اس اقدام کوسراہتے ہیں اور اس کی بھر پورحمایت کرتے ہیں قومی اسمبلی میں اگر دیکھا جائے تو 342کے ایوان میں بلوچستان کی نمائندگی 16نشستوں تک محدود ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے اگر ایوان میں بلوچستان کی نمائندگی بڑھا دی جائے تو ان کی رائے کو اہمیت حاصل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے ڈی جی خان تک قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے جو ایک بڑا رقبہ ہے وفاقی بجٹ کی ہی بات کی جائے تو اس کی منظور میں بلوچستان کی نمائندگی کم ہے یہاں 800کلو میٹر سے زائد علاقے پر ایک قومی ا سمبلی کا حلقہ ہے اسی طرح مکران بارڈر تک قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست ہے منتخب ایم این اے 5سال میں اپنے پورے حلقے کادورہ تک نہیں کرسکتا ایسے میں منتخب نمائندگان سے عوامی مسائل کی حل کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بھی ہم چاہتے ہیں کہ اسے آبادی کے بجائے رقبے کی بنیاد پر تقسیم کیاجائے تاکہ بلوچستان میں جو مسائل درپیش ہیں ان کاخاتمہ ہو رکن صوبائی اسمبلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین اختر حسین لانگو نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھا ہوگا کہ پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کے بعد سینیٹ میں نمائندگی کا توازن کے طرح لا یا جائے گا۔

کیونکہ اس سے بلوچستان کی نمائندگی بھی شدید متاثرہوگی اگراس جانب توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں بلوچستان کے منتخب ارکان کی رائے کی اہمیت مزیدمتاثر ہوگی انہوں نے کہا کہ پہلے ہی بلوچستان پسماندگی کے اندھیروں میں جا چکا ہے آج بھی بلوچستان کے صرف 30فیصد علاقوں میں گیس میسر ہے جبکہ دیگرعلاقوں میں گیس کے مالک اہل بلوچستان اس سے محروم ہیں اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو احساس محرومیوں میں اضافہ ہوگا۔

سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہاکہ بلوچستان کا کیس وفاق کے سامنے رکھیں گے اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں اور منتخب ارکان کو اس حوالے سے جوبھی تحفظات ہیں اس کے خاتمے کیلئے تمام تر جہد کی جائے گی تاکہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پرگامزن کرتے ہوئے یہاں کے لوگوں کوایک بہتر زندگی فراہم کی جاسکے کیونکہ بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی ہے اور ہم سب ملکر ترقی کی یہ مناظر طے کرینگے۔

بعدازاں مقامی ہوٹل میں پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم اس ملک میں کس حالت میں رہ رہے ہیں ہماری اکائی کہاں ہے ہمیں اس صوبے میں رہنے دیاجائے کے پی کے میں میانوالی کو شامل کیاجائے ہماری نشستیں بڑھائی جائیں لیکن اس میں اختیارات اپر ہونے چاہئیں جو صدر اور وزیراعظم کیلئے بھی ہوں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی دو سالہ اسکیموں کو نکال دیاگیا ہے ہرنائی سے ڈویژنل ہیڈکوارٹر جانے کیلئے45کلو میٹر کا راستہ اختیار کرناپڑتا ہے ہمیں وسائل پر اختیار دیاجائے پشتونوں کومزید تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔

سابق سینیٹر فضل آغا نے بھی بلز کی حمایت کی عیسیٰ روشان کبیر افغان سمیت سول سوسائٹی کے افراد نے اپنے ضروری تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے بلز کی حمایت کی، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی سول سوسائٹی وکلاء اور میڈیا کے نمائندوں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز نے ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل، بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے اور لیبر قوانین میں بچوں کی حد عمر چودہ سال سے بڑھا کر سولہ سال کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ضروری آئینی ترامیم کے زریعے بہتر قانون سازی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے

بلوچستان سے متعلق عوامی شنوائی (پبلک ہئیرنگ) ہوئی جس میں اراکین صوبائی اسمبلی سول سوسائٹی وکلاء اور میڈیا کے نمائندوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور اپنی رائے کا اظہار کیا اور تجاویز دیں اس موقع پر چیئر مین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سینٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ تینوں بلوں سے متعلق رائے عامہ اور سفارشات ضروری تقاضہ ہے اور یہ ہمارے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں قومی اتفاق رائے سے مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودہ جات کی جامعہ دستاویزات مسائل کے  پائیدار حل کی جانب اہم پیش رفت ثابت ہونگی انہوں نے کہا کہ پبلک ہئیرنگ میں نہایت اہم تجاویز سامنے آئیں جو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے لیے نہایت معاون ثابت ہونگی۔